حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین کی پارٹی کا نام استحکام پاکستان پارٹی کی بجائے تحریک معافی پاکستان یا پھر تحریک انصاف فراری گروپ زیادہ مناسب ہوتا بہرحال اب انہوں نے استحکام پاکستان پارٹی نام رکھ ہی لیا ہے تو خوش رہیں جہاں بھی رہیں۔
امید ہے کہ خیر خیریت کا خط پتر پرانے دوستوں اور مالکوں کو لکھتے رہیں گے۔
علیم خان کے گھر پر منعقدہ تقریب رونمائی میں فواد چودھری، عمران اسماعیل، عامر کیانی، سید علی زیدی، آپا فردوس عاشق اعوان وغیرہ وغیرہ شامل تھے۔
ادھر ہمارے پیران پیر مخدوم شاہ محمود قریشی نے بدھ کی شام اپنے قائد محترم سے ملاقات کی اور ملاقات کی جو تصویر اخبارات کو زمان پارک سے بھجوائی گئی اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ملاقات کھلے ماحول میں ڈرائنگ روم میں نہیں بلکہ اس چھوٹے سے سٹوڈیو میں ہوئی جہاں بیٹھ کر خان صاحب انصافیوں اور قوم سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہیں۔
اس ملاقات کی جو داخلی کہانی عزیزم ظفر آہیر نے سنائی لکھی ہے وہ حقیقت کے کتنی قریب ہے فوری طور پر کچھ کہا نہیں جاسکتا البتہ یہ بات تو ہے کہ مخدوم نے رہائی کے وقت کہا تھا انصاف کا جھنڈا اب ان کے ہاتھ میں ہے لیکن زمان پارک سے روانگی کے وقت جھنڈا ان کے ہاتھ میں نہیں تھا البتہ چہرہ پر گہرے دکھ کے آثار نمایاں تھے۔
خیر مخدوم صاحب اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لئے کراچی پہنچ چکے ہیں۔ ملتانیوں کی بیگمات سے محبت کرہ ارض پر مثالی سمجھی جاتی ہے (یہاں بیگمات کو بیگم ہی سمجھا جاوے) جنوبی ایشیا میں سلسلہ سہروردیہ کے سب سے بڑے پیر کو ان کے سیاسی قائد نے نجانے کیا کہہ دیا کہ وہ زمان پارک کے باہر منتظر صحافیوں سے بات چیت کی بجائے بے رخی کے ساتھ آگے بڑھے اور گاڑی میں سوار ہوکر چلے گئے۔
فیس بکی دانشوروں کا خیال ہے کہ مخدوم اور خان کی ملاقات میں کیا باتاں ہوئیں اس کا اندازہ اس ملاقات کے بعد خان کے خطاب سے لگایا جاسکتا ہے جس میں کوئی نئی بات ہرگز نہیں تھی پرانی تقاریر کے ٹوٹے شوٹے تھے۔
ساعت بھر کے لئے رکئے (البتہ ہنسنا منع ہے) چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے گزشتہ روز دو باتیں کی ہیں اولاً یہ کہ ’’انتخابات قومی مسئلہ ہے، 14مئی کے فیصلے پر عملدرآمد ممکن نہیں مگر یہ تاریخ بن چکا‘‘۔ ثانیاً ارشاد کیا ’’انصاف کرنا مولا کریم کا کام ہے‘‘۔
الیکشن ازخود نوٹس کیس پر روز اول سے عرض کررہا ہوں کہ ازخود نوٹس بنتا نہیں تھا پہلی وجہ جن دو جج صاحبان نے ازخود نوٹس کی سفارش کی ان کے بنچ میں الیکشن کیس نہیں تبادلے کا کیس زیرسماعت تھا۔
دوسری وجہ صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کا معاملہ پنجاب اور پختوانخوا ہائیکورٹ میں زیرسماعت تھا ایسے میں ازخود نوٹس بذات خود حدود سے تجاوز کے زمرے میں آتا ہے۔
تیسری وجہ وہی سوال ہے جو کئی بار عرض کرچکا کہ کیا پیشگی معاہدہ کے تحت وزیراعلیٰ بننے والا شخص اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھجوائے گا تو اس کی قانونی حیثیت کیا ہوگی؟
ازخود نوٹس کیوں لیا گیا ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار میں مداخلت کیوں کی گئی۔ کیس کی سماعت کے دوران اٹھائے گئے آئینی سوالات کو ججز نے نظرانداز کیوں کیا اس کی وجوہات سبھی پر عیاں ہیں چند آڈیوز بھی موجود ہیں جن سے معاملہ سمجھا جاسکتا ہے۔
اب آیئے دوسرے ارشاد پر بات کرلیتے ہیں۔ ’’انصاف کرنا مولا کریم کا کام ہے
‘‘۔ گو یہ ادھوری بات ہے لیکن اگر اسے درست مان لیا جائے تو پھر نظام انصاف پر سالانہ اربوں روپے اڑانے کی ضرورت کیا ہے کیوں ہم ججوں معاون عملے کی تنخواہوں مراعات اور پنشنوں پر ہر سال اربوں روپے برباد کرتے ہیں۔
ہر شہر میں ایک اللہ والا پاارک بنادیا جائے، مقدمات کے فریق اس پارک میں پہنچ کر اپنے معاملات مولا کریم کے حضور پیش کریں اور جو فیصلہ ہو چوں چراں کے بغیر مان لیں۔ کم از کم مجھے حیرانی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر فائز شخصیت نے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے جس کی ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں یہ کہہ کر جان چھڑالی کہ
’’انصاف کرنا مولا کریم کا کام ہے‘‘۔
ہم نے تو یہی سنا ہے کہ اللہ رب العزت عدل کرتا ہے جبکہ انصاف کا مطلب کچھ لو کچھ دو کے اصول سے کشید کردہ ہے۔
اب آیئے کوئٹہ میں عمران خان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہونے پر بات کرلیتے ہیں۔ چند دن ادھر کوئٹہ میں معروف قانون دان عبدالرزاق شر ایڈووکیٹ قتل کردیئے گئے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا تارڑ نے کسی تاخیر کے بغیر اس قتل کا ذمہ دار عمران خان کو ٹھہرایا۔
اب مقتول وکیل کے صاحبزادے کی درخواست پر عمران خان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ مدعی کا موقف ہے کہ قتل سے ایک دن قبل ان کے والد نے بتایا تھا کہ انہیں دھمکیاں مل رہی ہیں۔
مقتول وکیل نے عمران خان اور ان کے چند ساتھیوں کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6کے تحت کارروائی کے لئے بلوچستان ہائیکورٹ میں درخواست دائر کررکھی تھی ان کے نامز کردہ افراد میں قاسم سوری بھی شامل ہیں۔
اس قتل کے حوالے سے دو تین باتیں کی جارہی ہیں۔ ذاتی دشمنی، کالعدم تنظیم کی کارروائی اور قاسم سوری کا پس پردہ کردار۔ اصولی طور پر ان تینوں باتوں کو سامنے رکھ کر تحقیقات ہونی چاہیے تھیں اگر کہیں قاسم سوری یا عمران خان کا کردار ثابت ہوتا تو مقدمہ درج کرلیا جاتا لیکن جس طرح آناً فاناً یہ مقدمہ درج ہوا اس سے شبہات نے جنم لیا
مثلاً کسی ابتدائی تفتیش کے بغیر عطا تارڑ نے کیسے دعویٰ کردیا کہ وکیل کا قتل عمران خان نے کرایا ہے؟
ایسا لگتا ہے کہ سیاستدانوں نے ماضی سے نہ سیکھنے کی قسم اٹھارکھی ہے۔
کالم کے اس حصے میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی صدارت میں منعقد ہونے والی 81ویں فارمیشن کمانڈر کانفرنس کے اعلامیہ پر بات کرلیتے ہیں۔ اعلامیہ کے مطابق وقت آگیا ہے کہ 9مئی کے ماسٹر مائنڈ پر مضبوط گرفت کی جائے۔ کثرت سے جمع ناقابل تردید شواہد کو جھٹلایا اور نہ ہی بگاڑا جاسکتا ہے۔ افراتفری پھیلانے والوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے پر زور دیا گیا۔ منصوبہ سازوں کے گرد قانون کا شکنجہ کسا جائے گا۔ فرضی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پیچھے پناہ لینے کی تمام کوششیں بے سود ہوں گی۔
سوال یہ ہے کہ کیا 9مئی کے داخلی سہولت کاروں کے ساتھ ان سابقین بارے بھی چھان بین مکمل ہوگئی ہے جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ حالات کو یہاں تک لانے میں ان کا کردار اہم ہے؟ باردیگر یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ اگر 9مئی کے واقعات کے داخلی سہولت کاروں اور سابقین کی صفوں میں موجود ہینڈلرز کی جانب سے چشم پوشی برت کر فیصلے اور اقدامات ہوئے تو تحفظات جنم لیں گے۔
آئی ایس پی آر کے اعلامیہ سے کچھ دیر بعد 9مئی کے حوالے سے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے جو دعویٰ کیا کہ اس میں سچائی کتنی ہے اور سیاسی و ذاتی عناد کا تناسب کتنا ہے اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔
عمران خان نے اپنے دور میں رانا ثناء اللہ پر 17کلو ہیروئن کا سنگین کیس بنوایا تھا جواباً رانا ان پر گلاب تو نچھاور نہیں کرے گا۔
بہرحال مجھے یہ عرض کرنے میں رتی برابر بھی تامل نہیں ہے کہ اصولی طور پر ان تمام لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے جو ماضی میں کسی نہ کسی طور تحریک انصاف کی لانچنگ، بڑھوتری اور اس کے لئے انتخابی مینجمنٹ کے ساتھ ’’ہانکا‘‘ کرنے میں شریک رہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مقدمات اور پابندیاں مسائل کا حل نہیں ماضی میں مختلف تنظیموں پر پابندیاں بھی لگیں اور ان کے فعال رہنمائوں کے خلاف مقدمات بھی بنے نتیجہ کیا نکلا یہی کہ شدت پسندی بے لگام ہوئی۔
اب بھی سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ دو نسلیں اسٹیبلشمنٹ کی چھتر چھایہ میں تخلیق کی گئیں جو اپنے عمران اور فوج کے علاوہ ہر شخص کو قابل گردن زدنی سمجھتی تھیں ۔ ان میں سابقین کے لاکھوں خاندان بھی شامل ہیں۔ اس لئے اگر مقدمات چلانے ہیں تو پھر ان سازشی کرداروں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے جنہوں نے پہلے سیاسی عمل کو گالی بنوایا اور پھر ایک مسیحا میدان میں اتارا کیونکہ اگر ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی تو یہ ’’لنڈورا‘‘ انصاف ہوگا کوئی بھی اسے انصاف نہیں مانے لگا۔
یقیناً عمران خان سے غلطیاں ہوئیں انہی غلطیوں کے باعث وہ آج بند گلی میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن انہیں چھوڑ جانے والے کیسے ’’پارسا‘‘ ہوگئے وہ بھی تو اس صورت حال کے اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنے عمران خان یا انہیں لانے والے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ غصہ دیکھانے کا موقع نہیں معاملات کو سیدھے انداز میں سلجھانے کی ضرورت ہے۔
’’ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی‘‘۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ