مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پونم چند سولنکی جودھپور کے وکیل ہیں۔ پچیس سال سے وکالت کررہے ہیں لیکن وہیں سیشن کورٹ میں پائے جاتے ہیں۔ دس سال پہلے ایک کیس ان کے پاس آیا۔ ایک لڑکی پر مجرمانہ حملہ ہوا تھا۔ لڑکی کے والدین فیس دینے کے قابل نہیں تھے۔
ریپ کی کوشش کرنے والا کوئی عام آدمی نہیں تھا۔ سندھ کے میاں مٹھو قسم کا، لیکن زیادہ بڑی بلا تھا۔ آسارام اس کا نام تھا۔ اگر آپ یہ نام گوگل کریں گے تو معلوم ہوگا کہ وہ ہندوستان کا بڑا مذہبی رہنما ہے۔ سولنکی کے پیدا ہونے سے پہلے سے وہ مشہور تھا۔ ملک بھر میں اس کے چالیس اسکول اور چار سو آشرم تھے۔ لاکھوں افراد اس کے ماننے والے تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور ہندو تنظیموں میں اس کا اثرورسوخ تھا۔
سولنکی نے کیس لے لیا۔ وہ کیس پانچ سال چلا۔ آسارام کے پاس پیسہ تھا۔ تعلقات تھے۔ سیشن کورٹ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک معاملہ گیا۔ بابے کا دفاع تیس وکیلوں نے کیا جن میں سلمان خورشید، رام جیٹھ ملانی اور سبرامنین سوامی جیسے بڑے نام شامل تھے۔
یہاں ہندوستان کے نظام انصاف کی تعریف کرنا پڑے گی۔ سولنکی تنہا اور سامنے دیوقامت وکلا۔ لیکن پانچ سال میں ضمانت کی ایک بھی درخواست منظور نہیں ہوئی۔ اس دوران کیس کے کئی گواہ قتل کیے گئے، کئی پر حملے ہوئے اور سولنکی کو بھی دھمکیاں ملیں۔ لیکن وہ پیچھے نہیں ہٹے۔
آسارام کو 2018 میں سیشن کورٹ نے عمرقید کی سزا سنائی اور وہ جیل میں ہے۔ ایک لڑکی کے حوصلہ کرکے سامنے آنے سے دوسری لڑکیوں کو بھی ہمت ہوئی اور آسارام اور اس کے بیٹے کے خلاف مزید مقدمات قائم ہوئے جن میں ایک ایک کرکے سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ ہندو سادھوؤں کی تنظیم نے آسارام سے قطع تعلق کرلیا ہے۔ حمایت کرنے والی سیاسی جماعتیں پیچھے ہٹ گئی ہیں۔
آسارام کے خلاف کیس پر منگل کو ہندی فلم "صرف ایک بندہ کافی ہے” ریلیز ہوئی جس میں سولنکی کا کردار منوج باجپائی نے ادا کیا ہے۔ فلم دیکھنے لائق ہے۔ یہ مت کہیے گا کہ میں نے ساری کہانی پہلے بیان کردی۔ ہندوستان میں سب کو یہ پس منظر معلوم ہے، پھر بھی وہاں فلم بنائی گئی اور لوگ دیکھیں گے۔
آپ بھی دیکھیں کہ کمسن لڑکی اور اس کے والدین بدنامی کا سوچ کر چپ نہیں رہے، پولیس عوامی حمایت رکھنے والے مذہبی رہنما کو گرفتار کرنے سے نہیں ہچکچائی، سیشن کورٹ کا عام وکیل سابق وفاقی وزرا کے سامنے کیس لڑنے سے نہیں گھبرایا، گواہ جان کے خطرے کے باوجود سچ بولنے سے نہیں رکے اور ماتحت عدالت کا جج کسی لالچ اور دباؤ سے مرعوب نہیں ہوا۔
جب آپ دو گھنٹے کی فلم دیکھ لیں تو دو منٹ بیٹھ کر غور کیجیے گا کہ یہ لڑائی ادھر کسی کو لڑنا پڑتی تو کیا ہوتا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ