حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھاڑے کی حب الوطنی اور ریاستی غداروں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا پاکستان۔ یاد رکھئے ہم پاکستان کے معروضی حالات اور تاریخ کے تناظر میں بات کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی زمانے میں شیخ مجیب الرحمن، میاں افتخار الدین، خان عبدالولی خان اور ان کے والد بزرگوار خان عبدالغفار خان، مرشد جی ایم سید، غوث بخش بزنجو، سید محمد قسور گردیزی، رائو مہروز اختر، عارف محمود قریشی، فیض و جالب سمیت ہزاروں زمین زادے جن کا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں سے تھا، ریاستی غدار کہلاتے تھے فہرست بڑی طویل ہے بالائی سطور میں بس چند نام لکھے ہیں ۔
ساعت بھر کے لئے رکئے، بٹوارے سے کچھ پہلے کی بات ہے لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے کارکنوں کا پرہجوم جلوس پنجاب کے حاکم اعلیٰ سکندر حیات کی اقامت گاہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ نعرے اچھالے جارہے تھے ’’سکندر ٹھاہ ، مسلمانوں کا غدار ہے جو سکندر کا یار ہے، انگریز کے پٹھو ہائے ہائے، کانگریس کے سہارے منہ کے بل گریں گے سارے‘‘ جلوس سکندر حیات کی اقامت گاہ کی طرف رواں دواں تھا اسی دوران خبر ملی کہ محمدعلی جناح اور سکندر حیات میں معاملات طے پاگئے ہیں۔
لمحہ بھر میں ہجوم کا انداز تکلم اور نعروں کی ساخت تبدیل ہوگئی۔ نیا نعرہ زبانوں پر مچلا اور ہوا کے دوش پر رکھا گیا ’’نویں خبر آئی اے سکندر ساڈا بھائی اے‘‘۔
آپ نے اگر بھاڑے کی حب الوطنی اور ریاستی غداروں کی لمبی چوڑی تاریخ سے حظ اٹھانا ہے تو کسی دن پاپ کارن کے دو تین پیکٹ لے کر بیٹھیں۔ تھرماس میں چائے بھر کر رکھیں۔ فقیر راحموں کی طرح بلیک کافی پسند کرتے ہیں تو تھرماس میں سادہ گرم پانی کافی کا جار اور چینی پاس رکھیں پھر مسلم تاریخ کے اوراق الٹیں شرطیہ اٹھارہ طبق روشن ہوجائیں گے۔
گھبرانے لگیں تو پاپ کارن کھائیں۔ چائے نوش کیجئے یا کافی کے کپ سے سپ بھریں۔ تازہ دم ہوکر پھر سے پڑھنا شروع کردیجئے۔ ویسے اس لمبے چوڑے اہتمام کی ضرورت نہیں صرف بٹوارے کے بعد کی 75سالہ تاریخ کا مطالعہ پاکستان کی روشنی میں تجزیہ کیجئے آپ کو لگے گا مطالعہ پاکستان کے مصنفین کے علاوہ صرف ریاست اور ٹوڈیوں کی ٹولیاں محب وطن ہیں باقی سب غدار ہیں۔
گو اب نئے نئے کاروبار بھی ہیں مشرک ، گستاخ، بدعتی، دشمنِ حق (حق اپنا اپنا) بہت جی مچلے تو مخالف رائے رکھنے والے کو کھٹ سے یزید وقت قرار دے دیجئے۔
یہ جتنے کاروبار پاکستان میں ہورہے ہیں ان کاروبار کے فرنچائزیوں کا دھندہ خوب چل رہا ہے انہیں آپ جانتے بھی ہیں ، مالک کو بھی آپ جانتے ہی ہیں مگر میں اس کا نام کیوں لوں بڑی مشکل سے تو محب وطن ہوا ہوں ورنہ میرے اعمال نامہ میں ملٹری کورٹ سے مارشل لاء کی دفعات 31، 38، 39 اور 43 کے تحت عوام میں فوج کے خلاف نفرت پھیلانے اور لوگوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف اکسانے کے الزام میں تین سال قید بامشقت لکھی ہے جو الحمدللہ بھگتی بھی تھی ۔
پتہ نہیں پھر بھی کیوں مجھے ہمیشہ غدار اچھے لگے اور محب وطن زہر لگتے ہیں۔
مرشد جی ایم سید مرحوم سے محبت نے ایسا باندھا کہ اب بھی ان سے محبت مجھے اپنی بات یقین سے کرنے کی ہمت عطا کرتی ہے۔
خیر چھوڑیں یہ بات سے بات نکلی تو زلف یار کی طرح دراز ہوجائے گی ہم موضوع تک محدود رہتے ہیں۔
میں ایک اور پرانے غدار کو بھی جانتا ہوں ایک کیا ویسے تو سینکڑوں ہزاروں کو جانتا ہوں۔
یہ غدار شیخ ایاز تھے سندھی دانش کے مہتاب شیخ ایاز شاعر، دانشور، مترجم ، قانون دان، ماہر تعلیم، شاہ لطیفؒ بھٹائی اور سچل سرمستؒ کے کلاموں کا سندھی سے اردو میں ترجمہ کرکے انہوں نے علم و ادب پر احسان کیا۔
انہی شیخ ایاز سے عشروں قبل مہران مرکز سکھر میں جمی ایک مجلس میں طالب علم نے عرض کیا ریاست کا فرد پر حق کیا ہے؟ شیخ بولے
’’ریاست حق تب جتائے جب فرد کے رباست پر واجب حقوق سود سمیت نہ سہی اصل میں تو ادا کرے۔ انہوں نے کافی کا کپ اٹھایا ایک دو سپ لئے اور پھر بولے، ہمارے ہاں ریاست نے فیشن بنالیا ہے جو اپنا حق مانگے اسے غدار قرار دے دو یہ سب سے آسان طریقہ ہے فرائض کی ادائیگی سے فرار ہونے کا‘‘
ان سموں یہ سطور لکھتے ہوئے سندھی دانش کے مہتاب شیخ ایاز مرحوم بہت یاد آرہے ہیں۔
غالباً سال دو سال یا اس سے قبل ان سطور میں لکھا تھا ’’ریاست کے اعدادوشمار کے حساب سے اس ملک میں عربی، ایرانی ، بھارتی اور امریکی ایجنٹوں کی اتنی بھرمار ہے کہ آپ محب وطن تلاش کرنے نکلیں گے تو شہری حدود سے نکل کر چھائونی کے ناکے پر پہنچ چائیں گے۔ تب بہت سارے دوستوں اور آئی ایس پی آر والوں نے تمسخر اڑاتے ہوئے کہا تھا
” تمہیں مایوسی پھیلانے اور قصے گھڑنے کے سوا کیا آتا ہے ” لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ کسی دن غداروں کی اقسام کو جمع کر کے حساب کرلیجئے مشکل سے دس بارہ لاکھ محب وطن ہوں گے باقی وہی ہیں عربی، ایرانی، امریکی اور بھارتی ایجنٹ۔ ہم نے برسوں سنا بھگتا جسے پاک فوج پسند نہیں وہ بھارت دفع ہوجائے۔
مجھے ہر تیسرے چوتھے دن یہ سننا پڑتا ہے۔ ’’بکواس مت کرو گندے رافضی دفع ہوجائو ایران‘‘۔
ارے بھیا کیوں جائوں ایران کیا یہ ملک تمہاری جاگیر ہے یا پرکھے بری اور جہیز میں لائے تھے؟
اس ملک میں جن کارخانوں میں عید و شبرات کی چھٹیوں میں بھی تین تین شفٹوں میں کام ہوتا ہے وہ ہیں غدار، ملک دشمن، بدعتی، مشرک، گستاخ اور یہودوہنود کا ایجنٹ بنانے کے کارخانے۔ میری بات پر یقین نہ ہو تو ذرا چار اور نگاہ دوڑا کر دیکھ لیجئے طبیعت ہشاش بشاش ہوجائے گی
لیکن اگر حلق سوکھنے لگے تو فریج کھولیں ٹھنڈا پانی لیں اور گھونٹ گھونٹ کرکے پی لیجئے۔
کئی برس ہوتے ہیں مجھ سے ملاقات کے لئے آنے والے طلباء نے سوال کیا ’’شاہ جی ہمارے سماج میں نفرتوں کا جادو جس طرح سر چڑھ کر بول رہا ہے اس سے نجات کی کوئی صورت ہے؟‘‘
میں نے عرض کیا ’’عزیزو، بھلا نفرت سے ہوئے بٹوارے کی کھیتی میں کبھی گلاب اگے ہیں؟ نہیں اگ سکتے گلاب یا کوئی دوسری فصل بوائی کے بعد پانی مانگتی ہے نفرتوں کی کھیتی خون سے سیراب ہوتی ہے فتوئوں کی کھاد پڑتی ہے اور الزامات کا سپرے ہوتا ہے‘‘۔
فیصلہ خود کرلیجئے کہ اس طرح کی فصلوں کے نتائج کیا ہوں گے۔
میں ہر دوسری تیسری سطر پر بھٹک سا جاتا ہوں اس کے لئے دلی معذرت ۔
کیا کروں چار اور جس طرح کے حالات ہیں یکسوئی ’’ہنوز دلی است‘‘ کے مصداق ہے۔
میرے بہت سارے دوستوں اور پڑھنے والوں کا شکوہ ہے کہ ساری عمر ریاستی مظالم پر چیختے کڑھتے لکھتے رہے اب جو کچھ ہورہا ہے اس پر چپ سادھے ہوئے ہو بولتے کیوں نہیں۔
ایسا نہیں ہے میں اب بھی لکھتا ہوں لیکن اپنی مرضی سے جو محسوس کرتا ہوں لکھ دیتا ہوں البتہ جھوٹ کی طومار سے عبارت پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہوتا۔
ہماے ہاں سچ اپنا اپنا ہے۔ ظالم اور مظلوم بھی اپنے اپنے محب وطن و غدار یہ بھی اپنے اپنے ہیں۔
بدزبانوں کے چار اور دندناتے لشکروں میں سے کسی کی بدزبانی فرحت بخش محسوس ہوتی کسی کی زہر لگتی ہے۔
تلخ ترین سچ یہ ہے کہ میں اچھا کامریڈ متقی دین دار، جذباتی انقلابی اور کمرشل لبڑل نہیں ہوں۔
پاپولرازم کا شکار اس لئے نہیں ہوتا کہ روزانہ کی بنیاد پر کچھ نہ کچھ پڑھتا رہتا ہوں۔ آج صبح سے پروفیسر جواد المسطقی کی تصنیف ’’حسن بن صباح‘‘ پڑھ رہا ہوں۔ سیدی جون ایلیا مرحوم نے اس کا اردو ترجمہ کیا اور حواشی لکھے۔ نایاب کتاب ہے میں اپنے عزیز سید زوہیب حسن بخاری کا ممنوں ہوں کہ انہوں نے اس نایاب کتاب کو نیٹ سے ڈائون لوڈ کرکے فوٹو کاپی عنایت کی کتاب ملنے والے دن سے اب تک فقیر راحموں خوشی سے پھولا ہوتا ہے۔
اس خوشی کو کتاب دوست سمجھ سکتے ہیں ۔
گزشتہ شام لاہور میں مقیم میرے سرائیکی وسیبی دوست نثار احمد تشریف لائے انہوں نے ڈاکٹر علی شریعتی کی کتاب ’’اسلام کی سماجیات‘‘ کا اردو ترجمہ تحفہ میں دیا۔ توقیر عباس نے یہ ترجمہ کیا ہے باری آنے پر کتاب پڑھ کر اس پر عرض کروں گا۔
فی الوقت یہی کہ ہم اور آپ جس معاشرے میں جینے رہنے پر مجبور ہیں اس میں جی رہ لیا جانا ہی بہادری ہے۔
آج صبح مبشر زیدی نے فیس بک پوسٹ میں پاکستانی میڈیا ہائوسز میں امتیاز و استحصال کے چند نمونے رقم کئے تو بے ساختہ کمنٹس میں وہ حالات لکھ دیئے جن کا برسوں سے سامنا ہے۔
یہ سطور رقم کرتے ہوئے ایک عزیز دوست کا فون آیا مزدوری میں وقفہ کیا دوست سے باتیں کیں وہ کہہ رہے تھے ’’شاہ جی میں نے تمہیں برسوں قبل کہا تھا قلم مزدوری بھلے کرتے رہو لیکن ساتھ میں کچھ ایسا کام بھی کرو جس سے آڑے وقت میں مدد ملے‘‘ عرض کیا جب آپ نے مشورہ دیا تھا تب بھی عرض کیا تھا، تازی کرکے کھانے والوں کے لئے سپورٹنگ پروگرام چلانا بہت مشکل ہے۔ کہنے لگے یار تمہیں زیدی صاحب کی وال پر اپنے پیٹ سے کپڑا نہیں اٹھانا چاہیے تھا، بھرم بھی کوئی چیز ہے۔ عرض کیا
’’وہ کمنٹس اس لئے کیا کہ دل دکھ سے بھر گیا تھا پوسٹ کا متن پڑھ کر‘‘۔
کالم کے دامن میں گنجائش تمام ہوئی باقی پھر سہی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ