مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب سلمان حیدر کو ایجنسیوں نے اغوا کیا تھا۔
میں اس روز حیدرآباد لٹریچر فیسٹول میں شریک تھا۔ ایک تقریب میں گفتگو کررہا تھا۔ میں کچھ تلخ ہوگیا۔ نور الہدی شاہ بعد میں ملیں جو اس سیشن میں نہیں تھیں۔ لیکن انھوں نے کہا کہ باہر تک آواز آرہی تھی اور میں سمجھ گئی تھی کہ یہ تم ہو۔
وہی سلمان حیدر آج عمران ریاض کے لاپتا ہونے پر احتجاج کررہے ہیں اور دوسروں کو بھی احتجاج کی تلقین کررہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان پر گزری ہے۔ لیکن عمران ریاض ان جتنا ظرف والا اور اچھا آدمی نہیں ہے۔ جب کوئی لاپتا ہوتا تھا تو ایجنسیوں کا وہ ٹٹو کہتا تھا کہ لاپتا ہونے والے نے کچھ کیا ہوگا۔ ایجنسیاں ایسے ہی تو کسی کو نہیں اٹھاتیں۔
عمران ریاض لاپتا ہرگز نہیں ہے۔ اس کے اہلخانہ، دوست، پرستار سب جانتے ہیں کہ ایجنسیوں کی لانڈری میں اس کی دھلائی ہورہی ہے۔ ہاں ہو تو غلط رہا ہے۔ لیکن وہی ہورہا ہے جس کی وہ وکالت کرتا تھا۔
نہ میں سلمان حیدر کی طرح شفاف اور سادہ دل ہوں اور نہ عمران ریاض کی طرح منافق۔ جب عدالتیں ناانصافی کریں تو ایسے ماورائے عدالت انصاف پر خوشی ہوتی ہے۔
سلمان حیدر کا یہ جملہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سنہری الفاظ سے درج کیا جانا چاہیے کہ فوج جو کچھ کررہی ہے، غلط کررہی ہے لیکن پی ٹی آئی کے ساتھ جو ہورہا ہے، ٹھیک ہورہا ہے۔
کسی غریب کا لاپتا ہونا اور ایجنسیوں کے کسی ٹٹو کا لاپتا ہونا ایک جیسی بات نہیں ہے۔
ایجنسیاں کسی شریف آدمی کو اغوا کریں اور اپنے کسی منحرف کو اغوا کریں، یہ ایک جیسا معاملہ نہیں ہے۔
فوج کسی تنقید کرنے والے کو غائب کرے اور کسی نفرت پھیلانے والے کو غائب کرے، یہ ایک جیسی سزا نہیں ہے۔
اصول، قانون اور آئین کے خوشنما الفاظ سے دھوکا نہ کھائیں۔
جس آئین کے تحت سب شہری برابر ہیں، اسی آئین نے کچھ لوگوں کو اقلیت قرار دیا ہوا ہے۔
جو بویا، وہ کاٹو گے کا اصول یاد رکھیں۔
عمران ریاض نے جو بویا تھا، وہ کاٹ رہا ہے۔ اس کے لیے آواز اٹھاکر دوسرے لاپتا افراد کا حق نہ ماریں۔ مظلوموں کے لیے آواز اٹھائیں۔
بے شک وہ لوگوں کے دماغ میں زہر بھرنے کا مجرم ہے۔ یہ اندھیرے میں قتل کی واردات نہیں۔ اس کے ولاگ اس کے جرم کا ثبوت
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ