مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جڑے رہیں۔۔۔||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سڈنی شیلڈن کا ایک جملہ ایسا ہے جس نے میری زندگی پر سب سے گہرے اثرات مرتب کئے۔ بہت سال پہلے ان کا بائیوگرافیکل ناول پڑھا، اس میں لکھے ایک فقرے نے بہت کچھ بدل ڈالا۔ نقش اتنا گہرا بنا کہ پھیکا ہی نہیں ہوسکا۔
سڈنی شیلڈن کے نام سے نئی نسل بھی واقف ہو گی۔ اس کے ناولوں سے ہمارے سکول، کالج کی بھرپور یادیں جڑی ہوئی ہیں۔ یہ ممتاز امریکی انگلش ناول نگار اور ٹی وی، تھیٹر رائٹر تھا۔ پچھلے چار عشروں کا مقبول ترین فکشن نگار جس کے ناولوں نے ایک زمانے میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ آج بھی اس کے ناول پڑھے جاتے ہیں۔ بے شمار زبانوں میں ترجمہ ہوئے، کروڑوں کاپیاں فروخت ہوئیں، کوئی تیس پینتیس کروڑ سے بھی زیادہ۔ گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے سڈن شیلڈن کو سب سے زیادہ ترجمہ کئے جانےو الا ناول نگار قرار دیا تھا۔
سڈنی شیلڈن کے ناول پاپولر فکشن کی کیٹیگری میں آتے ہیں۔ سادہ اسلوب، آسان زبان، تھرل،گلیمر، سپسنس، مسٹری اور کہیں کہیں ایکشن بھی۔ ان کے بعض عمدہ مسٹری ناول ہیں جبکہ زیادہ تر ہلکے پھلکے مسالہ دار کمرشل ٹائپ۔ ان میں کچھ چیزوں کونظرانداز کر دیا جائے تو انگریزی ادب کے ابتدائی طالب علم کے لئے برے نہیں۔ پڑھنے کی سپیڈ بہتر ہوتی ہے اور کچھ معلومات بھی ملتی ہیں۔ بعض ناول ریسرچ کے اعتبار سے دلچسپ اور جامع لگے۔فرانسیسی شہر کینز میں فلم کا ایک بڑا بین الاقوامی میلہ لگتا ہے، سڈنی شیلڈن کا ایک ناول اسی لوکیل اور ماحول پر ہے۔ اسے پڑھنے سے ہی کینز فلم فیسٹول اور فیشن ڈیزائن کی دنیا سے بھرپور آگہی ہوئی۔
سڈنی شیلڈن نے درجنوں ناول لکھے، اپنی بائیوگرافی بھی عمر کے آخری برسوں میںناول کے انداز میں لکھی ۔یہ کتابThe Other Side Of me کے نام سے دستیاب ہے۔ کوئی اٹھارہ برس قبل میں نے اس کتاب کو اپنے بھائی کے گھر میں پڑھا جہاں عید کی چھٹیاں گزارنے گیا ہوا تھا۔ دو تین دن کام سے فراغت اورصرف کھانا پینا، سونا اور اس کے ساتھ اسی ناول نما آپ بیتی کو پڑھنا۔ سڈنی کو بات کہنے کا ڈھنگ آتا تھا اور اپنی حقیقی زندگی کے واقعات بھی اس نے تھرلنگ انداز میں اور سسپنس آمیز موڑ کے ساتھ سنائیں۔ جس طرح ڈائجسٹ کے مقبول سلسلہ وار ناولوں میں ہوتا ہے کہ کہانی کا اختتام نہایت سنسنی خیز واقعہ پر ہوجائے ، اسی انداز میں اس کتاب کے ہر باب کا اینڈ دلچسپ ، تھرلنگ ، سنسنی خیز انداز میں ہوتا۔ قاری ورق الٹا کر اگلا باب فوری پڑھنے پر مجبور ہوجاتا۔
اسی کتاب کے پہلے باب میں سڈنی شیلڈن نے اپنی زندگی کا اہم ترین واقعہ لکھا۔ اس نے نوجوانی میں بیروزگاری اور مالی مشکلات سے تنگ آ کر خودکشی کرنے کی کوشش کی۔ منصوبہ وہسکی کے ساتھ نیند والی گولیاں کی پوری شیشی نگل لینے کا تھا۔ والدین کسی شادی میں گئے ہوئے تھے۔ جیسے ہی وہ گولیوں کا پورا پھکا مارنے لگا،دروازہ کھلا اور اس کا والد اندر آیا۔ وہ کوئی چیز بھول گیا تھا ، لینے آیا۔ دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ ماجرا کیا ہے۔
سڈنی نے لکھا کہ اس کا والد ایک اچھا سیلزمین تھا۔ اس نے نوجوان بیٹے کو روکنے ، ڈانٹنے یا نصیحت کرنے کے بجائے صرف اتنا کہا کہ چند منٹ کے لئے میرے ساتھ چلو، باہر واک کرتے ہیں۔ سڈنی چل پڑا، مگر اس نے طے کر رکھا تھا کہ باپ کی کوئی نصیحت نہیں ماننی، آج نہیں تو کسی اور روز خودکشی کر ہی لینی ہے۔
والد نے کچھ سمجھانے کے بجائے گپ شپ کی اور پھر ایک فقرہ بولا کہ تمہیں ناول پڑھنے کا بہت شوق ہے، تم نے دیکھا ہوگا کہ بعض بور نظر آنے والے ناولوں کا اگلا باب دلچسپ اور تھرلنگ نکل آتا ہے۔ زندگی بھی کسی ناول یا کتاب جیسی ہے۔ ایک باب اگر بور یا ناپسندیدہ ہے تو پھر اگلا توقع سے مختلف بھی ہوسکتا ہے۔ اس لئے اپنی زندگی کی کتاب کے اگلے باب تو کھول کر دیکھ لو۔ خودکشی یعنی زندگی کی کتاب ختم کرنے کا فیصلہ تو کبھی ، کسی بھی وقت کر سکتے ہو۔ جب جی چاہے کر لینا، مگر پہلے کچھ مختلف ٹرائی تو کر لو۔
اس بات نے نوجوان سڈنی کی زندگی بدل دی۔ اس نے نیویارک جا کر قسمت آزمانے کی سوچی۔ خاصی مشکلات کا سامنا کیا۔ اچھی نوکری نہ مل سکی۔ ایک تھیٹر کے باہر اسے آوازیں لگانے والا کا کام ملا۔وہ لگا رہا اور پھر اسی تھیڑ میں اسے کام کرنے کا موقعہ ملا، تھیڑ کے لئے لکھا، گانے بھی لکھے۔ ٹی وی پر بھی کام کیا، فلم میں بھی قسمت آزمائی کی۔
سڈنی کی زندگی نشیب وفراز سے معمور رہی۔ کبھی بڑا بریک تھرو، حیران کن کامیابی ۔ کبھی زبردست ناکامی اور بالکل زمین سے لگ جانا۔ اس نے نیویارک براڈوے تھیٹر کی تاریخ کے کامیاب ترین ڈرامے لکھے، پروڈیوس کئے اور پھر اسی تھیٹر کی تاریخ کا مہنگاترین ڈرامہ بنایا جو ڈیڈ فلاپ رہا، سب کچھ ڈوب گیا۔ اسے 1945میں ایک فلم پر بطور رائٹر آسکر ایوارڈ ملا۔ یہ غیر معمولی کامیابی تھی، مگر ا سکے بعد ایک سال تک اسے کوئی کام ہی نہیں ملا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اپنی شادی کی سالگرہ میں بیوی کو عام سے ریستوران میں ڈنر کرانے کے پیسے نہیں تھے، ادھار پکڑ کر برگر کھلانے لے گیا۔
پھر وہ سیٹ ہوگیا۔ ایک بڑے امریکی چینل کے لئے بہت مقبول ڈرامہ سیریز لکھی جو کئی سال چلی۔ براڈوے تھیٹر ، ٹی وی اور فلم کا وہ معروف رائٹر تھا۔سڈنی کو لگا کہ اب زندگی سیٹل ہوگئی ہے، جو بننا تھا وہ بن گیا۔ پھر 1970میں اس نے اپنی زندگی کا پہلا ناول لکھا،The Naked Face۔ یہ ایسی کہانی تھی جسے وہ ڈرامے یا تھیٹر پر پیش نہیں کر سکتا تھا۔ اس کا ناول چھپا مگر زیادہ پزیرائی نہیں ہوئی۔ پبلشر نے اس کے ساتھ دو اور رائٹرز کی کتابوں کی تقریب رونمائی کی۔دونوں رائٹرز سے ان کی کتاب پر آٹو گراف لینے والوں کی لمبی قطار تھی، مگر سڈنی شیلڈن سے صرف یک بزرگ خاتون نے ترس کھا کر کتاب پر دستخط لئے۔ پورے دن میں صرف یہی ایک کتاب فروخت ہوئی۔
یہ بڑی ناکامی تھی، سڈنی شیلڈن کے لئے آسان تھا کہ ناول کی دنیا پر تین حرف بھیج کر دوبارہ اپنی ٹی وی، تھیٹر کی دنیا میں لوٹ جاتا۔ اس کی زندگی کی کتاب کے اگلے ابواب مگر بہت مختلف تھے۔ اس نے دوسرا ناول لکھا،دی اَدر سائیڈ آف مڈ نائیٹ۔ یہ ناول تہلکہ خیز اور بلاک بسٹر ٹائپ نکلا۔ دنیا بھر میں یہ بے تہاشا فروخت ہوا۔ نیویارک ٹائمز کی بیسٹ سیلر لسٹ میں یہ باون ہفتے یعنی پورا ایک سال رہا جو ایک تاریخ ساز بات تھی۔ اس ناول نے سڈنی شیلڈن کی زندگی بدل دی۔ اس کے بعد اس نے اپنی موت تک صرف ناول ہی لکھے اور ان سے کروڑوں اربوں ڈالر کمائے، بے پناہ شہرت، عزت اور فین شپ بھی۔
سڈنی شیلڈن کی زندگی کا ایک تکلیف دہ پہلو بھی تھا۔ وہ تمام زندگی ڈپریشن کا مریض رہا، موڈسوئنگ اس کی طبیعت کا حصہ تھے۔ انتہائی خوشی کے موقعہ پر بھی وہ اداس سا رہتا اور کبھی معمولی سی بات پر بے تہاشا خوش ہوجانا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ایک نفسیاتی عارضے کا شکار ہے جسے آج کل ہم بائی پولر(Bi Polar) کہتے ہیں۔ سڈنی اس مسئلے سے بھی لڑتا رہا، اپنی زندگی کی اونچ نیچ، ڈرامائی تبدیلیوں اور نشیب وفراز سے بھی نبردآزما رہا اوریوں ہی زندگی گزار دی۔
اپنی اس بائیو گرافی میں اس نے وہی جملہ لکھا،” زندگی ایک لفٹ(ایلی ویٹر) کے مانند ہے، کبھی یہ اوپر جاتی ہے ، کبھی نیچے۔جب یہ انتہائی نچلی حد یعنی زمین کو چھو رہی ہو تو یہ امید اور حوصلہ رکھنا چاہیے کہ یہ پھر اوپر بھی جائے گی، ٹاپ تک ۔ کامیابی کا گر بس یہی ہے کہ لفٹ سے باہر نہیں نکلنا۔“ اپنی کتاب کے آخری پیرے میں سڈنی شیلڈن نے اعتراف کیاکہ زندگی میں مجھے حیران کن کامیابیاں ملیں اورکنگ سائز ناکامیاں بھی۔
ہم سب کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ زندگی کی لفٹ ہمیں کبھی اوپر لے جاتی ہے اور کبھی مشکل وقت آتا ہے، لفٹ نیچے آ جاتی ہے۔تب لگتا ہے شائد سب ختم ہوگیا، اب ہم کبھی اوپر نہیں جا سکتے۔ ایسا مگر ہوتا نہیں۔بہت کچھ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
زندگی کی کتاب کا ہر باب پچھلے سے مختلف اور تھرلنگ ہوسکتا ہے۔ کسی کونہیں معلوم کہ آنے والے دنوں میں کیا لکھا ہے؟ بس یہ یقین رکھنا چاہیے کہ یہ لفٹ جو ابھی نیچے کھڑی ہے، ہمیں ٹاپ پر بھی اسی نے لے کر جانا ہے۔ تب تک ہم جڑے رہیں، سسٹم میں رہیں، کام کرتے رہیں، راستے نکالتے رہیں، مل جل کر مشکل وقت نکالیں۔ اچھا وقت ، خوشگوار، دل خوش کن لمحات اللہ کے فضل سے ضرور آتے ہیں۔ کوشش کرتے رہیں اور اپنے اچھے وقت کا انتظار کریں۔

۔

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: