حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئٹہ میں عمران خان اور ان کے چند ساتھیوں کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6کے تحت اندراج مقدمہ کے لئے عدالت سے رجوع کرنے والے ایک قانون دان عبدالرزاق شر کے سفاکانہ قتل کے فوراً بعد (ن) لیگ کے رہنما اور وزیراعظم کے مشیر عطا تارڑ نے عمران خان کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دینے کی جو بونگی ماری تھی اس پر ان سطور میں عرض کیا تھا ’’یہ نامناسب ہی نہیں بلکہ گھٹیا ترین الزام اور سیاسی عدم بلوغت کا مظاہرہ ہے‘‘۔
بعدازاں مقتول وکیل کے صاحبزادے نے اپنے والد کے قتل کا مقدمہ عمران خان کے خلاف درج کروادیا۔ یہ ایک اور بونگی تھی۔
بونگی اس لئے کہ میں ایک قلم مزدور کی حیثیت سے ان سطور میں لگ بھگ چوتھائی صدی سے یہ عرض کرتا آرہا ہوں کہ توہین مقدسات اور قتل کے مقدمات درج ہونے سے قبل ایک خصوصی تفتیشی ٹیم اس امر کی تسلی کرلے، مقدمہ درج کروانے والا فریق اس حوالے سے جو موقف پیش کررہا ہے اس میں صداقت کتنی ہے اور روایتی ہتھکنڈہ کتنا۔
ہم نے متعدد بار اپنے لکھے پر اس اعتراض کا سامنا کیا کہ
’’اس تجویز سے مجرموں اور گستاخوں کی حوصلہ افزائی مقصود ہے‘‘۔
ہر بار یہ عرض کیا کہ کون ملزم ہے کون مجرم اس کا فیصلہ عدالت کو کرنا ہے نہ کہ مدعی کو۔
مدعی کا موقف درست اور غلط ہونے کے امکانات ہیں اس لئے اگر ان دو سنگین قسم کے مقدمات کے اندراج سے قبل ضلعی اٹارنی، متعلقہ ایس ایچ او مقدمہ قتل کے اندراج کی درخواست پر چھان بین کرلیں تو مناسب رہے گا اس سے ایک تو حقیقی ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج ہوگی دوسرا بلاوجہ شامل باجہ کئے جانے والے پانچ سات افراد کے شہری و قانونی حقوق متاثر نہیں ہوں گے۔
توہین مقدسات پر اندراج مقدمہ کی درخواست کی چھان بین کے لئے ہر ضلع میں ڈی سی، ڈی پی او، ضلعی بار ایسوسی ایشن کے صدر اور غیرمتنازعہ عالم دین پر مشتمل کمیٹی ہونی چاہیے۔ یہ کمیٹی مقدمہ کے اندراج سے قبل مکمل چھان بین سے اس امر کی تسلی کرے کہ کیا واقعی توہین مقدسات ہوئی ہے یا محض سیاسی و مسلکی ’’ساڑ‘‘ ذاتی دشمنی یا اور کسی دوسری وجہ سے الزام لگایا گیا ہے۔
مردان یونیورسٹی کے شہید طالب علم مشال خان، سیالکوٹ میں قتل ہونے والے سری لنکن انجینئر سمیت متعدد واقعات میں یہ ثابت ہوا کہ توہین مقدسات نہیں ہوئی تھی۔
اسی طرح ملتان یونیورسٹی کے لیکچرار جنید حفیظ والے معاملے میں متاثرہ خاندان کا موقف ہے کہ عدالتی سماعت کا عمل آزداانہ نہیں تھا اس کیس کی سماعت کے دوران ایک وکیل صفائی راشد رحمٰن قتل ہوئے انہیں قتل کی دھمکی عدالت میں ہی دی گئی تھی جو حرف بحرف درست ثابت ہوئی۔
مگر راشد رحمٰن کے قتل کے بعد کسی سطح پر جے آئی ٹی نہیں بنائی گئی کہ حقائق سامنے آتے۔
یہ تین مثالیں عرض کرنے کا مقصد فقط یہی ہے کہ حساس نوعیت کے مقدمات کے اندراج سے قبل تسلی بہت ضروری ہے۔ قتل کا مقدمہ بھی حساس نوعیت کا مقدمہ ہے ایک یا چند زندگیاں ختم ہوچکی ہوتی ہیں مقدمہ کی صورت میں چند زندگیاں دائو پر لگ جاتی ہیں اس لئے اگر ابتدائی تفتیش کے بعد مقدمہ درج ہو تو اس کا فائدہ خود مدعی مقدمہ کو ہوگا۔
تمہید طویل ہوگئی لیکن وضاحت کے ساتھ اپنے پڑھنے والوں کے سامنے بات رکھنا ازبس ضروری ہے۔ توہین مقدسات کے مقدمات کا ایک تلخ پہلو اور بھی ہے وہ مقدمات کی سماعتوں میں تاخیر اور مدعی پارٹیوں کا عدالتوں پر دبائو اس لئے زیادہ بہتر ہوگا کہ ڈی سی، ڈی پی او اور بار کے صدر کے ساتھ چاروں مسلم مکاتب فکر کے ایک ایک عالم پر مشتمل کمٹیی ہر ضلع میں تین سال کے لئے بنائی جائے جو ایسے مقدمات کے اندراج کی درخواستوں اور الزامات کی چھان بین کرکے فیصلہ کرے، مقدمہ درج کرنا ہے یا جھوٹا الزام لگانے والے کے خلاف قانونی کارروائی کرنی ہے۔
مقدمہ قتل کی ایف آئی آر کے لئے بھی بس مدعی کی درخواست کو ہی کافی نہ سمجھا جائے ابتدائی تفتیش کےبعد مقدمہ درج کیا جائے۔
کوئٹہ میں عمران خان کے خلاف دائر درخواست کے مدعی وکیل کا قتل افسوسناک ہے۔ عطا تارڑ نے کھل جا سم سم کی طرح فوراً اس قتل کا الزام عمران خان پر لگادیا۔ مقتول کے بیٹے نے مقدمہ درج کروایا مقدمہ درج کرنے سے قبل اگر ابتدائی تفتیش ہوجاتی تو مناسب تھا کیونکہ اس قتل کے حوالے سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مقتول کی کچھ ذاتی رنجشیں بھی تھیں۔
ذرائع ابلاغ کے بعض اداروں نے مقتول کی اہلیہ محترمہ کے حوالے سے قتل کو ذاتی دشمنی کا نتیجہ بھی قرار دیا ہے۔
عمران خان سے اختلاف یا اتفاق ہر شخص کا حق ہے میں خود ان کا ناقد ہوں لیکن قتل جیسے سنگین مقدمہ میں ان کو نامزد کئے جانے کو ایک سیاسی بونگی کے سوا کچھ نہیں سمجھتا۔
نہ سیاسی عناد میں کسی مخالف پر مقدمہ قتل ڈلوانے کے عمل پر واہ واہ کے ڈونگرے برسانے کو درست سمجھتا ہوں۔
عمران خان کے خلاف چند مقدمات میں ریاست مدعی ہے۔ زیادہ تر مقدمات افراد کی درخواستوں پر درج ہوئے۔ مقدمات درست ہیں یا غلط اس کا فیصلہ عدالتی سماعتوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ عدالتوں میں استغاثہ کو اپنا موقف ثابت کرنا ہے۔
مکرر عرض کئے دیتا ہوں وکیل کے مقدمہ قتل میں عمران خان کو نامزد کرنے کے معاملے پر ایک جے آئی ٹی بننی چاہیے جو عطا تارڑ اور مقتول وکیل کے صاحبزادے کے معاملات کو بھی دیکھے اور تفتیش کرے کہ کیا مقدمہ عطا تارڑ کے ایما پر درج کروایا گیا یا مدعی مقدمہ کے پاس اپنے موقف کے حق میں شواہد بھی موجود ہیں۔
گزشتہ روز سینیٹ آف پاکستان سے 9مئی کے واقعہ کی مذمتی قرارداد کی منظوری یہ قرارداد قبل ازیں قومی اسمبلی نے بھی منظور کی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کی پیش کردہ قرارداد کے مطابق
’’ایک پارٹی اور اس کے چیئرمین نے 9مئی کو ملک دشمنی پر مبنی ایجنڈے کے مطابق ریاستی اداروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ 9مئی کے واقعات کے ذمہ داروں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے” ۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اس قرارداد کی منظوری دیدی ہے۔ تالیوں، مبارک باد اور فتح کے نعروں کا شور تھمے تو عرض کروں مذمتی قرارداد کے اس حصے کو کہ ذمہ داروں کے خلاف ملٹری ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے پر دونوں ایوانوں میں عام بحث کروائی جانی چاہیے تھی گو یہ بحث بے فائدہ ہوتی کیونکہ وفاقی حکومت کے ذمہ داران سیاسی تنازعات کا بوجھ بھی ملٹری ایکٹ کے تحت کی کارروائی کی ’’بوری‘‘ میں ڈالنے کے لئے اتاولے ہیں۔
ملٹری ایکٹ کے تحت تمام ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی سفارش پر مبنی قرارداد کا صاف سیدھا مطلب ملکی نظام انصاف پر عدم اعتماد ہے یقیناً اس عدم اعتماد کی وجہ نظام انصاف کا ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کو ’’ڈارلنگ‘‘ بنالینا ہی ہوگا اس کے باوجود یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قرارداد کی منظوری سے قبل سستی مخالفت کے عملی مظاہرہ کی بجائے اس پر سنجیدہ بحث ضروری تھی۔
کم از کم مجھے ایسے لگتا ہے کہ جس طرح عمران خان سے نفرت کا شکار چند لیگی وزراء قبل ازیں عمران کی گرفتاری کے معاملے میں استعمال ہوگئے تھے اب بھی وہ استعمال ہی ہوئے ہیں۔
9مئی کے واقعات کے افسوسناک ہونے پر دو آراء تھیں نہ ہیں، قرارداد منظور کرنا تھی تو پھر اس میں داخلی سہولت کاروں کا ذکر بھی ہونا چاہیے تھا۔ جلد بازی میں منظور کی گئی یہ قرارداد مستقبل میں سیاسی بونگی قرار پائے گی۔
یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ عمران خان پی ڈی ایم و اتحادیوں کی بجائے آج بھی اسٹیبلشمنٹ اور آرمی چیف سے ہی بات کرنے پر بضد ہیں اس لئے یہ قرارداد منظور کرکے بال اسٹیبلشمنٹ کی ’’ڈی‘‘ میں پھینک دی گئی ہے جبکہ پہلے یہ کہا جارہا تھا کہ 9مئی کے واقعات میں عسکری عمارتوں اور ذیلی محکموں کے دفاتر وغیرہ کے ساتھ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی ہوگی۔
حالیہ قرارداد کچھ اور کہہ رہی ہے۔ قرارداد کا متن جو کہہ رہا ہے اس پر ٹھنڈے دل کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے مگر کیا اس کے لئے حکومت کے ذمہ داروں کے پاس وقت ہے؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ