مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں 80ء کی دہائی میں منیر حسین کا رسالہ اخبار وطن پڑھتا تھا تو اس کے ادارہ تحریر میں دو نام شامل ہوتے تھے، سید محمد صوفی اور مشتاق احمد۔ ان دونوں افراد کا میرے جرنلزم کرئیر میں بہت اہم کردار ہے۔ مشتاق صاحب نے پہلی جاب دلوائی اور صوفی صاحب نے بعد میں ایکسپریس اور جیو میں کام کا موقع دیا۔
مشتاق احمد سبحانی یو بی ایل میں ملازم تھے لیکن اخبار وطن کے لیے کرکٹ کے اعدادوشمار مرتب کرتے تھے۔ ہر سال انٹرنیشنل کرکٹ سیزن ختم ہونے پر جون میں اخبار وطن تمام کھلاڑیوں کے ٹیسٹ کیرئیر ریکارڈز چھاپتا تھا۔ وہ مشتاق صاحب فراہم کرتے تھے۔ آج کرک انفو کے دور میں یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ 80ء کی دہائی میں یہ کس قدر مشکل کام تھا۔
پھر میں نے بھی کرکٹ ریکارڈز اور ٹیسٹ، ون ڈے اور فرسٹ کلاس میچوں کے اسکورکارڈ جمع کرنا شروع کردیے۔ میرے مضامین اخبارات میں چھپنے لگے۔ نوے کی دہائی کے وسط میں ون ڈے کرکٹ کے ایک ہزار میچز مکمل ہوئے تو ایک کتاب مرتب کرکے چھاپ دی۔ اسپورٹس کور کرنے والے صحافی مجھے جاننے لگے۔
تب ایک دن مشتاق صاحب کا فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ ان کے ایک دوست اسپورٹس کا ہفت روزہ نکالتے ہیں۔ انھیں ایک آدمی کی ضرورت ہے۔ اگر آپ کو ملازمت چاہیے تو ان سے جاکر مل لیں۔
اس پرچے کا نام اسپورٹس ٹائمز تھا جس کے مالک انیس احمد صدیقی تھے۔ اس ادارے کا احوال کچھ عرصہ پہلے میں لکھ چکا ہوں۔ انیس صاحب حریت کے عروج پر اس میں کاتب تھے۔ پھر ڈان نے خرید لیا اور اخبار نہیں چلا تو آگے بیچ دیا۔ اس سے پہلے تمام ملازمین کو رقوم دیں۔ انیس صاحب کو جو پیسے ملے، ان سے انھوں نے دو ہفت روزہ اخبارات نکالے۔ ایک کا نام مووی تھا جس میں شوبز کی خبریں اور مضامین شائع ہوتے تھے اور دوسرے کا نام اسپورٹس ٹائمز۔
اخبار چلانے کے لیے کافی سرمایہ درکار ہوتا ہے۔ انیس صاحب کی پونجی جلد ختم ہوگئی۔ اتفاق سے انھیں ایک موٹی آسامی مل گئی۔ یعقوب کسباتی ایک میمن سیٹھ تھے جو اسٹاک مارکیٹ میں بروکر تھے۔ پیسہ بہت تھا لیکن آدمی بہت سادہ تھے۔ سادہ سے مراد یہ کہ ایلیٹ کلاس کے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا نہیں تھا۔ اسپورٹس ٹائمز کے دفتر آکر شام کو شراب پیتے تھے۔
انیس صاحب نے مووی کا مالک کسباتی صاحب کو بنادیا۔ اس کے ایڈیٹر ناصر خان تھے جو صرف سنسنی خیز خبریں اور سرخیاں ہی نہیں، ہیجان انگیز تصویریں بھی چھاپتے تھے۔ میرے جوائن کرنے سے پہلے سماج سدھار کے لیے پرعزم جماعتی لونڈوں نے دفتر پر حملہ کردیا۔ انیس صاحب نے قمیص اٹھا کے کہا، میں دل کا مریض ہوں۔ انھیں جانے دیا گیا۔ باقی سب کی چمبا پریڈ ہوئی۔ اس کے بعد مووی کا دفتر الیکٹرونکس مارکیٹ سے نشاط سینما منتقل کردیا گیا۔
میں نے جب اسپورٹس ٹائمز جوائن کیا، یہ ستمبر 96ء کی بات ہے، تو اس کا دفتر تیسری منزل پر دو کمروں میں تھا۔ بعد میں کسباتی صاحب نے اتنی بڑی بلڈنگ کی چھت خرید لی اور اس پر چھ کمروں کا بڑا سا دفتر بنایا۔ ان کے بڑے سے الگ کمرے میں ہر وقت اے سی چلتا رہتا تھا۔ اتنے اختیار اور پیسے کے باوجود شراب چھپ کر اور ڈر ڈر کے ہی پیتے تھے۔
اسپورٹس ٹائمز چھ صفحات کا اخبار تھا۔ نہ کسی خبر ایجنسی کا تعاون، نہ کوئی رپورٹر، نہ کوئی سب ایڈیٹر۔ ایک وقت میں ایک ملازم ہوتا تھا اور انیس صاحب کی قینچی۔
اس زمانے میں کئی قینچی اخبار چھپتے تھے۔ یعنی اکلوتے ایڈیٹر صاحب دوسرے اخبارات اور رسالوں کی خبریں اور مضامین قینچی سے کاٹ کے کمپوز کرواتے تھے اور ٹریسنگ پیپر پر نکال کر چھاپ دیتے تھے۔ عام طور پر ایسا ڈمی اخبارات میں کیا جاتا تھا۔ ضیا الحق کے بعد سارا میڈیا ڈرا رہتا تھا کہ نہ جانے کب ان کا اخبار یا میگزین بند کردیا جائے۔ چنانچہ ہر مالک کئی کئی ناموں کے ڈیکلریشن یعنی اجازت نامے لے رکھتے تھے۔ ایک اخبار چھپتا تھا اور باقی کی ڈمی اشاعت ہوتی تھی۔ وہ بھی ضروری تھا کیونکہ محکمہ اطلاعات میں چند کاپیاں بھیجنا لازم تھا۔ اس کے عوض کاغذ کا کوٹا ملتا تھا۔ زیادہ سیانے مالکان ان ڈمی اخبارات کو اصلی ظاہر کرکے اشتہارات بھی حاصل کرلیتے تھے۔
انیس صاحب ہفت روزوں کے علاوہ ایک ڈمی میگزین بھی نکالتے تھے۔ وہ ذمے داری بھی مجھے دی گئی۔ ابتدا میں مجھے قینچی اور ڈمی والی کہانیاں معلوم نہیں تھیں۔ چھ صفحے کا اخبار سارا اکیلا ہی نکال لیتا تھا۔ خبریں بھی خود جمع کرتا تھا یا انگریزی اخبارات سے ترجمہ کرلیتا تھا۔ انٹرنیٹ نام کی بلا تب تک نہیں آئی تھی۔ میرے پاس کرکٹ کے سیکڑوں رسالے تھے۔ ان سے رنگین تصاویر نکال کے اخبار میں شائع کردیتا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اسپورٹس ٹائمز کی اشاعت پندرہ سو سے بڑھ کے ساڑھے پانچ ہزار تک پہنچ گئی۔ انیس صاحب نے تنخواہ تین ہزار سے بڑھاکے پانچ ہزار کردی لیکن شرط لگائی کہ اخبار چھ کے بجائے آٹھ صفحات کا چھاپنا ہوگا۔
چھ صفحات تنہا چھاپنا بھی آسان نہیں تھا۔ آٹھ صفحات کا پورا کرنا مشکل ثابت ہوا۔ تھوڑا تجربہ ہوچکا تھا اور قینچی کی کہانی معلوم ہوچکی تھی۔ اخبار بھرنے کے لیے قینچی بھی چلائی۔ کھلاڑیوں کے اصلی انٹرویوز کے ساتھ جعلی انٹرویو بھی چھاپے۔ ان دنوں نے مجھے مستقبل کے لیے تیار کیا۔
کئی سال بعد جب مجھے جنگ کے رنگین اسپورٹس صفحے کا انچارج بنایا گیا تو وہ میرے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ صرف ایک صفحہ جس پر اکثر اوقات اشتہار بھی ہوتا تھا۔ فرمائشی مضامین آتے تھے اور میں انھیں ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتا تھا۔ اخبار وطن کے مالک منیر حسین اس صفحے پر مستقل مضمون لکھتے تھے۔ ساتھ تصویر بھی چھپتی تھی۔ ہر مضمون کے ساتھ وہ فوٹو بھیجتے تھے حالانکہ تصویر ایک بار بن جائے تو برسوں استعمال کی جاتی تھی۔ ایک بار میں نے ان کا مضمون فوٹو کے بغیر چھاپ دیا۔ اس پر وہ بہت ناراض ہوئے۔ مجھ سے تو کچھ نہیں کہا لیکن صوفی صاحب سے، جو ان کے ہاں اخبار وطن کے ایڈیٹر رہ چکے تھے، شکایت کی۔ صوفی صاحب نے مجھ سے کہا، میاں کبھی مضمون چھاپنا بھول جاو تو معافی ہے لیکن فوٹو چھاپنا نہ بھولنا۔
صوفی صاحب، بھائی عبدالماجد بھٹی اور نصر اقبال سے میں اصرار کرکے لکھواتا تھا لیکن وہ ہر ہفتے نہیں لکھتے تھے۔ البتہ کئی اور کنٹری بیوٹرز کے مضامین آتے رہتے تھے۔ ایک صاحب کا نام تھا محمد فہیم۔ وہ احفاظ الرحمان صاحب کا کوئی بھتیجا بھانجا تھا۔ احفاظ صاحب جنگ کے میگزین انچارج تھے۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ احفاظ صاحب کوئی مضمون دیں اور وہ نہ چھاپے۔ وہ صفحہ منظور ہی نہیں کرتے تھے۔ فہیم کے مضمون چھاپنا پڑتے۔ ان میں کرکٹ بورڈ پر انٹ شنٹ اور سخت قسم کی تنقید ہوتی تھی۔ ایسا ہی ایک مضمون چھپا تو ماجد بھائی نے کہا، کرکٹ بورڈ نے اس مضمون کا نوٹس لیا ہے اور غلط بیانی پر قانونی نوٹس بھیجنے والا ہے۔ قانونی نوٹس تو نہیں آیا لیکن میں نے احفاظ صاحب کو بتایا تو فہیم کے مضمون آنا بند ہوئے۔
ایک اور صاحب حنیف فرخی تھے۔ میں نے ایک بار ان کا مضمون نہیں چھاپا تو انھوں نے فون کرکے دھمکی دی کہ محمود شام سے شکایت کروں گا۔ شام صاحب جنگ کے گروپ ایڈیٹر تھے۔ میں نے کہا، اس بار مضمون رہ گیا تھا۔ اگلے ہفتے چھاپ دیتا۔ لیکن جائیں، اب نہیں چھاپتا۔ کریں شکایت۔ کتنی بار کریں گے؟ اس کے بعد نہ ان کا فون آیا اور نہ مضمون۔
جنگ کے اسپورٹس انچارج کو رنگین صفحے کے علاوہ مہینے میں ایک بار مڈویک میگزین کے لیے کسی کھلاڑی کا بایوگرافیکل انٹرویو بھی کرنا پڑتا تھا۔ ہر کھلاڑی کا ایسا انٹرویو ایک ہی بار چھپتا تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ کئی بڑے کھلاڑیوں کے انٹرویو آج تک نہیں ہوسکے۔ میں نے عزم کیا کہ وہ انٹرویوز میں کروں گا۔ پھر حنیف محمد، وزیر محمد، جاوید میاں داد، معین خان، عامر سہیل، اولمپین سہیل عباس، طاہر زمان، شہناز شیخ اور کئی اہم کھلاڑیوں کے انٹرویوز کیے اور احفاظ صاحب نے خوشی خوشی چھاپے۔ وہ غصے کے بہت تیز تھے اور لوگ ان سے پناہ مانگتے تھے۔ لیکن مجھ سے اتنے خوش ہوئے کہ ہر ہفتے اصرار کرکے مجھ سے سنڈے میگزین کے لیے مضامین لکھواتے تھے۔
میں ہمیشہ سے پرولیفک رائٹر یعنی بسیار نویس رہا ہوں۔ صحافت میں یہ بہت ضروری ہے۔ ایک دن میں چھ چھ مضامین لکھ لیتا تھا۔ جنگ کے اسپورٹس صفحے پر کئی بار ایسا ہوا کہ چار مضامین چھپے اور چاروں میں نے لکھے۔ ایک پر اپنا نام دیتا، دوسرے پر نذیر حسین کا، جو میری بیوی کا چھوٹا بھائی ہے۔ ایک پر تنویر مظاہر کا، جو میرا انچولی کا دوست ہے اور عرشی کے نام سے مشہور ہے۔ ایک مضمون پر جنگ رپورٹ درج کردیتا۔ میں ایسا کیوں کرتا تھا؟ کیونکہ خود لکھنا دوسروں کے مضمون ایڈٹ کرنے سے زیادہ آسان کام ہے۔ یہ اتنی لمبی تحریر دراصل صرف اتنی سی بات بتانے کے لیے لکھ ماری ہے۔ اس کا خیال بھائی عدنان خان کاکڑ کی اس پوسٹ سے آیا کہ بعض فنکار چیٹ جی ٹی پی سے انگریزی میں مضمون لکھوا کر اور گوگل سے ترجمہ کرکے بھیج رہے ہیں۔ ان کا ترجمہ درست کرنے اور تحریر ایڈٹ کرنے میں کاکڑ صاحب کو پسینہ آجاتا ہوگا۔ مجھے اچھی طرح احساس ہے۔ میں انھیں مشورہ دوں گا کہ تمام کنٹری بیوٹرز سے معذرت کریں اور چیٹ جی ٹی پی اور گوگل سے خود فائدہ اٹھائیں۔ بس ایک مسئلہ ہوگا۔ یعنی ساری دنیا کے آرٹیفیشل انٹیلی جنس سافٹ وئیر مل کر وسی بابا جیسی ایک تحریر نہیں لکھ سکتے۔ میں اس دن اے آئی کا قائل ہوں گا جب وہ وسی بابا جیسی ایک تحریر لکھ کے دکھائے گی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر