نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جپھی ڈالنے کی بات ۔۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے وسی بابے نے آج کسی دوستانی کو سال میں تین بار جپھی ڈالنے کی بات کی ہے۔ میں ایسی ویسی باتیں لکھنے سے بچتا ہوں کہ بیوی فیس بک پر ایڈ ہے۔ پچیس سال سے وہی محبوبہ ہے۔ بڑی زندہ دل ہے اور جملے باز۔ لیکن عورت ہے نا۔ الٹی سیدھی بات پر خفا ہوجائے تو بولنا بند کردیتی ہے۔ پھر میرا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔
لیکن بھائی وسی بابے نے چنگاری بھڑکائی ہے تو بے ضرر سی ایک دو باتیں لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ زیادہ سے زیادہ ایک دو وقت بھوکا رہنا پڑے گا۔
جن دنوں ہم جیو دبئی میں کام کرتے تھے، کراچی کی ایک لڑکی کو وہاں بھیجا گیا۔ تب ہم لوگوں کو دو دو ماہ کے ویزے پر بھیجا جاتا تھا، جس میں اچھی کارکردگی پر ایک ماہ کی ایکسٹیشن
کردی جاتی تھی۔ کام کے لوگ بار بار دبئی بھیجے جاتے تھے۔
جس لڑکی کو دبئی بھیجا گیا، اس کی زلفیں بہت لمبی تھیں اور بھلی معلوم ہوتی تھیں۔ انصار بھائی نے میری ذمے داری لگائی کہ اسے سرور پر کام سکھاوں۔ وہ خوبصورت تو تھی لیکن بھنڈاری تھی۔ بہت سے بھنڈ کیے جو میرے کھاتے میں آئے۔ اسے باسز نے دوبارہ کبھی دبئی نہیں بھیجا۔
لیکن اس وزٹ پر کئی لڑکے اس کی زلفیں دیکھ کر آہیں بھرتے پائے گئے۔ ایک دن ہم ایم سی آر میں بیٹھے تھے کہ ٹرانس مشن افسر نے کہا، یار اس لڑکی کے بال کتنے خوبصورت ہیں۔ کاش میں انھیں سنوار سکوں۔ سب ہنسنے لگے۔ اتنے میں وہ لڑکی آئی اور کہا کہ مجھے سرور پر ایک رپورٹ سننی ہے۔ اس نے کنٹوپ، یعنی ہیڈفون لگایا اور رپورٹ سننے لگی۔ پھر ہیڈفون اتارنا چاہا تو اس کے بال اس میں پھنس گئے۔ اس نے بڑی کوشش کی لیکن بال الجھتے چلے گئے۔ اس نے مجھ سے کہا، پلیز مجھے اس سے نجات دلائیں۔
میں نے اس کی مدد کی اور بال سمیٹ کر ہیڈفون نکال لیا۔ وہ چلی گئی تو ٹرانس مشن کا لڑکا لوٹ گیا۔ کہنے لگا، آپ اس کی زلفیں سنوار رہے تھے تو میرے دل پر آرے چل رہے تھے۔ مجھے کیوں نہیں کہا۔ یہ کام مجھے کرنے دیتے۔ میں نے مسکراکے کہا، لڑکیوں کو معلوم ہوتا ہے کہ کس کے کیسے جذبات ہوتے ہیں۔
ایک واقعہ ابھی چند ماہ پہلے کا ہے۔ میں جس مڈل اسکول میں کام کررہا تھا، اس میں ایک خوبصورت ہسپانوی لڑکی بھی پڑھارہی تھی۔ مڈل اسکول کے لڑکے ہوتے تو ٹین ایجر ہیں لیکن ان کے جذبات منہ زور بھینسے جیسے ہوتے ہیں۔ وہ اسے دیکھ کر آپس میں گفتگو کرتے کہ یہ مل جائے تو اس کی کمر توڑ دیں۔ بس ایک بار گلے لگالے۔ ایک تو وہ ٹیچر، پھر تھوڑے غصے نخرے والی بھی تھی۔ کسی کو قریب نہیں آنے دیتی تھی۔
جس دن میں نے بتایا کہ آج میرا اسکول میں آخری دن ہے تو کسی نے خوشی کا اظہار کیا، کسی نے جھوٹ موٹ کی اداسی ظاہر کی۔ اس لڑکی کو پتا چلا تو اس نے کلاس میں سب کے سامنے مجھے ہگ گیا۔ یہاں الوداع کہنے کا یہی طریقہ ہے۔ کوئی خاص بات نہیں۔ لیکن میں نے دیکھا کہ جب وہ مجھے گلے لگارہی تھی تو سارے لونڈے جل بھن کر دیکھ رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author