اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یہ سب کیا تماشہ ہے؟۔۔۔||جام ایم ڈی گانگا

جام ایم ڈی گانگا سرائیکی وسیب کے ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے صحافی اور سماجی رہنما ہیں، وہ مختلف موضوعات پر مختلف اشاعتی اداروں میں لکھتے رہتے ہیں انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

جام ایم ڈی گانگا

03006707148

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خواجہ فرید آئی ٹی یونیورسٹی میں بی ایس فزکس کی طالبہ
جسے حکومت پنجاب کی جانب سے 13لاکھ مالیت کا سکالر شپ دیا گیا ہے گزشتہ رو ز اس کی ہمشیرہ علیزہ علی سکالر شپ چیک وصول کرنے کے لئے خواجہ فرید آئی ٹی یونیورسٹی گئی کہ اسی دوران انچارج شعبہ فزکس بلال طاہر نے انچارج سیکیورٹی خرم شہزاد کی مدد سے طالبہ علیزہ کو مجبور کیا کہ وہ سکالر شپ میں ملنے والی رقم انتظامیہ کے نام کر دے طالبہ کے انکار کرنے پر انچارج سیکیورٹی خرم شہزا د نے مبینہ طورپر دیگر سٹاف کی مدد سے طالبہ علیزہ کو زبردستی کمرہ میں محبوس کر دیا.
خواجہ فرید یونیورسٹی رحیم یارخان آئے روز منفی قسم کی خبروں کی زینت بنی رہتی ہے. اس کے اسباب اور وجوہات بیان کرنے کے لیے کالم نہیں پوری کتاب درکار ہے. یونیورسٹی ملازمین میں بھرتیوں میں اقرباء پروری و علاقہ پرستی سے لیکر کرپشن کے ست ماڑ تک اتنی داستانیں ہیں کہ جنھیں لکھنے کے لیے پوری کتاب کی ضرورت ہے. یہ کتاب والا کام تو ہم برادرم رازش لیاقت پوری ہی چھوڑتے ہیں. مذکورہ بالا خبر پڑھنے کے بعد ہم تو یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ یونیورسٹی ھذا میں کیسی تعلیم و تربیت دی جا رہی ہے. یہاں آنے والے مستقبل کے معماروں کو شعوری اور لاشعوری طور پر کیا سیکھایا، سمجھایا اور بتایا جا رہا ہے. وائس چانسلر کو چاہئیے کہ وہ اس طرح کے گٹھیا قسم کے رویوں اور کرداروں کو کنٹرول کریں.
ضلع رحیم یارخان کے تھانہ سٹی خان پور کے ایس ایچ او جام آفتاب احمد نے ایک جعلی خاتون اے ایس پی کو ٹریس کرکے گرفتار کیا ہے. ڈاکٹر شیزہ حبیب نامی خوبرو لڑکی جو اپنے آپ کو گلگت بلتستان میں اے ایس پی کی عہدےدار ظاہر کر رہی تھی. سُنا ہے کہ موصوفہ خان پور کے ایک پرچی جواء ڈیلر کی سفارش کرنے آئی تھیں. شک گزرنے پر پڑتال اور پتہ کروایا گیا تو ڈاکٹر شیزہ حبیب کا پردہ فاش ہو گیا. اس پر مقدمہ نمبری 624/23درج کرکے اسے اور اس کے ساتھ آنے والے ایک اور شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے. اطلاعات یہی ہیں کہ خان پور ہی کے ایک محلے صدیوال کی رہائشی جعلی اے ایس پی صاحبہ پہلے بھی کئی پولیس والوں کو ماموں بنا چکی ہے.اتنی معصوم سی شکل اور دلکش چہرہ یقینا دھوکہ کھانے کے لیے بہت سارے لوگوں کے لیے کافی ہوتا ہے. جیسا کہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ لڑکی پہلے بھی ایسی کئی کارروائیاں ڈال چکی ہے. اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مرئی اور غیر مرئی، اندرونی اور بیرونی ہمہ قسم کی تحقیقات کی جائیں کہ اس نے کہاں کہاں اور کیا کیا گُل کھلائے ہیں کن کن کو ماموں اور کن کن کو الو کا پٹھا بنا چکی ہیں. قانون کو اتنا کمزور سمجھ لینے اور دیدہ دلیری سے ایسی کارروائیاں ڈالنے والوں کے پیچھے آخر کون ہیں. ان کا نیٹ ورک اور دھندہ کیا ہے. اگر کسی پریشر میں آ کر تحقیقات کو نہ روکا گیا تو یقینا بہت سارے راز مل سکتے ہیں.بہرحال ایسے گروہوں کے خلاف پولیس کو سخت قسم کی قانونی کارروائی عمل میں لانے چاہئیے تاکہ قانون کو مذاق بنانے والوں کا سدباب کیا جا سکے.
گذشتہ کچھ روز سے خان پور میں ایک بحث، ایک جنگ جاری ہے. 250 ایکڑ رقبہ پر ایک ارب روپے کی لاگت سے سرائیکی وسیب کےلیے 2008میں خانپور کیڈٹ کالج اس وقت کے وزیر اعظم سید یوسف رضاگیلانی نے منظور کروایا. بے نظیر شہید کیڈٹ کالج کی تعمیر کے لیے ابتدائی فنڈز بھی اسی دوران فراہم کر دیئے گئے تھے. اس وقت صوبہ پنجاب میں میاں شہباز شریف کی حکومت تھی. میاں برادران کو وسیب میں کیڈٹ کالج اور پھر بےنظیر کے نام سے منسوب کیڈٹ کالج شاید پسند نہ آیا مختلف قسم کی حکومتی و دفتری رکاوٹوں ہی کی وجہ سے خان پور کیڈٹ کالج کا کام کھٹائی میں پڑا رہا.اگر یہ کالج اپر پنجاب کے کسی شہر میں ہوتا تو یقینا ابتدائی تین سالوں کے اندر اندر ہی مکمل ہو کر فنکشنل ہو چکا ہوتا. یہاں معاملہ کتنا الٹ ہے 2008ء سے 2023 ءآ گیا ہے. خدا خدا کرکے عمارت مکمل ہو جانے کے باوجود بھی ابھی تک کیڈٹ کالج فنکشنل نہیں ہو سکا. کیڈٹ کالج کے فنکشنل نہ ہو سکنے کی وجوہات اور اسباب ہیں یہ تو متعلقہ ذمہ داران ہی بہتر بتا سکتے ہیں.
خان پور کیڈٹ کالج کی عمارت و جگہ کو عارضی طور پر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کا سب کیمپس بنانے کے لیے دینے کی بات چل نکلی ہے. اس وقت بھی اس کام یا مشن کے پیچھے مسلم لیگ ن کے مقامی رہنما اپنی سوچ کے تحت یا کسی کے اشاروں پر کیڈٹ کالج کی جگہ یونیورسٹی کا کیمپس بنانے کے لیے کوشاں ہیں. جس کے خلاف شہر کے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے عوام کی آوازیں سنائی دینے لگی ہیں. فخر سرائکیستان جناب ظہور احمد دھریجہ کا یہ کہنا یقینا لوگوں کے دلوں کی ترجمانی ہے کہ ہمیں خان پور کیڈٹ کالج بھی چاہئیے اور ہمیں اسلامیہ یونیورسٹی کا سب کیمپس بھی چاہئیے. سب کیمپس کے لیے کوئی اور مناسب جگہ دی جائے نہ کہ کیڈٹ کالج اس کے حوالے کرکے اپنے ہاتھ پاؤں کٹوا دیئے جائیں. خان پور کے سابق ایم پی اے میاں محمد اسلم، ڈسٹرکٹ بار رحیم یارخان سمیت 99فیصد لوگوں کی یہی رائے ہے کہ کیڈٹ کالج کی عمارت و جگہ جس مقصد کے لیے ہے اسی مقصد کے لیے ہی استعمال ہونی چاہئیے.کسی دوسرے ادارے کی جگہ یا بلڈنگ ادھار مانگ کر یہ کرایہ پر حاصل کرکے استعمال کرنے کے حوالے سے اسلامیہ یونیورسٹی کا بیگ گراؤنڈ ہرگز اچھا نہیں ہے. گورنمنٹ خواجہ فرید کالج رحیم یارخان کے لیاقت ہاسٹل اور اقبال ہاسٹل کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں. کالج کو اپنی مذکورہ بالا بلڈنگز واگزار کرانے کے لیے ایک طویل جدوجہد اور جنگ لڑنی پڑی. اگر رحیم یارخان کی سول سوسائٹی خواجہ فرید کالج کے حق میں باہر نہ نکلتی تو شاید یونیورسٹی شہر کے وسط میں مقبوضہ جگہ خالی نہ کرتی. ماضی کے اس منفی اور بدترین ریکارڈ کے پیش نظر خان پور کیڈٹ کالج کی بلڈنگ اسلامیہ یونیورسٹی کو دینا سراسر ظلم و زیادتی ہوگی. کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو خان پور میں اسلامیہ یونیورسٹی کے سب کیمپس کی مخالفت کر رہا ہولیکن کیڈٹ کالج کی جگہ یونیورسٹی کو دینے پر 99فیصد سے بھی زائد لوگوں کو سخت اعتراض اور تحفظات ہیں. ہم سمجھتے ہیں کہ وہ جائز ہیں. لہذا اسلامیہ یونیورسٹی سب کیمپس کے لیے شوگر فارم، محکمہ زراعت یا محکمہ اوقاف کے رقبے میں سے زمین دی جائے.حکومت کو چاہیئے کہ وہ اب اہل وسیب پر کچھ ترس کھائے. خان پور کیڈٹ کالج کو فی الفور فنکشنل کروایا جائے.اس جگہ کو بد نظروں سے بچانے کا بہترین حل یہی ہے.ایم این اے شیخ فیاض الدین اور چودھری ارشد جاوید یاد رکھیں کیڈٹ کالج کی جگہ اسلامیہ یونیورسٹی سب کیمپس کو دلانا خان پور کیڈٹ کالج ختم کروانے کے مترادف عمل ہوگا.

یہ بھی پڑھیے:

مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

جام ایم ڈی گانگا کے مزید کالم پڑھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

%d bloggers like this: