رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوخصوصیات ایسی ہیں جو قوموں اور لوگوں کو زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک لے گئی ہیں۔ یہ اقدار اور انسانی صلاحیتوں میں نکھار لانا ہے۔ اقدار کہ جن میں چند ایک: آداب‘ شائستگی‘ ایمانداری‘ اخلاقیات‘ وقت کی قدر اور احساسِ ذمہ داری ہیں‘ جدید تعلیم کے بغیر ممکن نہیں۔ کسی بھی مغربی اور ترقی یافتہ مشرقی ملک جیسے جاپان میں جائیں تو آپ کو حسن ِترتیب نظر آئے گا۔ لوگ کاموں میں مصروف ہوں گے‘ دفتر وقت پر پہنچیں گے‘ گلی محلے اور بازاروں میں ایسی صفائی کہ آپ دنگ رہ جائیں۔باغات سرسبز‘ جنگلات‘ پارک‘ جہاں جائیں آپ کو انسانی زندگی اور فطرت کے درمیان ایک ربط نظر آئے گا۔
اقدار کا تعلق طرزِ حکمرانی‘ قانون اور انصاف کی فراہمی اور حکمرانوں کے ذاتی رویوں سے بھی ہے‘لیکن ان کی بنیادتعلیم اور تعلیمی نظام پرہے۔ دوسری خاصیت انسانی صلاحیتوں کا ارتقا‘ ترقی اور انہیں اجاگر کرنا ہے‘ جو اسے کہیں سے کہیں پہنچا دیتے ہیں۔ آپ اپنا موازنہ اپنے سکول کے زمانے کے اُن دوستوں اور رشتہ داروں سے کریں جو کسی وجہ سے تعلیم مکمل نہ کرسکے یا سر ے سے سکول کے دروازے کے اندر داخل ہی نہ ہوسکے تو بات سمجھ میں آجائے گی۔ آج کل میڈیکل‘ زراعت‘ صنعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدانوں میں جو انقلاب دیکھ رہے ہیں اس کا تعلق تعلیم اور تعلیمی نظام ہی سے ہے۔ ہمارے بارے میں جو رپورٹس بین الاقوامی ادارے شائع کررہے ہیں ان سے ہمارے حکمرانوں کی بے توجہی کا اندازہ ہوتا ہے۔ یونیسف کے اعدادوشمار ہیں کہ پاکستان میں دو کروڑ اٹھائیس لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔ یہ تعداد سکول میں داخلے کی عمر کے بچوں کا 44 فیصد ہے۔ ہماری یہ آبادی اَن پڑھ‘ بے ہنر اور بے صلاحیت رہے گی۔ بنگلہ دیش میں تقریباً 43 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں‘ا وران کو نظام میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسے ہی تو بنگلہ دیش اور دیگر ہمسایہ ممالک ہمیں کوسوں پیچھے نہیں چھوڑ گئے۔ نہ صرف انہوں نے تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کی ہے بلکہ انہوں نے تعلیم کو ترقی کا زینہ بنایا ہے کہ سماجی ترقی بھی ہو اور ہنر مند‘ باصلاحیت افرادی قوت بھی پیدا ہو جو جدید مشینوں کو چلاتی ہے۔
کئی افریقی ممالک اپنی ترجیحات میں انقلابی تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ ایک مثال نہایت ہی پسماندہ ملک سینیگال کی ہے جہاں ریاستی بجٹ کا20 فیصد تعلیم پر خرچ ہو رہا ہے اور تعلیم مکمل طور پر فری اور لازمی ہے۔ یہی کچھ بنگلا دیش نے کیا کہ سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار ہوگا اور کسی بچے سے کوئی فیس نہیں لی جائے گی۔ سرکای اداروں کے شانہ بشانہ سماجی تنظیموں نے وہاں تعلیم کے شعبے میں انقلاب لانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ بات تو عقل مندی‘ انسان دوستی اور سیاسی ترجیحات کی ہے۔ ہمارے حکمران تو جو کرتے ہیں اپنے لئے‘ خاندان اور دوستوں کیلئے اور غلام گردش گماشتوں اور ہرکاروں کو مالدار بنانے کیلئے۔ بات وسائل کی نہیں‘ قومی ترجیحات کے تعین کی ہے۔ رمضان کے مہینے میں حکومت نے چاہے خلوصِ نیت یا صرف دکھاوے کیلئے‘ فیصلہ صادر فرمایا کہ عوام کو مفت آٹا فراہم کیا جائے گا۔ چالیس ارب روپے خزانے سے خرچ ہوئے۔ مزدوری کر سکنے والے بھی موٹر سا ئیکلوں پر سوار ہو کر آٹے کی تقسیم کے مراکز کی طرف صبح جاتے اور ہزاروں میں سے چند سو ایک ایک بوری سر پر لادے گھر واپس آتے۔ اس بھگدڑ اوربدانتظامی میں کئی افراد حادثات کا شکار ہوئے۔ اس سے قبل کئی ارب روپے سستاآٹا سکیم کی نذر ہوگئے۔ دیکھنے میں آیا کہ ایک ہی گروہ روزانہ لائن میں کھڑا ہوتا‘ آٹے کا تھیلا لیتے اور تین سو روپے سستا بازار میں بیچ دیتے۔ کچھ تو اپنے جانوروں کو کھلا تے رہے۔ کتنی کرپشن ہوئی‘ کتنے تھیلے لوگوں میں تقسیم ہوئے‘ کتنے بلیک مارکیٹ میں بکے‘ اس کے بارے میں سابق وزیرا عظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ ملک کو صرف ایک ماہ میں بیس ارب کا ٹیکا لگاہے۔ میری اطلاع کے مطابق ان کے خلاف ابھی تک کسی نے ہتکِ عزت کا دعویٰ نہیں کیا۔
اگر ان 44 ارب سے ہم ایک فنڈ بنا دیتے اور اس کا صرف سالانہ منافع ہی اتنا حاصل ہوتاکہ سینکڑوں سکول چلائے جا سکتے تھے اور ہزار ہا غریب بچے تعلیم حاصل کرتے۔ا سی طرح بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے۔ میں اصولی طور پر اس کے خلاف نہیں مگر اس کو بڑھانے کی بجائے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف مستحق افراد ہی کو معاشی سہارا ملے۔ ویسے حکمرانوں میں سے کسی کا اس طرف دھیان ہو تو بات کریں کہ فلاحی ریاست کا یہ تصور اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ اکثر مغربی ممالک نے لوگوں کا انحصار ریاست پر ختم کرکے اُنہیں ایسے پیشوں کی تربیت دی‘ہنر مندی سکھائی کہ وہ خود کفیل ہوسکیں۔ فلاحی کاموں کا مقصد سہارا دینا ہے‘ لوگوں کی مستقل معاشی معذوری نہیں۔ ایسا کیوں نہیں ہوسکتا کہ کوئی بھی پروگرام ایک متعین وقت کے لیے ہو۔لازم ہو کہ اس گھرانے کے بچے سکول جارہے ہوں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں یہ تبدیلی ڈاکٹر ثانیہ نشتر کرگئی تھیں‘ اس پر عمل ہونا ضروری ہے۔
تعلیم پر تو ہم کئی سو ارب روپے خرچ کررہے ہیں مگر کرپشن‘ سیاسی عمل دخل‘ جعلی ڈگریاں اور بدانتظامی کے ساتھ تعلیمی شعبے کی نوکرشاہی ہی غالباً ہم پلہ ممالک کی نسبت کئی گنا بڑی ہے۔ وسائل کا بڑا حصہ تو یہی نوکر شاہی ہڑپ کرجاتی ہے۔ ہمارے ملک میں سرکاری تعلیم کی کمی کا بوجھ شہریوں میں مڈل کلا س خود اٹھا لیتی ہے۔ دیہات میں بھی نجی سکولوں کی تعداد ہر سال بڑھتی جارہی ہے۔ کم وسائل کے باوجود نجی سکولوں کا معیار بہتر کیوں ہے ؟ لاہور کے ضلع میں 60 فیصد بچے نجی سکولوں میں کیوں پڑھتے ہیں ؟ اس کا جواب سرکاری سکولوں اور کالجوں کے گرتے معیار میں ہے۔ چاہیں تو اس کی تمام ذمہ داری کسی مخصوص سیاسی دھڑے پر ڈال سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں صرف ایک ہی حکمران طبقہ ہے‘ دوتین موروثی جماعتیں ہیں‘ وہی طاقتور نوکرشاہی ہے۔ سب پاکستان اور اس کے عوام کی پسماندگی‘ جہالت‘ غربت اور بیچارگی کے ذمے دار ہیں۔ یہ سب چہرے مہرے اور ان کے آبائو اجداد یہ فریضہ انگریز دور سے سرانجام دیتے آرہے ہیں۔ آج کل پانچواں دور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی طرح ہے۔ کہاں آئین اور جمہوریت کی بالادستی کی باتیں اور کہاں آلہ کار کی حیثیت۔ غریبوں کو آٹے کی لائن میں لگا کر خود خواہ مخواہ کے بیرونی دوروں پر قومی وسائل برباد کرنے ہوں تو یہ دوکروڑ اٹھائیس لاکھ بچے کہاں جائیں؟
اخلاقی قانونی‘ سیاسی اور آئینی معیار بدل چکے۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے کسی کونے میں بیٹھنے کو جی نہیں چاہتا۔ حکمران ہمارے وسائل اور غریبوں کے بچوں کا مستقبل تاریک کرتے رہیں اور ہم ان کی حرکتوں پر چپ سادھ لیں‘ یہ ہم کرنے سے رہے۔ حالات جو بھی ہوں‘ آپ جو بھی کریں‘ ہم اپنا فرض ادا کرتے رہیں گے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ