مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سے لوگ ان بکس میں آکر کہتے ہیں کہ میں انھیں فرینڈزلسٹ میں شامل کرلوں۔
میری فرینڈلسٹ میں کافی جگہ خالی ہے۔ کسی زمانے میں پانچ ہزار دوست تھے۔ لیکن کسی کو میرے شیعہ پس منظر سے تکلیف تھی، کسی کو اگناسٹک ہونے سے، کسی کو جیو میں کام کرنے سے، کسی کو فقط سوال اٹھانے سے۔
میں مشترکات کی قدر کرتا ہوں۔ کسی سے دس اختلاف ہوں لیکن ایک نکتے پر اتفاق ہو تو میں اس اتفاق کو اہمیت دیتا ہوں۔ میں حسن سلوک کا بھی قائل ہوں۔ کسی سے ذاتی تعلق ہے تو رائے کے تمام اختلاف نظرانداز کردیتا ہوں۔ لیکن ظاہر ہے کہ سب لوگ ایسے نہیں ہوتے۔
چنانچہ میں نے فرینڈلسٹ کی بھل صفائی کی۔ صرف ان لوگوں کو ساتھ رکھا جنھیں میں ذاتی طور پر جانتا تھا، یا جو تنقید کرتے ہوئے آپے سے باہر نہیں ہوتے تھے۔ اس وقت میرے فیس بک فرینڈز کی تعداد 1200 سے کم ہے۔ فالوورز البتہ 83 ہزار سے زیادہ ہوچکے ہیں۔
آپ کو یہ جان کر ہرگز حیرت نہیں ہوگی، کیونکہ آپ کو بھی تجربہ ہوگا کہ انجانے لوگ آپ سے کم نفرت کرتے ہیں۔ جو کبھی فرینڈلسٹ میں رہے ہوں، وہ باہر ہونے کے بعد زیادہ تکلیف میں مبتلا رہتے ہیں۔
بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے میسجز میرے ان بکس میں موجود ہیں۔ بہت اصرار کرکے، بہت جھوٹی تعریفیں کرکے، زمین آسمان کے قلابے ملاکر فرینڈلسٹ میں گھسے، پھر گھٹیا کمنٹ کرکے فارغ ہوئے اور اب اپنی اپنی وال پر اپنی کج فہمیوں کا رونا روتے ہیں۔
میرا تعلق میڈیا سے ہے اس لیے بہت سی پس پردہ کہانیاں جانتا ہوں جو بہت سے دوسرے لوگوں تک نہیں پہنچتیں۔ مجھے پوسٹ وائرل کرنے کا فارمولا بھی معلوم ہے۔ اتفاق سے اسٹریٹیجک کمیونی کیشنز میں ماسٹرز اور ڈیجیٹل پروڈیوسر کے طور پر کام کررہا ہوں۔ قلم کو نشتر بنانا جانتا ہوں۔ اگر میں کسی کا لحاظ کرتا ہوں تو اس نیک جذبے کی قدر کی جانی چاہیے۔
سوشل میڈیا ہم سب کے لیے نئی چیز تھا۔ ہم سب نے اسے رفتہ رفتہ سیکھا ہے۔ تعلقات کو ازسرنو استوار کرنا بھی اس نے سکھایا ہے۔ کئی افراد ایسے ہیں جن سے سخت زبان میں لڑائی ہوئی لیکن پھر احساس ہوا کہ غلطی ہوگئی۔ رائے کے اختلاف پر اچھا بندہ نہیں کھونا چاہیے تھا۔ اپنی اپنی رائے رکھ کر بھی دوستی چلائی جاسکتی ہے۔
قاری حنیف ڈار، علامہ خالد تھتھال، بھائی عقیل عباس جعفری اور کئی نام ایسے ہیں جن سے دل برائی ہوئی اور اب دوبارہ فرینڈلسٹ میں شامل ہیں۔ اس کے لیے دونوں جانب سے کوششیں اور بڑے ظرف کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔
آپ شیعوں سے پوچھ لیں، سو میں سے نوے میرے خلاف ہوں گے۔ دیوبندی شاید پچانوے فیصد خلاف ہوں۔ مجھے فری تھنکرز میں اپنا شمار کرنا چاہیے لیکن پاکستان فری تھنکرز گروپ میں میرے خلاف لمبی لمبی پوسٹیں لگتی رہیں۔ بابا کوڈا جیسا غلیظ انسان میرے خلاف لکھتا رہا۔ پی ٹی آئی کے آفیشل اکاونٹ سے میرے خلاف ٹوئیٹ ہوا۔ اے آر وائی پر میرے خلاف ہیڈلائن اور رپورٹ چلی۔ ٹوئیٹر پر ایجنسیوں کی حمایت سے کئی بار منظم مہم چلی اور ہیش ٹیگ بنائے گئے۔
میں نے کسی کی بھینس نہیں چُرائی۔ فقط اپنے برے بھلے خیالات کا اظہار کرتا ہوں۔ کسی کو پسند ہیں تو بسم اللہ۔ پسند نہیں تو کوئی اور گھر دیکھ لیں۔ کوئی زبردستی تھوڑی ہے۔
یہ سب جان کر بھی کوئی میری فرینڈلسٹ میں آئے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ میں سب کو ناراض کرنے کی خاص اہلیت رکھتا ہوں۔ کل میری کوئی بات آپ کو بری لگ سکتی ہے۔ اتنا حوصلہ ہے تو آئیں۔ ورنہ بیچ میں چھوڑ کے بھاگنے اور پھر میرے خلاف پوسٹیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ میں بدلنے والا نہیں۔ آپ کی زندگی کے برے تجربات میں خواہ مخواہ ایک کا اضافہ ہوجائے گا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ