مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیواڈا یونیورسٹی کے پروفیسر ولیم جینکووئیک نے طویل تحقیق کے بعد انکشاف کیا تھا کہ صرف 46 فیصد لوگ ہونٹوں سے ہونٹ ملاکر پیار یعنی کس کرتے ہیں۔
باقی 54 فیصد نہ معلوم کیا کرتے ہیں۔ بلکہ خدا جانے کیا کیا کرتے ہیں۔
اس کے بعد یا پہلے اس سوال نے بھی جنم لیا کہ منہ در منہ پیار کا آغاز کب ہوا؟
خیر، آغاز کا تو پتا نہیں چل سکتا، صرف یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ پہلا کس کب ریکارڈ کیا گیا؟ یعنی تاریخ میں اس کا سراغ کب ملا؟
محققین نے نتیجہ نکالا تھا کہ پہلا معلوم واقعہ ساڑھے تین ہزار سال پہلے ہندوستان میں پیش آیا۔ ممکن ہے کہ کاماسترا کے لذت انگیز قصوں کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوا ہو۔
لیکن آج واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی ہے کہ پہلا کس ساڑھے چار ہزار قبل میسوپوٹیمیا یعنی موجودہ عراق میں کیا گیا تھا۔ اس کے شواہد ڈھائی ہزار قبل مسیح کی کئی تحریروں سے ملے ہیں جنھیں پہلے دھیان سے نہیں دیکھا گیا تھا۔
جریدے سائنس نے ان تحریروں کے بجائے توجہ اس بات پر دی ہے کہ اس زمانے میں کس کی وجہ سے منہ کی بیماریاں پھیلیں۔
اگر آپ کو یوسفی صاحب کے الفاظ میں تخمی آم چوسنے کا شوق ہے تو آئندہ پارٹنر کے منہ کا کسی ڈاکٹر سے معائنہ ضرور کروالیجیے گا۔ خاص طور پر اس وقت یہ احتیاط ضروری ہے جب آپ کا پارٹنر یوتھیا یا یوتھنی ہو۔ سیاسی ماہرین کے مطابق قوم یوتھ کے نمائندوں کے منہ میں گز بھر کی زبان کے علاوہ مہلک کیڑے بھی ہوتے ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ