نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کھلاڑیوں میں عقل کم ہوتی ہے ۔۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس سال پاکستان نے کرکٹ ورلڈکپ جیتا تھا، اسی سال مائیک ٹائی سن پر ایک خاتون نے ریپ کا الزام عائد کیا۔ اس مقدمے میں ٹائی سن کے وکیل نے ایک دلچسپ اور اہم بات کی۔ اس نے کہا کہ ٹائی سن ایک کھلاڑی ہے اور کھلاڑیوں میں عقل کم ہوتی ہے۔ ان میں جوش زیادہ ہوتا ہے۔ اس جوش اور کم عقلی میں ان سے غلطیاں اور حماقتیں سرزد ہوجاتی ہیں۔
میں اس بات سے کسی حد تک متفق ہوں۔ میں نے بہت سے ذہین کھلاڑی دیکھے ہیں جو اپنے کھیل کی حد تک ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لیکن زندگی کے دوسرے معاملات میں ان کی کارکردگی صفر ہوجاتی ہے۔
باکسنگ ہی میں محمد علی کلے کی مثال لیجیے۔ انھیں بیسویں صدی کا عظیم ترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ وہ بے حد ذہین تھے۔ تین بار عالمی چیمپین بنے جو اس وقت ایک ریکارڈ تھا۔ لیکن مالی معالات میں صفر تھے۔ ایک سے زیادہ بار سارا پیسہ خرچ کرکے خالی ہو بیٹھے۔
سب نہیں، لیکن بہت سے کھلاڑی نشہ اور طاقت بخش دوائیں بھی استعمال کرتے ہیں۔ مغربی ملکوں میں تو عام بات ہے لیکن پاکستانی کھلاڑی بھی۔ وسیم اکرم، وقار یونس اور مشتاق احمد ویسٹ انڈیز میں نشہ کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ شہہ سرخیاں بنی تھیں۔
کھلاڑی نشہ کیوں کرتے ہیں؟ کیونکہ انھیں توجہ کا ارتکاز درکار ہوتا ہے۔ یہ توجہ اور نشے سے ملنے والی عارضی قوت ان کی پرفارمنس کو بہتر بناتی ہے۔ کھلاڑیوں کے علاوہ آرٹسٹ بھی اسی لیے نشہ کرتے ہیں۔ میں شراب کی بات نہیں کررہا۔ شراب معمولات میں شامل ہوجاتی ہے۔
عمران خان کی میڈیکل رپورٹ میں کوئی بات تعجب والی نہیں۔ پلے بوائے والی زندگی گزارنے والا شخص شراب اور نشے سے کیسے دور رہ سکتا تھا۔
تعجب اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ایجنسیوں نے ایک سیاسی پارٹی بناکر اس کے حوالے کردی۔ نوجوانوں اور عوام کا ذہن خراب کرنے کے لیے میڈیا اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال کیا۔ یہ نہیں سوچا کہ جس شخص نے ساری زندگی کھلاڑپن کیا، جس کی عقل میدان اور بستر سے باہر صفر ہے، وہ کیسے ان کے قابو میں رہے گا۔ ایسا آدمی صرف اپنی خواہشات کا اسیر ہوتا ہے۔
پرستار ہمیشہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ خان نے نے کرکٹ میں بہترین قیادت کی۔ یہ بات وہی لونڈے کہہ سکتے ہیں جنھیں نے اس کا کپتانی والا دور نہیں دیکھا۔ اس نے پسند ناپسند پر قاسم عمر جیسے کتنے ہی کھلاڑیوں کا کرئیر ختم کیا اور منصور اختر جیسے کتنے ہی ناکام کھلاڑیوں کو بار بار مواقع دیے۔ اننگز غلط ڈیکلئیر کرکے جاوید میانداد کی ٹرپل سنچری نہ ہونے دی حالانکہ میچ جیتنے کے لیے بہت وقت باقی تھا۔ ہر وقت غصے کا یہ عالم رہتا تھا کہ ایک بار کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری کرنل رفیع نسیم کو اسٹیڈیم میں تھپڑ مار دیا۔
کرکٹ اور سیاست ون مین گیم نہیں ہے۔ پاکستان ورلڈکپ اس لیے جیتا کہ ٹیم میں میانداد، وسیم اکرم اور انضمام الحق جیسے پرفارمر تھے۔ سیاست میں وزارت عظمی اس لیے مل گئی کہ فوج نے الیکٹ ایبل بٹیرے پکڑ کے دیے اور پھر الیکشن نتائج بھی تبدیل کیے۔
بٹیرے ہاتھ سے نکل گئے ہیں اور عقل کبھی تھی ہی نہیں۔ اس عمر میں عقل آنے کی امید بھی نہیں۔
فاسٹ بولر اگر زور کھو دے تو باونسر نہیں کرواتا۔ کروائے گا تو چھکا کھائے گا۔ کرکٹ میں باونسر پر چھکے کو چپیڑ کہتے ہیں۔
عقل ہے نہیں اس لیے فاسٹ بولر جوشیلے بیانات کے باونسر کراتا رہے گا، چپیڑیں کھاتا رہے گا۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author