حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیران کن بات ہے کہ بریت کی جو سہولت محترمہ ڈاکٹر یاسمین راشد کو ملی وہ اس مقدمے میں گرفتار عام سفید پوش خاندانوں کے بچوں اور بچیوں کو نہیں مل پائی۔ یہ طبقاتی امتیاز سے عبارت انصارف ہے یا کسی ’’مینجمنٹ‘‘ کا کمال؟
آگے بڑھنے سے قبل معروف قانون دان اور لاہور ہائیکورٹ کے تین سابق سربراہوں کے ذاتی بغض کا شکار رانا شرافت علی ناصر کی مختصر تحریر پڑھنے والوں کے سامنے رکھے دیتا ہوں۔
رانا شرافت علی ناصر لکھتے ہیں ’’محترمہ ابیر گل صاحبہ جج اینٹی ٹیررسٹ کورٹ نے گزشتہ روز ضلع قصور کے ایک چھوٹے سے قصبے ’’کھڈیاں‘‘ میں حالیہ احتجاجی ہنگاموں میں گرفتار ہونے والے چند ملزمان بارے پولیس کی اس رائے سے اختلاف کیا کہ ان نوجوانوں سے ایسا کوئی جرم سرزد نہیں ہوا جس کی جہ سے ان کے مقدمہ میں 7اے ٹی اے کی دفعہ لگائی جاتی۔ یاد رہے کہ یہی ملزمان اس سے ایک روز قبل ایک دوسرے جج کے پاس پیش کئے گئے تو انہوں نے تفتیشی افسر کا عدالتی بیان ریکارڈ کیا تھا کہ ان ملزمان نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جس پر جرم 7اے ٹی اے بنتا ہو۔
حیرت کی بات ہے اسی جج صاحب کو یاسمین راشد اور چودھری پرویز الٰہی پر لگی دفعات اس قدر بری لگیں کہ انہوں نے پولیس کو ڈانٹ پلاتے ہوئے ان دونوں کی رہائی کا حکم جاری کردیا۔‘‘
ہم آگے بڑھتے ہوئے یہ عرض کردیں کہ قصور کے قصبے کھڈیاں میں سیاسی احتجاج ضرور ہوا مگر نہ تو وہاں حساس تنصیبات تھیں جن پر حملہ ہوا ہو نہ ہی احتجاج نے ایسی سنگین صورت اختیار کی کہ اس احتجاج پر 7اے ٹی اے کی دفعہ لگتی۔
ڈاکٹر یاسمین راشد کی رہائی اچھی بات ہے وہ بزرگ خاتون ہیں اور کینسر کی مریضہ بھی لیکن سوال یہ ہے کہ احتجاجیوں کو کور کمانڈر ہائوس کی طرف لیجانے والوں میں ڈاکٹر صاحبہ بھی شامل تھیں ویڈیوز موجود ہیں لیکن ان کے لئے عدالت کا نرم گوشہ اور ان کی قیادت میں جانے والے سفید پوش گھرانوں کے بچوں بچیوں کے لئے الگ رویہ یہ سب کیا ہے؟
اس سے قبل ایک امتیازی برتائو ہم نے محترمہ عالیہ حمزہ (سابق ایم این اے) صنم جاوید اور دیگر خواتین کے حوالے سے دیکھا یہ تمام خواتین اسی مقدمہ میں گرفتار ہیں جس میں سابق مشیر خزانہ سلمان شاہ کی دختر نیک اختر محترمہ خدیجہ شاہ گرفتار ہیں۔
پولیس عالیہ حمزہ اور دیگر خواتین کو قیدیوں والی گاڑیوں میں اسی طرح لائی جیسے ملزمان جیل سے عدالت لائے جاتے ہیں مگر خدیجہ شاہ کو خصوصی کمانڈوز کے حصار میں عزت و احترام کےساتھ عدالت سے جیل لایا گیا انہیں والدین سے ملنے کی سہولت احاطہ عدالت میں دی گئی جبکہ دوسری خواتین کو صرف ان کے وکلاء مل پائے۔
منت ترلوں کےبعد ایک خاتون کی اس کی والدہ سے چند لمحوں کی ملاقات کرائی گئی۔ ایک ہی مقدمہ کی گرفتار خواتین کو جیل سے عدالت لانے کے لئے الگ الگ اہتمام اوربالخصوص محترمہ خدیجہ شاہ کے لئے خصوصی کمانڈوز دستے کا تقرری بہت سارے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔
بہت سارے سوالات کو چھوڑیں صرف ایک سوال پوچھتے ہیں سفید پوش گھرانوں کی خواتین قیدیوں والی وین میں اور سلمان شاہ کی بیٹی خصوصی انتظام سے جیل سے عدالت کیوں لائی گئی؟
کیا یہ صاف سیدھا طبقاتی امتیاز نہیں۔ ثانیاً یہ کہ یہ امتیازی سلوک کس کی سفارش اور حکم پر روا رکھا گیا۔
مزید آگے بڑھتے ہیں تحریک انصاف کے حامی خاندان شکایت کررہے ہیں کہ حالیہ ہنگاموں کے درج مقدمات میں جو نامعلوم لکھے گئے ہیں ان نامعلوم کے نام پر پولیس کو دیہاڑی داری کا نیا ذریعہ مل گیا ہے ممکن ہے یہ الزام ہی ہو مگر اس دعوے کی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ پولیس سوشل میڈیا سے پی ٹی آئی کے حامیوں کے کوائف حاصل کرتی ہے اور پھر ان کے خاندانوں کو تنگ کیا جاتا ہے بعدازاں کچھ ’’حق خدمت‘‘ پر جان چھوڑدی جاتی ہے۔
اس دعویٰ میں اگر 10فیصد بھی صداقت ہے تو نہ صرف تحقیقات ضروری ہیں بلکہ ذمہ داران کے خلاف کارروائی بھی۔ اسی طرح سابق صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال کے اس سنگین الزام کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ انہیں گرفتار کرنے کے لئے ان کے گھر چھاپے مارنے والی پولیس پارٹیاں قسطوں میں ان کی صاحبزادی کے جہیز کا سامان لوٹ کر لے گئیں جس کی وجہ سے انہیں اپنی بیٹی کی شادی ملتوی کرنا پڑی۔
میاں اسلم اقبال کا الزام درست ہے تو اس کے ذمہ دار براہ راست پنجاب کے آئی جی پولیس ہیں جن کا طرز عمل قانون کے محافط سے زیادہ شاہ کے وفادار کا سا ہے۔
غلط ہے تو نہ صرف میاں اسلم اقبال کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہیے بلکہ ان تمام افراد کے خلاف بھی کارروائی ضروری ہے جنہوں نے اس الزام کی عمارت اٹھائی۔
نامعلوم مقام سے کچھ دعوے مسلسل شیخ رشید بھی کررہے ہیں۔ فرزند لال حویلی نے ساری عمر جھوٹ کی سیاست کی اور مخالفین کی پگڑیاں اچھالتے ہوئے ماردو آگ لگادو مٹادو جیسی باتیں ہی کی ہیں اس لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ انہوں نے کبھی سچ بھی بولا ہے۔
شیخ رشید بارے ہمارے ایک مشترکہ دوست راجہ منصور حیدر کہا کرتے تھے ’’یارو اس شیخ نے کدے جھوٹ نئیں بولیا تے سچ بولن دی اینہوں عادت نئیں‘‘
خیر یہ فرزند لال حویلی کا ذکر بس یونہی درمیان میں آگیا۔ حالیہ ہنگاموں کے حوالے سے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان ہنگاموں کے دوران ان کی جماعت کے 25افراد سرکاری گولیوں سے مارے گئے۔ خان صاحب نے ان مرحومین کے لئے فنڈنگ بھی کی اور صرف امریکہ سے انہیں 6لاکھ ڈالر ابتدائی طور پر مل گئے۔
اصولی اور اخلاقی طور پر اب ان کا فرض ہے کہ وہ 9اور 10مئی کو مارے گئے 25افراد کی فہرست بمعہ ولدیت عوام کے سامنے لائیں یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان کے زمان پارک والے گھر کے لان میں جو غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی تھی (عمران خان اس میں شریک نہیں تھے) اس میں اعلان کیا گیا تھا کہ یہ 4افراد کی غائبانہ نماز جنازہ ہے جو پشاور میں مارے گئے ہیں۔
باقی کے 21افراد کہاں اور کیسے مارے گئے اور تحریک انصاف نے اس حوالے سے اب تک کیا کیا؟ عمران خان کو اس کا بھی جواب دینا چاہیے۔
مکرر کالم کے ابتدائی حصہ میں عرض کی گئی دو تین باتوں پر پھر سے توجہ دلانا ازبس ضروری ہے اولاً یہ کہ حالیہ مقدمات میں گرفتار تمام لوگوں سے یکساں قانونی برتائو کیا جانا چاہیے۔ اگر درج مقدمات میں دہشت گردی کی دفعات لگاتے ہوئے پولیس نے اختیارات سے تجاوز کیاہے اور گرفتار شدگان کا یہ جرم نہیں بنتا تو اس کی رعایت تمام گرفتار شدگان کو ملنی چاہیے یا پھر سب کے خلاف کارروائی ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت کے متعدد رہنمائوں اور یوٹیوبرز نے گزشتہ دنوں الزام لگایا تھا کہ حالیہ واقعات میں گرفتار ہونے والی خواتین کے ساتھ ’’جیل میں ناروا‘‘ سلوک ہوا ہے۔ گرفتار خواتین نے نہ صرف ناروا سلوک (خان اور ان کے حامی جنسی تشدد کہتے رہے) کی تردید کی بلکہ اپنی گرفتاریوں کو ناجائز قرار دیا۔
یہ غلیظ الزام گھڑنے اور اچھالنے کے پیچھے مقاصد سمجھ میں نہ آنے والے نہیں ان الزامات کو اچھالنے میں پیش پیش پچھلے ایک برس کے دوران ملک چھوڑ کر بھاگنے والے 2یوٹیوبرز ہیں اولاً معید پیرزادہ اور ثانیاً عادل راجہ۔
ڈاکٹر معید پیرزادہ چند برس قبل دبئی کے ایک ہسپتال میں اپنے مردہ باپ کے دستاویزات پر انگوٹھے لگواتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے تب اس وقت کے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے دبائو پر پاکستانی سفارتخانے نے اس کی رہائی کا بندوبست کیا تھا۔
عادل راجہ فوج سے غلط کرتوتوں کی وجہ سے نکالے گئے پراپرٹی ڈیلری کرتے تھے ان پر درجن بھر سنگین الزامات ہیں۔
یہی حال ان الزامات کو اچھالنے والے صابر شاکر کا ہے اس نے اس معاملے میں وہی کردار اداکیا جو قومی اتحاد کی بھٹو مخالف تحریک کے دوران ( روزنامہ ” وفاق ” ) والے مصطفی صادق نے ادا کیا تھا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ