حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی میں میئر کے انتخابات کو جماعت اسلامی اور بالخصوص میئر کے لئے اس کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن نے جو لسانی رنگ دیا اور اسے جس طرح منصورہ کی ٹکسال میں گھڑی تاریخ کا چونا لگایا اسے سوشل میڈیا پر وہ سب لئے دوڑے پھر رہے ہیں جنہوں نے ہمیشہ "سنی سنائی” کو ایمان کا حصہ بناکر آگے بڑھایا ہے۔
جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن اور جماعت کے تازہ ہمدردوں کو آجکل شیخ مجیب الرحمن پر بہت پیار آرہا ہے۔ پچھلے چند دنوں سے سارے مچونے اَت اٹھائے ہوئے ہیں کہ بھٹو نے پاکستان توڑا تھا۔
گزشتہ کالم میں اس حوالے سے چند باتیں عرض کی تھیں۔ جماعت اسلامی کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود کو مسلمانوں کی عالمگیریت کی محافظ و داعی اور پاکستان کی مقبول جماعت سمجھتی ہے۔
1970ء کے انتخابات میں جماعتی قیادت کو فتح مبین کا یقین تھا اس یقین کی ایک وجہ یکم مئی 1970ء کو منائے گئے یوم شوکت الاسلام پر نکالے گئے میلوں لمبے جلوس تھے۔ جماعت اسلامی کو 1970ء کے عام انتخابات میں اپنی ’’بے مثال‘‘ کامیابی کا اتنا یقین تھا کہ وفاقی اور صوبائی کابینائیں طے کرلی گئی تھیں
لیکن جماعت اسلامی کبھی یہ نہیں بتاتی کہ اس کی ذیلی تنظیموں نے مشرقی پاکستان میں فوجی رجیم کے ساتھ مل کر کیا کیا مظالم ڈھائے۔
ایک ظلم بطور حوالے لکھے دیتا ہوں یاد رہے کہ حسینہ واجد کی حکومت نے سقوط مشرقی پاکستان کے بعد دہلی میں ہونے والے تین ملکی معاہدے (پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا کہ بنگلہ دیش اور بھارت جنگی جرائم کے الزام میں مقدمہ نہیں چلائیں گے) کی خلاف ورزی کرکے جماعت اسلامی والوں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات چلائے اور انہیں پھانسیاں دیں
پچھلے چند برسوں میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد عدالتی سماعتوں میں سزاوار ٹھہرائے گئے تین ملکی معاہدہ کی خلاف ورزی ایک الگ موضوع ہے
اس سلسلہ کے آغاز پر طالب علم نے ایک تفصیلی کالم لکھ کر چند سوالات اٹھائے تھے۔ بہرطور فی الوقت ہم اس پر بات کررہے ہیں کہ یہ جماعت اسلامی کو ایکاایکی شیخ مجیب الرحمن کا مینڈیٹ کیسے محبوب ہوگیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر بھٹو سقوط مشرقی پاکستان کے مجرم تھے تو نوجوان فوجی افسروں نے جی ایچ کیو میں منعقدہ اس کانفرنس میں ہنگامہ کیوں ا ٹھایا جس میں جنرل عبدالحمید ملک نے خطاب کرنا تھا یہ صاحب یحییٰ خان کے نائب تھے۔ نوجوان افسروں کا احتجاج اتنا شدید تھا کہ اعلیٰ فوجی قیادت کو ذوالفقار علی بھٹو سے رابطہ کرنا پڑا وہ اس وقت جنیوا میں مقیم تھے۔
بھٹو ہنگامی طور پر پاکستان پہنچے انہیں اقتدار منتقل کیا گیا۔ جماعتی اور ان کے طفیلی آج بھی بھٹو پر سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی پھبتی کستے ہیں۔
’’سنی سنائی‘‘ پر زندگی بسر کرتی مخلوق اس الزام سے رزق پاتی ہے مگر اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا کہ اس وقت ملک کا نظام یحییٰ خان کے ’’ایل ایف او‘‘ پر چل رہا تھا۔ 1970ء کے انتخابات اسی ایل ایف او کے قانون پر ہوئے تھے۔
1964ء کا صدارتی دستور کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان نے مارشل لا لگاتے وقت منسوخ کردیا تھا۔ 1956ء کا آئین فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان منسوخ کرچکے تھے اس طور انتقال اقتدار ایل ایف او کے تحت ہی ہونا تھا
اسی ایل ایف او میں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو ہی صدر مملکت قرار دیا گیا تھا۔ انتقال اقتدار نظام کی پیچیدگیاں اور دوسرے مسائل کو سمجھنے کے لئے جس مطالعے کی ضرورت ہے وہ اکثر دوست احباب اور لوگ نہیں کرتے۔
عوامی لیگ اس امر کی مدعی ہے کہ جماعت اسلامی کی مسلح ذیلی تنظیموں نے ڈھاکہ کے ریئر بازار میں سینکڑوں بنگالی اہل دانش کو قتل کیا ان میں 991اساتذہ، 13صحافی، 49ڈاکٹر، 42وکلاء اور 16فنکار شامل تھے۔
عوامی لیگ کے اس موقف کو جماعت جھوٹا الزام قرار دیتی ہے۔ جھوٹ ثابت کرنا جماعت اسلامی کا کام ہے۔ چلیں بالفرض عوامی لیگ کا یہ دعویٰ غلط ہے تو جماعت اسلامی ساٹھ برسوں سے الزامات کے جو گھوڑے دوڑارہی ہے وہ درست کیسے مان لئے جائیں۔
محض اس بنیاد پر کہ یہ الزامات جماعت اسلامی لگارہی ہے۔
میں اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں پاک فضائیہ کے ایک سابق ایئرمارشل فضل چودھری کی تصنیف ’’فضائیہ میں گزرے ماہ و سال‘‘ کا ایک اقتباس پیش کررہا ہوں۔ ایئر مارشل (ر) فضل چودھری لکھتے ہیں
’’دفاعی امور کے وزیر مملکت عزیز احمد نے مجھے فون کیا اوربتایا کہ شیخ مجیب الرحمن کو رہا کرنے کا فیصلہ ہوگیا ہے انہیں جلد ہی لندن بھجوانا ہوگا یہ انتظام اسی طرح ہونا چاہیے کہ ان کے لندن پہنچنے تک کسی کو خبر نہ ہو۔ آدھی رات کے بعد ذوالفقار علی بھٹو شیخ مجیب الرحمن اور ڈاکٹر کمال حسین (ڈاکٹر کمال شیخ مجیب الرحمن کی کابینہ میں وزیر خارجہ بنے تھے) کے ہمراہ جہاز میں داخل ہوئے تو ہم نے ایک انتہائی حیران کن اور جذباتی سین دیکھا مسٹر بھٹو اور شیخ مجیب نے ایک لمبا معانقہ کیا اور پھر شیخ مجیب الرحمن نے مسٹر بھٹو کے دونوں رخساروں پر بوسہ دیا۔
ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ ایئر مارشل (ر) فضل چودھری کے مطابق دوران پرواز شیخ مجیب الرحمن میرے ساتھ گفتگو کرتے رہے انہوں نے کہا ’’بھٹو اچھا آدمی ہے اس نے 2بار میری جان بچائی تم لوگوں کو اس کا ساتھ دینا چاہیے۔ یحییٰ خان مجھے پھانسی پر لٹکانا چاہتا تھا بھٹو نے مجھے بچالیا‘‘۔
جماعت اسلامی یقیناً ایئرمارشل (ر) فضل چودھری کی بات کو رد کرے گی بلکہ اسے اپنی جبلت کے مطابق یہودوہنود کا پروپیگنڈہ قرار دے گی کیونکہ سچی صرف جماعت اسلامی ہے۔
اس کی ساکھ اور سچائی سمجھنی ہو تو خود سید مودودی صاحب کے صاحبزادوں کی زبانی سمجھی جاسکتی ہے۔
جماعت اسلامی کے حامی دانشوروں صحافیوں نے ہمیشہ یہ پروپیگنڈہ کیا کہ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے دلوں میں علیحدگی کا زہر محکمہ تعلیم میں موجود ہندو اساتذہ نے بھرا۔ ارے واہ سات فیصد ہندو اساتذہ زہر بھرگئے اور 93فیصد مسلم اساتذہ ’’مسواک کرتے رہے‘‘۔
اصل قصہ یہ ہے کہ بٹوارے کے بعد کا پاکستان برطانیہ کی تربیت یافتہ اشرافیہ کی جنت تھا یہ اشرافیہ خبط عظمت کا شکار تھی۔ اس کے خیال میں یہ حکومت کرنے کے لئے پیدا ہوئی ہے اکثریتی آبادی بنگالیوں کی تھی ان کے حقوق نظرانداز ہوئے۔
قیام پاکستان کی تحریک میں بنگالی پیش پیش تھے لیکن جناح صاحب نے وزیراعظم ایک مہاجر لیاقت علی خان کو بنادیا کبھی غور کیجئے گا جناح لیاقت کابینہ میں بنگالی کتنے تھے۔
ون یونٹ کا فراڈ کیوں کیا گیا بنگالیوں کی اکثریت کو مساوی قرار دینے کے لئے 1947ء سے دسمبر 1971ء کے درمیانی برسوں میں کتنے اہم وفاقی عہدے بنگالیوں کو ملے؟ ایک خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل اور پھر وزیراعظم بنے۔ سکندر مرزا کو بنگالیوں کے کھاتے میں ڈال لیجئے۔
بری ، بحریہ اور فضائیہ کے کتنے سربراہ بنگالی تھے؟ سپریم کورٹ کے کتنے چیف جسٹس بنگالی؟ حساب ٹھنڈے دل سے کرنا ہوگا۔
آپ قومی اسمبلی کے سابق سپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان کی آپ بیتی ’’جمہوریت صبر طلب‘‘ تلاش کرکے پڑھنے کی زحمت کرلیجئے اٹھارہ طبق روشن ہوجائیں گے۔
سید علی جعفر زیدی کی کتاب ’’باہر جنگل اندر آگ‘‘ بارے گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا۔
اصل مسئلہ سنی سنائی کے سرطان جیسے اثرات سے نکل کر خود مطالعہ کرنا اور تحقیق و جستجو کے ڈول ڈالنا ہے۔
میں ایک عامل قلم مزدور اور جموہریت پسند کے طور پر تین ملکی معاہدے کے برعکس جماعت اسلامی والوں کے خلاف جنگی جرائم کے الزام میں مقدمات چلانے اور سزائیں دینے کا ناقد تھا اور ہوں مگر اس کا مطلب یہر ہرگز نہیں کہ جرائم ہوئے نہیں محض الزامات کی دھول اڑائی جارہی ہے۔
جماعت اسلامی فری میسن تحریک اور عالمی جیوش کانگریش کی طرح پروپیگنڈہ کرنے میں ماہر ہے۔
یہی جماعت اسلامی ہی تھی نا جس نے پہلے جنرل ٹکا خان کو ڈھاکہ کا قصائی قرار دیا تھا پھر اس کی رنگین تصاویر والے پوسٹر لگوائے جس پر لکھا تھا
’’مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے‘‘.
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ