مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حامد میر پر جب حملہ ہوا تو میں نیوزروم میں تھا۔ سب سے پہلے یہ بریکنگ نیوز میں نے چلائی۔ رات ایک بجے تک کی نشریات کا پروڈیوسر میں تھا۔
یاد رہے کہ اظہر عباس صاحب ان دنوں جیو میں نہیں تھے۔ میر ابراہیم رحمان، ہمارے انصار بھائی اور جیو دوبارہ جوائن کرنے والے زاہد حسین صاحب تینوں اسی شام پہلے سے طے شدہ پرواز کے ذریعے دبئی سے کراچی پہنچے تھے۔ یعنی اس نشریات میں جو کچھ ہوا، اس میں ان کا کردار نہیں تھا۔
پھر کون ہدایات دے رہا تھا، کون ہدایات وصول کررہا تھا اور مجھ تک پہنچارہا تھا، یہ عجیب سی کہانی ہے۔
میں نے اور بھائی نصرت امین نے اس شام نیوزروم میں جن خدشات کا اظہار کیا، وہ بعد میں سچ ثابت ہوئے۔
میں آج اس نشریات کی تفصیل یا پس پردہ واقعات نہیں بیان کرنا چاہتا۔ بس یاد کررہا ہوں کہ کیسے کیسے اہم واقعات کے موقع پر جیو کے نیوزروم میں تھا۔
سنہ 2000 میں رائٹرز نے ایک کتاب چھاپی تھی، فرنٹ لائنز۔ اس میں تاریخی واقعات کور کرنے والے صحافیوں نے دلچسپ کہانیاں سنائی تھی۔ میں نے اس کتاب پر طویل تبصرہ، مزے مزے کے اقتباسات اور ایک پوری کہانی ایکسپریس سنڈے میگزین میں چھاپی تھی۔ اب میرے پاس ویسی ہی کتاب کا مواد موجود ہے۔
بینظیر کا قتل، آٹھ اکتوبر کا زلزلہ، سیلاب، کئی الیکشن، وکلا تحریک، لال مسجد ہنگامہ، جی ایچ کیو حملہ، آرمی پبلک اسکول، دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، لانگ مارچ اور دھرنے، بہت کچھ ہوتے دیکھا اور ان مواقع پر نہ صرف نیوڑوم میں تھا بلکہ بلیٹن پروڈیوس کیے اور نشریات چلائی۔
اب جب کچھ ہوتا ہے یا ہونے والا ہوتا ہے تو میرے اندر جیو کا پروڈیوسر انگڑائی لیتا ہے، میری انگلیاں کچھ لکھنے کو پھڑکنے لگتی ہیں اور میں پیشہ ورانہ بے چینی محسوس کرنے لگتا ہوں۔
کل میرا دن نیوزروم میں گزرے گا لیکن یہاں، امریکی ٹی وی چینل کے نیوزروم میں ایک معمول کا دن ہوگا۔ میرا جسم ادھر ہوگا لیکن میرا ذہن جیو کی طرف لگا رہے گا جہاں اقتدار کے ایوانوں کی سب سے سنسنی خیز لڑائی کا کلائمس آن پہنچا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ