حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدھ کی سپہر جب یہ سطور لکھ رہا ہوں خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں افسوسناک صورتحال ہے۔ تحریک انصاف کے مسلح مظاہرین نے ریڈیو پاکستان کی عمارت کو آگ لگانے کے علاوہ جی ٹی روڈ کو مکمل طور پر بند کردیا ہے۔ مسلح مظاہرین اور پولیس کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے متعدد واقعات میں 4افراد جاں بحق اور 40سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔
منگل کی دوپہر اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے عمران خان کی گرفتاری کے بعد پھوٹ پڑے ہنگاموں کے دوران ہونے والی پرتشدد کارروائیوں سے صورتحال خاصی ابتر ہے۔
لاہور کینٹ میں واقع جناح ہائوس (یہ عمارت ماضی میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ بھی رہی) کو جلادیا گیا۔ لاہور میں بعض حکام پی ٹی آئی کی دو خواتین رہنمائوں پر مشتعل کارکنوں کو کینٹ ایریا میں لے جانے اور تشدد پر اکسانے کا الزام لگارہے ہیں کچھ دیر پہلے تین آڈیو لیک میں ہوئی گفتگو سے اس کی تصدیق ہوتی ہے
گزشتہ شام کوئٹہ میں مظاہرین اور پولیس کی جھڑپ میں ایک شہری جاں بحق ہوگیا تھا۔ چاروں صوبوں سے اس وقت تک تحریک انصاف کے لگ بھگ 570 کارکن اور مقامی رہنمائوں کے علاوہ چند مرکزی رہنمائوں کو بھی حراست میں لیا گیا۔
زیادہ تر افراد گزشتہ روز کے ہنگاموں اور پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کئے گئے۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے صوبائی انتظامیہ کی مدد کی خاطر فوج طلب کرنے کی درخواستوں کی وفاقی وزارت داخلہ نے منظوری دیدی ہے۔ وفاقی وزارت داخلہ نے اسلام آباد میں بھی فوج طلب کرلی ۔
بدھ کو عمران خان پر توشہ خانہ کیس میں فرد جرم عائد کردی گئی۔ عمران خان صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے فرد جرم کی دستاویزات پر دستخط کرنے سے انکار کردیا البتہ انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ ان کے معالج ڈاکٹر فیصل کو بلایا جائے کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ یہ لوگ (حکومت) مجھے ایسا انجکشن لگائیں گے جس سے آدمی آہستہ آہستہ موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔
انہوں نے عدالت میں یہ بھی کہا کہ میں پچھلے 24گھنٹے سے باتھ روم نہیں گیا۔
پی ٹی آئی کے بعض مرکزی رہنماوں نے پرتشدد واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے البتہ فواد حسین چودھری کا موقف ہے کہ "لوگ نکلے، لوگ نکلیں گے ان پر قابو پانا اب کسی کے بس میں نہیں مخصوص مقاصد کے لئے ملک کو دائو پر لگادیا گیا ہے” ۔
بدھ کو ہی عمران خان کو القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں جسمانی ریمانڈ کے لئے عدالت میں پیش کیا گیا۔ ان کی گرفتاری کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی درخواست پر ابتداً رجسٹرار آفس نے اعتراض کیا بعدازاں اعتراض ختم کرکے درخواست کو سماعتی نمبر الاٹ کردیا گیا۔
یہ سطور لکھتے وقت ملک کے بعض شہروں میں موجود دوستوں اور اخبار نویسوں سے رابطوں کے بعد یہ عرض کرسکتا ہوں کہ پی ٹی آئی کے کارکنان اور ہمدرد پورے جوش کے ساتھ ا حتجاج میں مصروف ہیں۔
پشاور میں جوش پر جنون حاوی ہے۔
خیبر پختونخوا کی وزارت داخلہ کے بعض حکام نام نہ بتانے کی شرط پر اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ پشاور میں منگل اور بدھ کے احتجاجی مظاہروں جلائو گھیرائو اور فائرنگ کے واقعات میں مقامی کارکنوں کے ساتھ افغان شہریوں کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد ملے ہیں۔
سوشل میڈیا پر عمران خان کے حامی اور ایک شیعہ سیاسی جماعت کے اتحادی اپنے مخالفین اور حکومت کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ پر گرج برس رہے ہیں ۔ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اس موقع پر عمران کا ساتھ نہ دینے والے جمہوریت اور آزادی کے ساتھ ’’مہدویت ‘‘ کے دشمن اور غدار ہیں۔
عمران خان ان کے حامیوں اور اتحادیوں کا رویہ قبل ازیں بھی کوئی ایسا لائق تحسین ہرگز نہیں رہا اپنے مخالفین کے لئے انہوں نے جو نفرت بوئی اس سے وہ واقعی اکلوتے ’’عظیم المرتبت‘‘ مسیحا ثابت ہوں گے یا گمنامی کا شکار اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔
فی الوقت یہ ہے کہ سال بھر کی ذہن سازی کے عملی نتائج قدم قدم پر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ پرامن احتجاج کی بجائے پرتشدد جلائو گھیرائو اور لوٹ مار کا راستہ کیوں اختیار کیا گیا اس بارے اگر ان کے کھلے حریفوں اور ناقدین کی باتوں اور الزامات کو یکسر مسترد بھی کردیا جائے تو بھی ایک سوال اہم ہے وہ یہ کہ کیا غیرمنظم اور بغیر کسی پیشگی منصوبہ بندی کے کوئی ہجوم وہ کارروائیاں کرسکتا ہے جو گزشتہ سپہر سے اس وقت تک جاری ہیں؟
خطرہ یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ایک کالعدم عسکری تنظیم کے وہ کارکنان جنہیں پی ٹی آئی کے دور میں اعتماد سازی کے پروگرام کے تحت خیبر پختونخوا میں رہائی دلوائی گئی یا افغانستان سے لاکر بسایا گیا وہ پرتشدد ہنگاموں میں پیش پیش ہیں۔
یہ درست خطرہ ہے یا ہوائی باتیں ان کی حقیقت جاننے کے لئے پشاور میں بدھ کی صبح سے جاری پرتشدد واقعات کا بغور جائزہ لے کر تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے اقتدار سے محرومی کے بعد سے اب تک کے ایک برس میں کھلے انداز میں الزام تراشی کے ذریعے جو ماحول بنایا اس کا فائدہ کسی کو ہوگا اور نقصان کسے اس بارے وہ اور ان کے ناقد اپنی اپنی رائے رکھتے ہیں۔
ان آراء کے بیچوں بیچ کی تلخ حقیقت یہی ہے کہ ابھی پچھلے سال مارچ تک پی ٹی آئی کے حامی یہ کہا کرتے تھے کہ
’’پاک فوج سے محبت کے لئے ماں اور باپ کا ایک اور نیک ہونا ضروری ہے‘‘۔
عمران خان کے دور میں ہی فوج پر تنقید کو قانونی طور پر جرم قرار دیتے ہوئے اس قانون کی منظوری دی گئی تھی جس کے تحت مسلح افواج پر تنقید، ان کا تمسخر اڑانے کے جرم میں 2سال قید اور 5لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جاسکے گی۔
اس قانون کی منظوری کے وقت پی ٹی آئی کا موقف تھا کہ ہم اپنے اداروں کے ساتھ ہیں نیک نیتی سے کی جانے والی تنقید کے خلاف نہیں مگر سازش کے تحت توہین و تنقید اور تضحیک کرنے والوں سے کوئی رعایت نہیں کی جانی چاہیے۔
مسلح افواج پر تنقید کو توہین و تضحیک قرار دینے کا ابتدائی قانون (ن) لیگ کے پچھلے دور حکومت میں منظور ہوا تھا۔ پی ٹی آئی نے اپنے دور میں جب اس میں تبدیلیوں کے ذریعے قانون کو مزید سخت بنایا تب پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ نے اسے آزادی اظہار کے خلاف کالا قانون قرار دیا۔
پچھلے ایک برس سے پی ٹی آئی اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کو حقیی جمہوری سوچ قرار دیتی آئی ہے۔ اب گزشتہ روز عمران خان کی گرفتاری کے بعد اس حقیقی جمہوری سوچ نے جو گل کھلائے اس کی ذمہ داری بھی اسے کھلے دل سے قبول کرنی چاہیے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ عمران خان پر کرپشن کے الزام جھوٹے من گھڑت اور سیاسی انتقام کا حصہ ہیں تو اسی طرح کا موقف پی ٹی آئی کے دور میں ایسے الزامات میں گرفتار ہونے والے پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کے رہنمائوں کا ہوتا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تب انصافیان کہتے تھے کہ قومی مجرموں سے کوئی رعایت نہیں برتی جانی چاہیے اب ان کے مخالفین یہی بات کہہ رہے ہیں۔
اصولی طور پر جب تک کوئی الزام ثابت نہ ہوجائے تب تک کسی ملزم کو مجرم قرار نہیں دینا چاہیے یا پھر ماضی کی طرح اب انہیں بھی مجرم مان لیا جانا چاہیے۔ عمران خان کی گرفتاری سے قبل بلکہ پچھلے چند ماہ سے مختلف سطح پر یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ عمران خان حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جدوجہد جسے وہ جنگ کہتے ہیں اپنی اتحادی کالعدم تنظیموں کے کارکنان کو میدان میں اتار کر مسائل پیدا کریں گے۔
پچھلے 24گھنٹوں کے دوران یہ خدشہ نہ صرف حرف بحرف درست ثابت ہوا بلکہ اس نے ایک سوال کو بھی جنم دیا۔ سوال یہ ہے کہ خدشہ جن فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر تھا ان معلومات کی روشنی میں موثر اقدامات سے کیا امر مانع تھا؟
بدھ کو پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کرلئے گئے اس سے کچھ دیر بعد جب پی ٹی آئی کے سینئر وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ کے ساتھ ان کی سرکاری گاڑی اور سکواڈ کے ہمراہ نکل جانے میں کامیاب ہوگئے بعد میں انہیں گرفتاری کی خبر پھیلی لیکن پھر تردید کردی گئی
پی ٹی آئی کے چند مردوخواتین انقلابی رہنمائوں نے منگل و بدھ کی درمیانی شب کا بڑا ابتدائی حصہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پناہ لے کر گزارا۔ وہ ہائیکورٹ کی عمارت سے اس وقت باہر نکلے جب یہ احکامات جاری کردیئے گئے کہ پولیس یا کوئی اور انہیں ہراساں اور گرفتار نہ کرے ۔
منگل کی سپہر سے اب تک جو کچھ ہورہا ہے اس کے درست اور غلط ہونے پر آراء رکھنے والوں کے پاس دلائل کے انبار ہیں۔ نومولود انقلابیوں اور ایک مخصوص مسلکی فہم کے پرانے انقلابیوں کے پاس پھکڑ پن کے وافر ذخائر بھی ہیں البتہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ اب تک پانچ افراد ( بعض ذرائع زیادہ اموات بتا رہے ہیں ) اپنی جانوں سے محروم ہوگئے۔ اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔
کیا پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت پرتشدد واقعات اور سانحات کو روکنے کے لئے کردار ادا کرے گی یا محض حکومت دشمنی میں سب چلتا ہے کے اصول پر عمل؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ