مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ایک نہایت بے ہودہ بات لکھنے والا ہوں۔ میرے عزیز رشتے دار، نفیس مزاج کے دوست اور محترم خواتین نہ پڑھیں:
ہمارے دوست اویس قبال نے میڈیا چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ وہ کوئی عام رپورٹر، کاپی رائٹر یا پروڈیوسر نہیں ہیں، اسکرین پر آنے والے اینکر ہیں۔ کئی اچھے بڑے چینلوں میں کام کرچکے ہیں۔
ان کے میڈیا چھوڑنے کی وجہ میں جانتا ہوں لیکن انھوں نے ایک اہم بات بیان کی ہے۔ پاکستانی چینلوں میں خوشامد، چاپلوسی اور جنسی کشش کی اہمیت صلاحیت سے زیادہ ہوتی ہے۔
میں دوسروں سے ہزار گنا بہتر ادارے جیو میں بھی یہ دیکھ اور بھگت چکا ہوں۔ ایک دن ایک خاتون میرے پاس آئیں اور درخواست کی کہ انگریزی کی چند سطروں کا ترجمہ کرکے کمپوز کردوں۔ وہ ایک پروگرام کی پروڈکشن ٹیم میں شامل تھیں۔ میں نے ترجمہ کرکے انھیں ای میل کی تو ایڈرس بک میں ان کے نام کے آگے پروڈیوسر لکھا تھا۔ مجھے تعجب ہوا کہ ان صاحبہ کو آتے ہی مکمل پروڈیوسر کیسے بنادیا گیا جبکہ بالکل فارغ ہیں۔ کچھ عرصے بعد انھوں نے پھر ایسی ہی کوئی درخواست کی۔ اس بار میں نے ای میل کی تو ان کے نام کے آگے ایگزیکٹو پروڈیوسر لکھا ہوا تھا۔ میں اس درمیانی عرصے میں سینئر پروڈیوسر تھا اور وہیں کچھ عرصہ مزید اٹکا رہا۔ ٹھیک ہے، وہ بہت اچھی انگریزی بول سکتی تھیں اور ڈیفنس میں رہتی تھیں لیکن میں دس سال سے جیو میں کام کررہا تھا۔ بے حد تکلیف ہوئی۔
میں جیو کے آغاز پر پہلی ٹیم میں شامل نہیں تھا۔ لیکن اس وقت بھی کچھ ایسے واقعات پیش آئے ہوں گے۔ تب ایک ویڈیو ایڈیٹر نے، جنھیں ان کے دوست ہیراپھیری کے کردار بابو راؤ گنپت راؤ آپٹے کی مناسبت سے بابو بھائی کہا کرتے تھے، ایک یادگار فقرہ کہا تھا جسے پاکستانی نیوز چینلوں کی تاریخ میں سیاہ حروف سے لکھا جانا چاہیے۔ معلوم نہیں، ان کا اپنا جملہ تھا یا کہیں سے کشید کیا تھا۔ لیکن جب اس بہترین ویڈیو ایڈیٹر نے اپنی تنخواہ چھ ہزار اور ایک کام سے ناواقف لڑکی کی تنخواہ ساٹھ ہزار دیکھی تو اس کے دل سے نکلا تھا:
"یہاں جس کے پھدی لگی ہے، اس کا پھدو لگ گیا ہے۔ اور جس کے لوڑا لگا ہے، اس کے لوڑے لگ گئے ہیں۔”
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر