مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واشنگٹن پوسٹ میں ایک نئی سیریز کا نام دیکھ کر دلچسپی محسوس ہوئی۔ سیریز کا نام ہے، وائٹ ہاؤس پلمبرز۔ یہ واٹرگیٹ اسکینڈل کے بارے میں ہے۔ میں واشنگٹن ڈی سی میں اتنا پھرا ہوں، اور وائٹ ہاؤس اور واٹرگیٹ کے آس پاس اتنی آوارہ گردی کی ہے کہ خود کو اس منظرنامے کا حصہ محسوس کرنے لگا تھا۔
واٹرگیٹ کے معاملے سے ایک دلچسپی تو یوں ہے کہ تاریخ میں پہلی بار ایک رپورٹر کی خبر پر سوپرپاور امریکا کا صدر استعفا دینے پر مجبور ہوا۔ ایک مثال قائم ہوئی۔ پھر میرے پاس اس واقعے کے تمام اہم کرداروں یعنی نکسن، ووڈورڈ، برنسٹائن اور تحقیقات کرنے والی کانگریس کمیٹی کے چئیرمین کے دستخطوں والی کتابیں ہیں، یعنی تمام زاویے میری نظر میں ہیں۔ اس کے علاوہ میں نے اس موضوع کی بیشتر دستاویزی اور فیچر فلمیں بھی دیکھ لی ہیں۔ ایک نئی سیریز کو میں کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔
بس ایک مسئلہ ہوگیا۔ وہ یہ کہ میں سمجھا، ایچ بی او پر پورا سیزن آچکا ہوگا۔ لیکن پہلی قسط دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ بس یہی دستیاب ہے۔ اگلی قسط آٹھ مئی کو آئے گی اور یہ سلسلہ پانچ قسطوں تک ہر پیر کو چلے گا۔
وائٹ ہاوس پلمبر سنجیدہ سیریز نہیں۔ کہانی تو سچی ہے، یعنی ردوبدل نہیں کیا گیا، بلکہ نام بھی اصلی استعمال کیے گئے ہیں، لیکن انداز طنزیہ ہے، جو نکسن کے حامی کنزرویٹو انٹیلی جنس افسروں کی حماقتوں کی وجہ سے مزاحیہ ہوجاتا ہے۔
ووڈی ہیرلسن کمال اداکاری کررہا ہے۔ اس کے ساتھ گیم آف تھرونز کی ملکہ سرسی، یعنی ہماری شہزادی لینا ہیڈی بھی ہے۔ اس کا کردار مختصر ہے لیکن ایکسپریشنز غضب کے ہیں۔
اس سیریز کو دیکھ کر آپ کو پتا چلے گا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں میں، چاہے کسی بھی ملک کی ہوں، بہت سے افسر احمق ہوتے ہیں۔ کراچی کی بمبیا زبان میں "پھدو کھاتے” میں بھرتی ہوجاتے ہیں اور اپنے شعبے اور ادارے کو ویسے ہی بدنام کرتے ہیں جیسے صدیق جان اور عمران ریاض نے صحافت کو کر رکھا ہے۔
امریکا سوپرپاور کہلاتا ہے، سی آئی اے اور ایف بی آئی کی دنیا میں دھوم ہے، کانگریس اور وائٹ ہاؤس کی طاقت سب کو معلوم ہے لیکن پھر بھی یہاں ہاؤس آف کارڈز، ویسٹ ونگ اور وائٹ ہاؤس پلمبر جیسی سیریز بن جاتی ہے۔ ہمارے ہاں کوئی ایسی فلم یا ڈراما نہیں بناتا۔ اگر کوئی پروڈیوسر کھوج لگائے، اعزاز سید یا عمر چیمہ جیسے صحافیوں سے معلومات لے اور سیریز بنائے تو امریکی اور انڈین شوز کا ریکارڈ ٹوٹ سکتا ہے۔ وجہ یہ کہ انجمن حمقا کے جیسے نمائندے ہماری لمبر ون کے کارندے رہے ہیں اور انھوں نے جو بلنڈر کیے ہیں، ویسے لطیفے تو ووڈی ایلن جیسے ذہین اسکرپٹ رائٹر بھی نہیں لکھ سکتے۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ