نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک تماشا بار بار!۔۔۔||رسول بخش رئیس

رسول بخش رئیس سرائیکی وسیب کے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے رہنے والے ہیں وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ملکی ،علاقائی اور عالمی معاملات پر مختلف اخباروں ،رسائل و جرائد میں لکھ بھی رہے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہ خبر نئی ہے نہ پہلی بار دیکھ ‘ سُن اور پڑھ رہے ہیں‘ کہ جونہی سیاسی موسم بدلتا ہے ‘ سابق وزیروں‘ مشیروں‘ اراکینِ اسمبلی اور امیدواروں کی ٹولیاں کسی بڑے سیاسی پیرو مرشد کے دربار پر حاضری دیتی ہیں۔ اس کی پارٹی کے جھنڈے کے رنگ کا کپڑا گلے میں ڈال کر ماضی کی کم عقلی کا اعتراف کرتے ہوئے سیدھے راستے پرواپسی کا اعلان کرتی ہیں ۔ کچھ تو ایک عرصہ سے بڑے دربار کی طرف سے بلائے جارہے تھے ۔ اکثر کو تو وہاں بلائے جانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ‘ خودہی حاضر ہوجاتے اور ہدایات وصول کرکے گھروں کو لوٹتے ہیں۔ ہم کئی بار دیکھ چکے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ یہ طاقت کے سرچشموں کی صوابدید پر ہے کہ ان کا رجحان کس طرف ہے ۔ ہمارے سیاسی لوگ تو رخ کے انتظار میں چشم براہ رہتے ہیں ۔ جونہی بہائو کا رُخ بدلا‘ وہ بھی مرکزی دھارے کے ساتھ ہو لیے ۔ جانتے ہیں کہ منزل اس بہائو کے ساتھ بہنے ‘ یا ساتھ کناروں پر چلنے میں ہے ۔ ہم تو تماش بین ہیں ۔ عوام بھی محوِتماشا ہیں ۔ خیر ہمیں کیا اعتراض ہوسکتا ہے کہ ان سیاسی پتلیوں کا تماشا کوئی کیوں سجاتا ہے اور یہ پتلیاں اور پتلے اس کا حصہ بننے کے لیے اتنے بے تاب کیوں ہوجاتے ہیں کہ ایک پارٹی کو شام کو چھوڑا اور صبح کسی اور پارٹی میں شمولیت کا اعلان کردیا ۔ ایسے واقعات کے شواہد تو نہیں ملتے لیکن عوامی تاثر ہے کہ بڑوں کی سیاسی ترجیحات اورآنے والے وقتوں کا نقشہ بھانپتے ہوئے اپنے کردہ اور ناکردہ گناہوں کی معافی تلافی اور نیک چلنی کی سند کے حصول اوردراز دستِ شفقت اور دائمی حمایت کی عرضی کی منظوری کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔
یہ سب کچھ ہوتا دیکھتے ہوئے جن کی عمریں دشتِ سیاست میں گزر رہی ہیں ان سے آپ کو کبھی سنجیدہ گفتگو کا موقع ملے تو آپ کو بتائیں گے کہ ہماری سیاست کا مرکزی تضاد کیا ہے۔ طاقت کے سرچشمے کی طرف لوٹنا کتنا ضروری ہے ۔ عجیب بات ہے کہ اپنا عملی سیاسی کردار اپنے ارشاداتِ عالیہ کے بالکل برعکس رہا ہے ۔ بیرونی دنیا کے لوگ سیاست میں اس نوعیت کے قول و فعل کے تضاد کے لیے جو لفظ استعمال کرتے ہیں اسے سیاسی موقع پرستی کہا جاتا ہے ۔ ہمارے ہاں کامیاب سیاست کے لیے موقع پرستی کو معیوب خیال نہیں کیا جاتا۔ ہمارے دیگر رویے تو کچھ اس طرح کے ہیں کہ نہ تو دودھ میں پانی اور مضر صحت کیمیکلز ملانا ‘ نہ بجلی چوری کرنا ‘ نہ چوربازاری اور نہ سرکاری طاقت رکھتے ہوئے عوام کو خوار کرکے ان سے رشوت بٹورنا کوئی عیب تصور ہوتا ہے۔ سیاست اور سیاستدانوں کو ہم ان حوالوں سے اس لیے زیادہ اہمیت دیتے ہیں کہ ملک کے کونے کونے میں جو بگڑے ہوئے حالات دیکھ رہے ہیں ‘ انہی کے رویوں کی وجہ سے ہیں ۔ طاقتور حلقے اور حکمران طبقے سے معاشرے کی عام روش کاتعین ہوتا ہے ۔ اب تو سیاسی وفاداری ‘ نظریات‘ منشور‘ قانون اور آئین کی بالا دستی بیکار کی باتیں لگتی ہیں ۔ ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم ایسی بیکار کی باتوں پر پختہ یقین رکھتے ہیں ۔ یہ ایسے ہی نہیں ‘ان کے پیچھے دنیا کی تاریخ ہے ۔ بگڑے ہوئے معاشروں اور ناکام ریاستوں کے حالات ہیں ۔ بے شمار خانہ جنگیوں کے اثرات افغانستان سے لے کر عراق ‘ یمن ‘ شام اورلبنان تک پھیلے ہوئے ہیں ۔گزشتہ ایک سال سے یہاں جو کچھ ہورہا ہے اس کے باوجود کہا جارہا ہے کہ پاکستان انتشار سے بچ گیا ہے ‘ نیز پاکستان اب محفوظ ہاتھوں میں ہے ۔ ہمیں ماننے میں کوئی انکار نہیں مگر ذوالفقار علی بھٹو کا ایک جملہ‘ کچھ تاریخی واقعات اور پھر سب کچھ ہو جانے کے مناظر اس وقت میری آنکھوں کے سامنے کٹھ پتلیوں کے تماشے کی طرح ناچ رہے ہیں ۔ یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں آپریشن کا آغاز کیا تو بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ ”شکر ہے پاکستان بچ گیا ۔‘‘ کسی کو شک ہے تو اُس دن کا اخبار کہیں سے مل جائے تو دیکھ لے۔ ہم اس وقت بھٹو صاحب کی جماعت کے علمبرداروں میں سے تھے ۔ یہ سب تماشے ہمارے دیکھے ہوئے ہیں۔ آج بھی پاکستان میں استحکام پیدا کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ ہم تو خود انتشار اور ہر نوع کے ”شر پسندوں ‘‘ کے خلاف ہیں مگر حضو ر والا ریاستوں اور معاشروں میں استحکام کیسے پیدا ہوتا ہے ‘ اس کی سب راہیں ‘ منزلیں ‘ طریقے اور نسخے معلوم ہیں ۔یہاں کچھ عرض کردینے میں کیا حرج ہے ۔آئین کی بالا دستی‘ آزاد عدلیہ ‘ سیاست میں اندرونی یا بیرونی عدم مداخلت‘ شفاف انتخابات اور عوام کی رائے کا احترام۔ یہ باتیں کوئی راکٹ سائنس نہیں ۔ ہمارے سب پڑوسی ممالک میں مشکل سے مشکل ترین حالات میں ایسا ہوتا رہا ہے ۔ وہ آج جنہیں ہم دشمن خیال کرتے ہیں‘ سننے میں آیا ہے کہ ہمارے سیاسی اور معاشی حالات پر وہ بھی افسردہ ہیں ۔ مغربی دنیا کے لوگ بھی حیرت اور ہمدردی کے ملے جلے جذبات سے ہماری غیر موسمی سیاسی تبدیلیوں پر تبصرہ کررہے ہیں۔
جو حالات اب بنائے جارہے ہیں‘ دعا ہے کہ ملک میں استحکام کا باعث بنیں کیوں کہ حکمرانوں کو پتہ چل چکا ہے کہ شرپسند کون‘ اور کہاں ہیں نیز سب کا سرغنہ کون ہے ۔ ہم بھی گناہگاروں کی صف میں ہیں مگر دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ دعائیں تو دل سے اٹھتی خواہشات ہوتی ہی۔راستہ تو استحکام کا وہی ہے جس کا ذکر ہم اکثر کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ شفاف انتخابات‘ اپنی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں اورعدم مداخلت۔ کسی ملک کی سیاست تو بے تکی اور بے مہار ہو سکتی ہے مگر سیاست کی سائنس کے کچھ مسلمہ اورعالمگیر اصول ہیں‘ آپ ان سے اگر باربار انحراف کریں گے توکنویں کے مینڈک کی طرح ایک ہی دائرے میں چکر کاٹتے رہیں گے۔ ہم نہ جانے کب سے یہاں پڑے ہوئے ہیں اور چکر بازی‘ بلکہ بازیاں دیکھتے دیکھتے عمر گزر گئی۔ اس کنویں سے نکلنے کا راستہ یہ نہیں جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ یہ سب سیاسی کھلاڑی ہم نے گزشتہ پینتیس برسوں میں بار بار اقتدار کی کرسی پر بیٹھے دیکھے ہیں۔ صرف ان کی دولت‘طاقت اور استحکام میں اضافہ دیکھا ہے‘ ملک‘ عوام‘ معیشت اور طرزِ حکمرانی کی جو حالت ہے وہ بگڑتی چلی جارہی ہے۔ کیسے کوئی ملک کے اندر یا باہر آنکھیں کھولے اور جو کچھ ہو رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ مان لے کہ جہاں ہم آج کھڑے ہیں یہ گزشتہ چار سال سے کم عرصے میں ایک شرپسند کی وجہ سے ہوا ہے۔ کاش دنیا میں کہیں انصاف ہوتا اور جو گزشتہ ایک سال سے کرپشن کے کیسوں کی صفائی کا عمل ہو رہا ہے اس کی ہر ایک فائل محفوظ کرکے کسی عدالت میں پیش کی جاتی۔ ہم نہ سہی تو کوئی اور ‘فیض صاحب کے مطابق ‘وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے‘ ضرور دیکھیں گے۔ اب ہم کیا بات کریں کے سب معیار ہی تبدیل ہو چکے ہیں۔ کل کے دوست آج کے دشمن اور وہ جو کبھی دشمن تھے آج کے اتحادی ہیں۔ اب یہ سب مل کر ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے والوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے کمر بستہ ہیں۔ چلو ہم بھی کہہ دیتے ہیں کہ”شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘ مگرتاریخ کا سبق کچھ اور ہے۔ انتقامی جذبات اور نفرتیں ریاست کے کاموں میں ایسی آگ بھڑکاتی ہے جس کی تپش سب کو اپنے احاطے میں لے لیتی ہے۔ استحکام ہماری ضرورت ہے‘ مگر اس کا راستہ کوئی اور ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author