عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے ان دنوں دو ادیبوں کی خودنوشت پڑھی ہیں، ایک اکرام اللہ کی”جہانِ گزران ” اور دوسری علی اکبرناطق کی "برباد ہوئے آباد ہوئے”…..
اکرام اللہ کی خود نوشت کا زیادہ تر زمان تقسیم سے قبل اور اس کے فوری بعد کے ایک عشرے کا ہے اور وہ ہمیں امرتسر، سلانوالی اور وہاں سے لاہور، چیچہ وطنی اور ملتان میں گزارے اپنے ماہ و سال کی کہانی سُناتے ہیں اور اس دوران بہت سارے سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل اور بڑے بڑے واقعات کو بھی بیان کرتے ہیں، اُن کا انداز بہت نپا تُلا، ٹھہراؤ لیے ہوئے ہے – اور سب سے بڑھ کر وہ کسی جگہ بھی نسلی /مذھبی /صنفی شاؤنزم کا شکار نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ کسی جگہ فرقہ وارانہ تعصب کو جگہ دیتے ہیں، میرے لیے یہ حیران کُن بات ہے کہ پوری خود نوشت میں انھوں نے کسی بھی مذھب کے ماننے والے کو حقارت یا نفرت کے ساتھ نہیں دیکھا، وہ بنا کسی جوش اور مسلکی اُبال کے اپنے اردگرد پائے جانے والے مختلف مذاھب پر عمل پیرا لوگوں کی ذہنی کیفیت اور اُن کے رویوں کو بیان کرتے جاتے ہیں-یہاں تک کہ انھیں سلانوالی میں قیام کے دوران ایک ہم عمر دوست مہارانا پرتاب سنگھ سے واسطہ پڑتا ہے جو اکبر سے شدید نفرت کرتا ہے اور تمام مسلمانوں کو وہ اکبر کی طرح بدیشی، حملہ آور اور قبضہ گیروں کی اولاد خیال کرتا ہے –
اکرام اللہ نے جیسے اُس کردار کو بیان کیا ہے وہاں ہمیں قطعی جوابی طور پر مذھبی منافرت کا شائبہ نہیں ہوتا-
یہ خود نوشت پڑھنے کے قابل ہے- وہ مذھب کے نام پر بنگال اور پنجاب کی تقسیم کا بھی بڑا ہی شاندار تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پہلے ہندؤ-مسلم-سکھ کی تقسیم پر نفرت کی دیوار کھڑی ہوئی اور پاکستان بننے کے بعد یہ تقسیم خود مسلمانوں کے اندر فرقوں اور زیلی فرقوں کے درمیان نفرت کی دیواروں کو اٹھانے کا سبب بنی اور اس کے ساتھ ساتھ نسلی اور لسانی منافرتوں کی بنیاد اردو کو مشرف بااسلام کرکے اور مذھب کے نام پر قومیتوں کے حقوق غصب کرکے رہی سہی کسر پوری کرلی گئی…..
علی اکبر ناطق کی خود نوشت کا زمان ویسے تو اُن کی پیدائش کے بعد اُن کے سنِ شعور سنبھالنے کا ہے لیکن اس دوران وہ اپنی دادی، والد اور دیگر رشتے داروں سے سُنی ہوئی باتوں سے اپنے دادا، اُن کے والد اور پھر اُن کے والد اور آگے کے آباؤاجداد کی تاریخ کو ایک کمال داستان گو کی طرح بیان کرتے چلے جاتے ہیں اور ان کی جوس نوشت کا یہ حصہ زیادہ تر اوکاڑا اور اس کے گرد و نواح اور پڑوس کے ضلع قصور، بہاولنگر اور اُس کے ساتھ ملنے والی ہندوستانی سرحد کے ساتھ ضلع فیروز پور تک پھیلا ہوا ہے – دیہات، قصبوں کی لینڈ اسکیپ، بود و باش، لوگ ان کی نسلیاتی و لسانی و قبیل داری تقسیم اُن کے رویے ناطق نے بڑے ہی جاندار طریقے سے بیان کیے ہیں – لیکن ایک شدت اُن کے ہاں بار بار نظر آتی ہے اور یہ کوئی بے ساختہ، قدرتی یا اضطراری طور پر نہیں لگتی بلکہ ساختیہ (construed) لگتی ہے – وہ عام لوگوں کے جن کا انٹلیکچوئل لیول سطحی ہوتا ہے اور بعض اوقات پاکھنڈی لوگوں کی مذھبی دانش پر مبنی اُن کے اپنے مسلک کی طرف اور دوسرے یعنی غیر مسلک کی طرف رویوں کو زیر بحث لاکر جس فرقے سے اُن کا تعلق ہے اُسے علمی اعتبار سے سب سے برتر ہی ثابت نہیں کرتے بلکہ وہ ارادی طور پر عام لوگوں کی اور دیہاتوں اور قصبوں میں سطحی قسم کے ملاؤں کو لیکر اُن کے مسالک /فرقوں کے بارے میں کلیشے بیان کرتے چلے جاتے ہیں –
اُن کے ہاں بار بار فرقہ واریت اور لوگوں کی فرقوں کی بنیاد پر پروفائلنگ دیکھنے کو ملتی ہے، میں سوچتا ہوں کہ کیا یہ اکرام اللہ اور ناطق کے زمان کا فرق ہے جو ہمیں ان دونوں کے رویوں میں ان کی گزران کو بیان کرنے میں اتنا بڑا فرق ڈال دیتا ہے؟
اکرام اللہ بھی اپنے ہاں کرداروں کی پروفائلنگ کرتے ہیں فلاں ہندؤ تھا، فلاں کرسچن تھا، فلاں مسلمان تھا، فلاں کمیونسٹ تھا، فلاں دھریہ تھا، لیکن اُن کے ہاں ہمیں یہ پروفائلنگ کسی تعصب اور شاؤنزم کے زیر اثر نظر نہیں آتی – ایک سوال اور بھی میرے ذہن میں ابھرا ناطق کی خودنوشت پڑھتے ہوئے اور وہ یہ تھا کہ کیا ہم کسی ایک یا کئی ایک کرداروں کے کسی مذھبی / سیاسی /فکری رجحان کے علمبردار ہونے کے دعوے کو اُس کے بیان کردہ طریقے سے اُس مذھب، مسلک یا نظریے کے ٹھیک یا غلط ہونے کا تعین کرسکتے ہیں؟ اور پھر یہاں یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ کیا اس طرح کے رویے سے خود ایک اور قسم کا تعصب جنم نہیں لیتا؟ کیا ایک ادیب کو اس سطح پر آنا چاہیے؟
علی اکبر ناطق نے خودنوشت کا اسلوب "قصہ گوئی” کا رکھا ہے اور نہایت شاندار اسلوب ہے جسے پڑھتے ہوئے آپ نہ تو بُور ہوتے ہیں، نہ اکتاتے ہیں اور کرداروں کے خاکے جس طرح سے انھوں نے کھینچے ہیں اُن پر فکشن کا رنگ بہت گہرا ہوگیا ہے اور اگر وہ تھوڑی سی محنت کرتے اسے فکشن کی شکل میں لکھتے تو وہ پڑھنے میں ڈی ایچ لارنس کی
Sons & lovers
سے کم اہمیت کی چیز نہ ہوتی – علی اکبر ناطق نے اس خودنوشت میں ہمیں کامیابی سے یہ بھی باور کرایا ہے کہ کیسے ہمارا تعمیراتی ماڈل ماحول دشمن روپ اختیار کرتا چلا گیا اور اپنے کیسے اپنے قدرتی وسائل کا اجاڑا کر ڈالا-بہت سارے قصے، کہانیاں، کردار اس ایک خود نوشت میں ہمیں پڑھنے کو ملتے ہیں –
احمد ندیم قاسمی کا قصہ بھی جوب ہے اور ناطق کی تعلی بھی، شاعر ہو اور تعلی نہ دکھائے یہ کیسے ہوسکتا ہے…..
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر