مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

نبیل کے معاشی حالات دگرگوں ہیں کہ نہ گھر ہے اور نہ نوکری، لیکن شیخ چلی کی مانند ایک اجنبی عورت سے رسمی ملاقاتوں کے بعد اس سے شادی کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ شادی کے خرچے کے لئے اللہ سے غیبی امداد کی توقع ہے اور شادی کے بعد ثانیہ کی تنخواہ سے گھر چلانے کی امید باندھ رکھی ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری قسط :
سوال یہ ہے کہ ان سب کو ثانیہ مختلف اور عجیب کیوں محسوس ہوئی؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ ثانیہ خود کو انسان سمجھتی ہے، مرد کے برابر کا انسان۔ وہ بضد ہے کہ وہ معاشرے کے اسی سلوک اور طرز عمل کی مستحق ہے جو مرد کو ملتا ہے۔ ایک علیحدہ دائرے میں عورت کو رکھ کر کمتر اور کم عقل مخلوق سمجھے جانے کا لیبل اسے قبول نہیں۔ وہ ہر چیز کو گہری نظر سے دیکھ کر اس میں پائی جانے والی کجی پہ ہنس دیتی ہے۔ وہ ادبی دانشوروں کو مزید حیرت سے دیکھتی ہے کہ اس کے خیال میں ان لوگوں کو عام انسان کی سطح سے بلند ہو کر بات کرنی چاہیے۔ ان سب کے بارے وہ کہتی ہے :

”تم سب لوگ جو ادب وغیرہ کو بہت اہمیت دیتے ہو، اپنی بڑی بڑی باتوں اور احمقانہ چالاکیوں کے باوجود بڑے معصوم لگتے ہو۔ دن رات لوگوں کے نفسیاتی تجزیے کرتے ہو، لفظوں کے ذریعے سوچ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہو، تم لوگ بچوں کی طرح ہو جنہیں اصل دنیا کے بارے میں کچھ بھی علم نہ ہو“

دانشوروں کے اس گروپ سے اسے متعارف کروانے والا نوجوان شاعر نبیل ہے۔ نبیل زیادہ تر بیروزگار رہتا ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ اس کا مستقبل شاعری کرنے میں ہے اور ایک اچھے شاعر کو سلسلہ روزگار سے سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ وہ ہوائی قلعے بنانے والا شخص ہے اور محنت کرنے پہ یقین نہیں رکھتا۔

نبیل کی ذات اس کی شخصیت میں پائے جانے والے دوغلے پن کی ایک بہترین مثال ہے۔ کتابی دنیا میں اسے مرد و عورت کی دوستی حیران نہیں کرتی۔ وہ تسلیم کرتا ہے کہ دو انسان صنفی فرق کے باوجود اچھے دوست ہو سکتے ہیں مگر حقیقی زندگی میں ثانیہ کی توجہ پا کر وہ یہ نکتہ بھول کر فوراً ہی اس کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

ایک ماہ ساتھ کام کرنے کے بعد ہی اسے لگتا ہے کہ ثانیہ کی صورت میں اسے ایک بہت بڑی نعمت مل گئی ہے اور ساتھ میں یقین کہ وہ بھی اسے پسند کرتی ہے۔ سو اب اسے نبیل سے شادی کر لینی چاہیے۔ ثانیہ تک اپنی بات پہنچانے کے لئے وہ دو صفحات پر مشتمل محبت نامہ لکھتا ہے اور بہانے سے اسے دے دیتا ہے۔

ستم ظریفی دیکھیے : ایک طرف وہ محبت نامہ لکھ کر جواب کا بے چینی سے انتظار کر رہا ہے اور دوسری طرف ایک اور کولیگ رضیہ کے ساتھ وقت گزار رہا ہے۔ چائے پیتے ہوئے، شعوری یا غیر شعوری طور پہ، اس کی ٹانگ سے ٹانگ چھو جانے پر جسمانی ارتعاش کا لطف اٹھاتے وقت اسے ثانیہ یاد نہیں آتی اور اس سے ملنے کی بے چینی میں مزید کمی آ جاتی ہے جب وہ رضیہ اور اس کی چھوٹی بہن نظیرہ کے ساتھ وقت گزارتا ہے۔

رضیہ اور نظیرہ کے ساتھ اس ملاقات کی خبر وہ ثانیہ کو نہیں ہونے دیتا۔ نبیل کے دل ہی دل میں کہیں یہ خیال کنڈلی مارے بیٹھا ہے کہ رضیہ کے ساتھ گزارا جانے والا وقت ثانیہ سے کی جانے والی کمٹمنٹ میں خیانت ہے۔ وہ اس خیال کو جھٹلانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔

دیکھئیے کامیو نے بھی تو adulterous woman میں یہی کہا ہے نا کہ کسی دوسرے کی خلوت میں اس کے ساتھ رومانوی معاملات میں اپنے آپ کو تصور کر لینا بھی اخلاق باختگی کے زمرے میں پہنچا دیتا ہے اور سارتر کی کہانی کیوں بھولیں جس میں ایک شخص کی جھوٹی اطلاع پہ اس کے سب دوست گرفتار ہو جاتے ہیں کہ پولیس سے چھپنے کے لئے انہیں بھی اسی جگہ کا خیال آیا جو دوست نے اپنی جان چھڑانے کے لئے پولیس کو جھوٹ موٹ بتائی تھی۔ کیا انور سن رائے کسی اصرار کے بغیر اپنے کرداروں کو وجودی اخلاقیات پر پرکھنے کا تقاضا کر رہے ہیں؟

نبیل پدرسری معاشرے کی ایک ایسی تصویر ہے جسے جس رخ سے بھی دیکھیں، وہ ملگجی اور داغ دار ہی نظر آتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو شاعر کہتا ہے، دنیا بدلنا چاہتا ہے لیکن اس کے لئے محنت کرنا نہیں چاہتا۔ عورتوں سے دوستی پہ یقین رکھتا ہے لیکن جونہی کسی عورت سے دوستی کرتا ہے، جنسی خیالات میں گم ہو جاتا ہے۔ مردوں کے درمیان بے تکلف دوستی کو تسلیم کرتا ہے لیکن ثانیہ کے پرخلوص التفات کو محض دوستی سمجھنے پر تیار نہیں۔ اس کے خیال میں ایک عورت کسی مرد سے دوستی کے بعد اتنا خیال تب ہی رکھ سکتی ہے جب محبت بھی کرتی ہو۔ وہ ثانیہ کو غیر شادی شدہ اس لئے سمجھتا ہے کہ اس کے خیال میں کوئی بھی شادی شدہ عورت کسی مرد کو دوست بنا کر لگاؤ کا مظاہرہ نہیں کر سکتی۔

دیکھیں یہاں ہے وہ فرق، شادی شدہ عورت دوست بنا کر لگاؤ کا مظاہرہ نہیں کر سکتی۔ یعنی دوست نہیں بنا سکتی لیکن اگر وہ ایسا کرتی ہے تو شادی شدہ نہیں اور اگر وہ ایسا کر رہی ہے تو تلاش میں ہے۔ نبیل یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ خود اس کے اپنے رویے متضاد ہیں۔ ایک طرف ثانیہ کے عشق میں مبتلا اور دوسری طرف رضیہ کی قربت سے اور لمس سے لطف اندوز ہونا اور اسے چھپانا۔

نبیل کے معاشی حالات دگرگوں ہیں کہ نہ گھر ہے اور نہ نوکری، لیکن شیخ چلی کی مانند ایک اجنبی عورت سے رسمی ملاقاتوں کے بعد اس سے شادی کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ شادی کے خرچے کے لئے اللہ سے غیبی امداد کی توقع ہے اور شادی کے بعد ثانیہ کی تنخواہ سے گھر چلانے کی امید باندھ رکھی ہے۔

پدرسری رویہ نبیل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اسے ثانیہ کے بارے میں یہ علم نہیں کہ وہ کنواری ہے یا بیاہتا۔ لیکن چونکہ وہ ثانیہ سے محبت میں مبتلا ہو چکا ہے سو اب ثانیہ کا یہ فرض بنتا ہے کہ اگر ثانیہ شادی شدہ بھی ہے تب بھی اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کرے۔ نبیل سمجھتا ہے کہ اس محبت کو ہوا دینے میں ثانیہ کا ہاتھ ہے۔

اسے اس بات کی چنداں پروا نہیں کہ ثانیہ کیا سوچتی ہے؟ کیا کرنا چاہتی ہے؟ وہ نبیل سے محبت کر بھی رہی ہے یا نہیں؟ وہ کہتا ہے :
” یہ سب میں نے نہیں کیا، خود اس نے پیدا کیا ہے یہ احساس، خود اس نے مجبور کیا ہے مجھے اس طرح سوچنے پر۔ میں تو اس خواہش اور اس سوچ سے ہی نا آشنا تھا۔ میں نے پہلے کسی لڑکی سے اس طرح گفتگو بھی نہیں کی تھی، کسی کے ساتھ ایک سواری پہ نہیں بیٹھا تھا۔ یہ سب اس نے کیا ہے۔ اس نے جنم دیا ہے میرے اندر اس احساس کو، اب اس کا مداوا بھی اسی کو کرنا پڑے گا، جس نے آگ لگائی ہے، اسے یہ آگ بجھانی بھی پڑے گی“

کس قدر عجیب بات ہے کہ جو عورت اس پہ ترس کھا کر یا انسانیت کے ناتے اسے نوکری میں پاؤں جمانے میں مدد کرتی رہی، کھانا کھانے اور کرائے کے پیسے ادھار دیتی رہی، اپنے پلے سے چائے اور سگریٹ کا خرچہ اٹھاتی رہی، وہی آخر میں مجرم اس لئے ٹھہری کہ اس کے خیال رکھنے سے نبیل کے اندر خواہشات اور جذبات انگڑائی لے کر جاگ اٹھے۔ اسے اپنی بیروزگاری کا وقت بھول گیا، اپنی مشکلات بھلا بیٹھا، یہ بھی بھول گیا کہ ایک عورت نے مشکل وقت میں اسے سہارا دیا ہے۔ یاد رہا تو صرف اتنا کہ وہ اس کے ساتھ ہنسی اور بولی اور وقت ساتھ میں گزارا۔ کیوں گزارا؟

سو اس قصور میں چاہے وہ گھر بار والی ہو، شوہر اور بچوں سے محبت کرتی ہو اور انہیں چھوڑنا نہ چاہتی ہو تب بھی اسے چاہیے کہ نبیل کے لئے دنیا چھوڑ دے۔ کیوں چھوڑے کا جواب صرف ایک ہے کہ ایک مرد اسے جیتنا چاہتا ہے۔ اس مرد کو علم نہیں کہ وہ عورت اس مرد سے محبت کرتی ہے یا نہیں لیکن چونکہ ایک نرگسیت کے مارے مرد کی وہ ضرورت بن چکی ہے تو عورت کا اب یہ فرض ہے کہ سب کچھ تج کر وہ اسے فوراً چاہنا شروع کر دے۔

یہ سب کہتے ہوئے وہ بھول جاتا ہے کہ اسے محض ایک عورت کی قربت کی خواہش بے حال کر رہی ہے چاہے وہ ثانیہ ہو یا کوئی بھی اور۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: