نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملتانیوں کے درمیان ملتان کی باتیں۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملک ارشد اقبال بھٹہ پی پی پی کے دیرینہ رفیق و رہنما ہیں ایک طویل عرصہ سے سیاسی عمل میں پرعزم طور پر شریک ملتان کے سیاسی کارکنوں کی موثر آواز سمجھے جاتے ہیں۔ میر احمد کامران مگسی کے توسط سے ان سے کئی بار مختصر ملاقات ہوئی۔ ملتانیوں والی دائمی مسکراہٹ ان کے چہرے پر ہمیشہ سجی دیکھی۔

چند دن ادھر کی ایک صبح انہوں نے دوستوں کی ایک محفل سجائی اور ہمیں بھی یاد کیا۔ سید ریاض حسین بخاری، بابر چودھری، خواجہ ضیاء صدیقی، ملک امجد سعید اور ان کے برادر عزیز ملک ماجد تھہیم کے علاوہ میر احمد کامران مگسی بھی رونق محفل تھے۔

سات افراد کی اس محفل میں تین قلم مزدور تھے تین سیاسی کارکن اور ایک برادر عزیز ملک ماجد۔ ڈیڑھ پونے دو گھنٹے جاری رہنے والی اس محفل میں ظاہر ہے کہ سب سے زیادہ گفتگو ملکی سیاست پر ہوئی۔ سیاست پر گفتگو کے ساتھ ملتان کی تاریخ سمیت صوبے کے حصول کے لئے جاری جدوجہد، ثقافتی ورثے اور وسیب کے سیاسی شعور پر کھل کر باتیں ہوئیں۔

ملک ارشد اقبال بھٹہ چونکہ پیپلزپارٹی کے دیرینہ رفیق اور اب ملتان کے ایک حلقہ سے صوبائی اسمبلی کے لئے امیدوار بھی ہیں سو انہوں نے پیپلزپارٹی کی سیاسی ترجیحات کے ساتھ سرائیکی صوبے کے معاملہ پر اپنا موقف تفصیل سے بیان کیا۔

ملتانی کسی جگہ جمع ہوں اور ملتان کے قدیم پکوانوں کا ذکر خیر نہ ہو یہ ممکن نہیں اس لئے سنجیدہ باتوں کے ساتھ ملتانیوں کے پکوانوں اور بالخصوص صبح کے ناشتے، آلو چھولے بھیں، دال مونگ، ڈولی روٹی، حلوہ پوڑی اور سردیوں کے ناشتے میں شامل توا مچھلی کے ساتھ شام کے خصوصی پکوان چانپوں کا ذکر خیر بھی ہوا۔

اس دوران فقیر راحموں نے لقمہ دیا یارو سوہن حلوہ اور فالودہ کیوں بھول گئے۔ سرائیکی صوبے کے قیام کے حوالے سے جاری جدوجہد پر گفتگو کے دوران شرکائے محفل میں اس امر پر کلی اتفاق تھا کہ وسیب میں مقیم تمام نسلی اکائیوں کو درپیش مسائل کے ساتھ مشترکہ مفادات اور مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔ یہ بات بھی ہوئی کہ ماضی میں کچھ قوم پرست دوستوں کا صوبہ کے قیام اور غیرمقامی افراد کے لئے رویہ تلخی سے عبارت تھا جس کی وجہ سے غیرمقامی آبادیوں میں تحفظات نے جنم لیا۔

سیاسی کارکنوں اور اہل دانش کا فرض بنتا ہے کہ وہ چند بڑبولوں کے نامناسب کلمات کے زہریلے تاثر کو دور کرنے کے لئے اپنا کردار اد کریں۔

میں نے عرض کیا یقیناً پہل قوم پرستوں کی طرف سے ہونی چاہیے انہیں آبادی کے مختلف طقبات کے درمیان اعتماد سازی اور وسیع البنیاد اتحاد کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے البتہ یہ بھی ضروری ہے کہ جو طبقات غیرسرائیکی شناخت کے ساتھ خود کو اپنے ماضی سے جوڑتے ہیں وہ اس سے دستبردار ہوئے بغیر اس بات پر ضرور غور کریں گے کہ کیا ان کے اور مقامیت کے علمبرداروں کے درمیان اختلافات کا بیج بونے والے مقامیوں کے مقابلہ میں انہیں شریک وسائل و اقتدار کرتے ہیں

کیا ان کے بچوں کو تعلیم اور لیاقت کے مطابق ملازمتوں میں حصہ ملتا ہے۔ یہ بھی سوچنا ہوگا کہ کسی بھی طبقے کی واپسی کا کوئی امکان ہے نہ راستہ۔ گھروں کی دیواریں سانجھی ہیں، قبرستان سانجھے، بازار بھی بلکہ اب تو سینکڑوں ہزاروں مقامی و غیرمقامی خاندانوں کی رشتہ داریاں بھی ہیں۔

جب مسائل و مشکلات مشترکہ اور مفادات بھی سانجھے ہیں تو پھر کسی کو خلیج بڑھانے کا موقع دینے کی بجائے متحد ہوکر اپنے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد کیوں نہ کی جائے۔

میر احمد کامران مگسی نے حالیہ مردم شماری کے عبوری نتائج پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مردم شماری کے گھٹالے میں سرائیکی وسیب کی آبادی کم دیکھائی گئی اور یہ شکایت بھی ہے کہ دوردراز کے دیہاتوں میں مادری زبان سرائیکی لکھنے سے اجتناب برتا گیا۔

یقیناً یہ دونوں باتیں قابل مذمت ہی نہیں بلکہ اس سے یہ تاثر پختہ ہوا کہ بالادست طبقہ ایک طرف ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں تو دوسری جانب مقامی شناخت کے درپے بھی ۔

اس نکتہ پر بھی بات ہوئی کہ سرائیکی قوم پرست جماعتوں کو انتخابی سیاست سے باہر نہیں رہنا چاہیے مناسب ہوگا کہ وہ وسیع تر اتحاد کی صورت میں وفاقی سیاست کرنے والی ان جماعتوں سے جو انہیں اپنے دل اور نظریہ کے قریب محسوس ہوں اشتراک عمل کا راستہ نکالیں اور اس اشتراک عمل کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وسیب کو وفاقی سیاست کرنے والی جماعتوں کی جھولی میں ڈال دیا جائے بلکہ سیاسی تعاون کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں دیکھا جائے کہ موجود وفاقی سیاست کرنے والی جماعتیں سرائیکی وسیب کو کیا دے سکتی ہیں اور یہ کہ جو دیا جارہا ہو وہ محض زبانی وعدے ہیں یا طویل المدتی شراکت داری کی تحریری دستاویزات، کہ آگے چل کر کوئی فریق انحراف کرے تو متاثرہ فریق عوام کی عدالت میں اپنا مقدمہ لے جاسکے۔

بھٹہ صاحبہ کے اس حوالے سے چند تحفظات بھی سامنے آئے ان پر مفصل گفتگو ہوئی ان کی خدمت میں عرض کیا کہ سرائیکی صوبہ کی شناخت سے ملتان کی قدیم تاریخ اور ثقافتی و تہذیبی شناخت ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اس سے ایک ایسی وسعت کا سامان ہوتاہے جس میں ٹانک سے صادق آباد تک سرائیکی بولنے والے ایک اکائی کے طور پر فیڈریشن میں نہ صرف اپنی شناخت حاصل کرتے ہیں بلکہ فیڈریشن سے مساوی حقوق کا تقاضا بھی کرتے ہیں۔

صوبے کی تاریخ یقیناً صوبے کے حصول کے لئے شروع ہونے والی جدوجہد کے دن سے شروع ہوگی لیکن اس کا سرنامہ سقوط ملتان ہی قرار پائے گا جس دن ملتان کی الگ شناخت پامال ہوئی۔ بحییثیت مجموعی وسیب کی تاریخ اُنہی ہزاریوں پر مشتمل ہے جس کی معلوم تاریخ سے نشاندہی ہوتی ہے۔

صبحانہ کی اس محفل میں وسیب میں لسانی اور فرقہ وارانہ تعصبات کا کاروبار کرنے والوں اور ان کے سرپرستوں کے عزائم کا بھی تجزیہ کیا گیا۔

حاضرین اس بات پر متفق تھے کہ ہر دو قسم کے تعصبات کے پیچھے وہی قوتیں ہیں جو سرائیکی صوبے کی راہ کھوٹی کرنے کی سازشوں میں شریک ہیں۔

سرائیکی وسیب میں فنی تعلیمی اداروں کی کمی اور اعلیٰ تعلیم کی درسگاہوں کی مزید ضرورت پر بھی بات ہوئی۔

میں نے ملتان یونیورسٹی جو اب بی زیڈ یو کہلاتی ہے، کے ماحول کو فرقہ پرست دینی مدرسہ جیسا بنانے پر اپنے ملال سے ملتانی دوستوں کو آگاہ کیا اور اس پر بھی دکھ کا اظہار کیا کہ جب ملتان یونیورسٹی کا نام تبدیل کیا جارہا تھا ملتانیوں نے اس پر آواز بلند نہیں کی۔

ایک ملتان یونیورسٹی کیا سرائیکی وسیب میں ایسے درجنوں بلکہ سینکڑوں مقامات ہیں جن کی قدیم شناخت چھین کر نئے نام دیئے گئے حالانکہ اگر نئے ناموں سے نئے ادارے اور مقامات آباد کئے جاتے تو یہ زیادہ بہتر ہوتا۔

ملتانی اکٹھے ہوں اور ملتان کے موسم پر شب خون مارنے والی ہائوسنگ سوسائٹیوں کا ذکر نہ ہو یہ ممکن نہیں۔ ہم سات عدد ملتانیوں نے ہائوسنگ سوسائٹیوں اور بالخصوص ڈی ایچ اے کے نام پر ہزارہا درختوں کی کٹائی سے ٹوٹنے والی موسمی آفتوں پر نم آنکھوں سے ڈھیروں باتیں کیں۔

پرہلاد کے اجڑے دانش کدہ کی بات بھی ہوئی کہ ملتانیوں نے اپنی تاریخ کی زندہ نشانی زمین بوس ہونے پر چپ سادھ لی پھر اگر کہیں حکومت کو ہوش آیا اور دانش کدہ کی تعمیر کے لئے فنڈز مختص ہوئے تو بھی کٹھ ملائیت کے جبر سے اس پر عمل نہیں ہوسکا۔

ان لمحوں میں جب دانش کدہ پرہلاد اور پرہلاد کے عہد کا ذکرہورہا تھا تو طالب علم نے دوستوں کو یاد دلایا کہ ایک بار حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ سے ان کے خلفاء نے عرض کیا، مہمانوں اور طلباء کے قیام کے لئے جگہ کم پڑتی ہے کیوں نہ پرہلاد مندر کو خانقاہ میں شامل کرلیا جائے۔ حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ نے جواب دیا ’’انسان کا کام تاریخ بنانا اور اس کے آثار کی حفاظت کرنا ہے نہ کہ تاریخ کو ملیامیٹ کرنا‘‘۔

کاش ملتانیوں نے دانش کدہ پرہلاد کے حوالے سے کم از کم اتنے شعور کا ہی مظاہرہ کیا ہوتا افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author