اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ماں شکریہ کہتی ہے!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

اگر ہم نے کچھ اچھا کیا تو ہماری نظر میں یہ قطعی احسان نہیں۔ ان کو ہم اس دنیا میں لانے کا فیصلہ ہمارا تھا اپنی مرضی اور خواہش سے۔ سو ان معصوم پرندوں کی حفاظت کرنا، دانا دنکا کھلانا اور پرواز کے قابل بنانا ہمارا فرض تھا۔ سب کرتے ہیں، جانور، پرندے۔ سب!

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مدرز ڈے پہ کیا لکھیں؟ ماں کی شفقت، مہربانی، پیار، ان تھک محنت، ایثار۔ سب اپنی تعریفیں؟ ان کے لیے کچھ نہیں جن کے طفیل ماں بنے؟

دوسری طرف ایک اور سوچ سرسراتی ہے۔ ہر وہ عورت جو ماں بنتی ہے، کیا بے غرض، بے لوث اور مہربان ہوتی ہے؟

شاید ہاں، شاید نہیں۔
انسانی فطرت کی کجی تو شخصیت کا حصہ ہے پھر ماں کیوں غلط نہیں ہو سکتی؟

اعتراف کرنے دیجیے کہ ہو سکتی ہے۔ ہوتی ہے۔ لیکن اولاد کی ماں سے محبت کہیں زیادہ کہ ماں کا بت تراش کر اسے ایک ایسے سنگھاسن پر بٹھا دیتی ہے کہ بس پوجنے کی کسر رہ جائے۔ اولاد کی اعلی ظرفی جو ماں سے بے لوث پیار کرتے ہوئے اس کی غلطیوں پہ پردہ ڈال دیتی ہے۔

ہر ماں اگر گریبان میں جھانکے تو کچھ نہ کچھ ایسے لمحات ضرور نظر آئیں گے جن سے وہ آنکھ چراتے ہوئے خواہش کرے گی کاش وقت پیچھے لوٹ جائے اور وہ ان لمحات کی بدصورتی کو بدل دے۔

ہماری ماں زبردست ماں تھیں مگر انہوں نے بھی کچھ نہ کچھ غلطیاں کیں جن سے بچا جا سکتا تھا۔ ہمیں امی جیسی زبردست ماں ہونے کا دعوی ہر گز نہیں اور ہمیں یقین ہے کہ ہماری غلطیوں کا بوجھ بھی ان سے کہیں زیادہ ہے۔

ہمیں اوروں کا علم نہیں لیکن ہم ہمیشہ عموماً اور مدرز ڈے پر خصوصاً اپنی اولاد سے معافی مانگتے ہیں۔ جی ہاں ہم۔ ان سب لمحات کی جب جب ان کا دل ہم نے دکھایا، جب ان کی بات سمجھنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے کہے پر اڑ گئے، جب ان کی بے ضرر خواہش کو رد کیا، جب اپنا غصہ ان پہ نکالا، جب ان سے ناراض ہوئے۔

اگر ہم نے کچھ اچھا کیا تو ہماری نظر میں یہ قطعی احسان نہیں۔ ان کو ہم اس دنیا میں لانے کا فیصلہ ہمارا تھا اپنی مرضی اور خواہش سے۔ سو ان معصوم پرندوں کی حفاظت کرنا، دانا دنکا کھلانا اور پرواز کے قابل بنانا ہمارا فرض تھا۔ سب کرتے ہیں، جانور، پرندے۔ سب!

سو ہم نے کیا تو کیا تیر چلا دیا؟ جس کا عوضانہ مانگیں، احسان جتائیں، دودھ نہ بخشنے کی دھمکی دیں، ان کی زندگی پر اپنا تسلط چاہیں، اپنے پالنے پوسنے کا بدلہ چاہیں، ان کی زندگی کے فیصلے کریں، ان کی خواہش پہ ہماری مرضی فوقیت رکھے، راتوں کو جاگنے، کھلانے پلانے، پڑھانے لکھانے کا انعام طلب کریں۔ ایسا کرنے والا اچھا کاروباری ہو سکتا ہے، ماں نہیں۔

زندگی میں بچوں سے مقابلہ کیا تو کیا کیا؟ اپنے ہی پیٹ کے جنوں سے مقابلہ؟ وکٹری سٹینڈ پر جا بھی پہنچے تو کس کام کی یہ جیت؟ جس میں ہارنے والا آپ کے جسم کا ہی ایک ٹکڑا ہو۔ ہمارا بس چلے تو ہم اپنی کھال کے جوتے بنا کر پہنا دیں انہیں اور پھر بھی رتی برابر بھی بدلہ نہ چاہیں۔

اپنے بچوں کے لیے آسمان، بادل بننا سیکھیں یا شاید درخت۔ مہربان، شفیق، ہر وقت ہر حال میں سر پر چھاؤں اور سایہ!

آج کے دن دنیا کے سب بچوں کا شکریہ جنہوں نے عورتوں کو ماں بننے کا اعزاز بخشا اور شیریں ترین لفظ سے روشناس کروایا۔

ماں!

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: