نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حالات ایسے رہے تو !۔۔۔||رسول بخش رئیس

رسول بخش رئیس سرائیکی وسیب کے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے رہنے والے ہیں وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ملکی ،علاقائی اور عالمی معاملات پر مختلف اخباروں ،رسائل و جرائد میں لکھ بھی رہے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ نے گزشتہ چند دنوں میں دیکھا کہ سارا پاکستان‘ کراچی سے لے کر کریم آباد تک‘ بند تھا۔ سڑکیں ویران‘ بسیں اور ٹرک جن کی روانی کا سلسلہ دن رات چلتا رہتا ہے‘ کہیں نظر نہیں آرہے تھے۔ لوگ بپھرے ہوئے تھے۔ جوان‘ بوڑھے اورعورتیں جھنڈے‘ اور ڈنڈے اٹھائے جتھوں کی صورت میں نکلے ہوئے تھے‘گویا عوامی جنگل میں شعلے بھڑک اٹھے۔ نو مئی کو لاہور‘ اسلام آباد‘ پشاور اور کراچی کی اکثر سڑکوں پر نعرے لگانے والوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ سوچا کچھ دوستوں سے ان کے اضلاع میں عوامی ردعمل معلوم کریں۔ معلوم ہوا کہ پنجاب کے ہر ضلع میں جلسے ہوئے‘ جلوس نکالے گئے‘ نعرے لگے اور جوش وجذبے کا اظہار کیا گیا۔ موٹرویز اکثر جگہوں پر بند تھیں۔حکومت نے کچھ چینل‘ انٹر نیٹ اور ٹیلی فون کے رابطوں کو بھی بند کررکھا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ تیرہ جماعتوں میں سے وزیراور مشیرٹی وی چینلوں پر آتے جاتے رہے کہ عوام کو بتا سکیں کہ قانون اور انصاف قائم کرنے کے لیے چیئرمین پی ٹی آئی کو دبوچنا‘ دھکے دینا اور گریبان پر ہاتھ ڈالنا کتنا ضروری تھا۔ وفاداری دکھانے کے لیے وہ سب کچھ کرنے اور کہنے کے لیے تیار رہتے ہیں‘ لیکن غلام گردشوں سے بات نہیں بن رہی تھی۔ اعتبار نہ رہے‘ جذبات کا دھارا کسی اور طرف بہہ رہا ہو تو سب کے جلوے اورسب کی باتیں بے اثر رہتی ہیں۔
انتخابات سے فرار اور جو اس وقت ملک کے حالات ہیں‘ انہیں سامنے رکھیں تو اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ عوامی سطح پر سیاسی تقسیم کا کیا رنگ ہے۔ اوپر سیاسی تقسیم اتنی شدید اور تقریباً اتنی گہری ہو تو عوام کا متاثر ہونا فطری بات ہے۔
تاریک دن کوئی اس کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے کہ ریاست کی طاقت کو ملک کے مقبول ترین رہنما جو ملک کو انتشار سے بچانے کے لیے انتخابات کی بات کرتا ہے اور جو ملک کا وزیر اعظم رہ چکا ہے‘ کے خلاف اس انداز میں استعمال کیا جائے۔ سیانے سچ کہہ گئے ہیں کہ نفرت میں عقل رخصت ہوجاتی ہے۔ ایک اوربات یہ ہے کہ آپ بے شک عمران خان کے نظریۂ سیاست سے اور طرزِعمل سے اتفاق نہ کریں مگر اس کی مقبولیت اس قدر ہے کہ اس کو نہ کم کیا جاسکتا ہے‘ نہ دبایا جاسکتا ہے۔ ہر منصوبہ‘ ہر قدم‘یہاں تک کہ ملک کی تاریخ میں سب سے زیادہ مقدمات بھی کسی کام نہیں آئے۔ یہ کیسی حکومت ہے کہ ہرروز کسی بہانے کسی نہ کسی شہر میں مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔ مقدمات جعلی ہوں اور نیت صرف زچ کرناہو تو یہ تیر کیسے چلیں گے؟ خود اپنے کیے پر دھیان نہیں دیتے۔ مقدمات کے کارتوس ٹھس ہو جاتے ہیں تو عدالتوں پر چڑھائی شروع ہوجاتی ہے۔ نو مئی تو ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا ہی مگرجو ایک سال سے ملک اور قوم کو نہ ختم ہونے والی سیاہ رات کی نذر کردیا گیا ہے‘ اس کا حساب بھی ہونا چاہیے۔ اب عوام اس فرمائشی سیاسی تبدیلی کا حساب مانگتے ہیں۔ پوچھتے ہیں کہ پارلیمانی ارکان کو کیسے وفاداریاں تبدیل کروا کے ایک مہرے کے طور پر استعمال کیا گیا۔
عوام کے سامنے جب ووٹ مانگنے آئیں گے تو سیاسی جنس کا بھائو معلوم ہوجائے گا۔ میرا اپنا خیال ہے کہ وہ اتنے سادہ نہیں۔ پرانے تجربہ کارکھلاڑی ہیں‘ جانتے ہیں کہ جو سہارے پربھروسا کرکے لائے جاتے ہیں‘ عوام ان کا کیا حال کرتے ہیں۔ یہی ڈر انہیں کھائے جارہا ہے کہ انتخابات ہو گئے تو موروثی سیاست دفن ہوسکتی ہے۔ کہنے کو تو ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اب سیاسی تجارت سے اتنا کما لیا ہے کہ آنے والے سات نسلیں بھی گھر بیٹھ کرکھاتی رہیں‘ مگر یہ کھانے اورلگانے کے دھندے قوموں اور عوام پر جب بھاری پڑتے ہیں تو چین سے کوئی نہیں بیٹھنے دیتا۔
پی ٹی آئی کی سیاست اور اس کا مستقبل جو بھی ہو‘ مگراس دور کی سیاست نے ہماری روایتی سیاست اور جمہوریت کے افسانوں کا طلسم توڑ دیا ہے۔ ایک خوف نے سب سیاسی لیڈروں کو اکٹھا کررکھا ہے کہ اتحاد میں برکت ہوتی ہے‘ لیکن یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب اتحاد فطری ہوں اور کسی قومی جذبے سے ترتیب پائے ہوں۔ یہاں تو مقصد یہ ہے کہ مقابلہ کیسے کیا جائے۔ نومئی کے بعد جو ردعمل آپ نے دیکھا ہے‘ کوئی شک رہ گیا ہے کہ عوام کے دلوں میں کیا ہے۔ بدحواسی میں فیصلے ایسے ہوں جو ہم ایک سال سے دیکھ رہے ہیں‘ انتقام کی آگ سینوں میں بجھتی نظر نہ آئے اور سیاست سمٹ کر ایک نفرت آمیز جملے میں بند ہوجائے کہ ‘اب وہ رہے گا یا ہم‘تو حالات ایسے ہی ہوں گے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ میرے خیال میں عوام تو فیصلہ دے چکے کہ وہ کیا چاہتے ہیں‘ اب فیصلہ بڑوں کو کرنا ہے کہ ان کے سامنے حکومت کا نہیں‘ ریاست کا مفاد ہے۔
اس دور میں عوام سیاسی طور پر با شعور ہیں‘ ماضی کی طرح فنِ حکومت گری اور کٹھ پتلوں کے تماشوں سے مطمئن نہیں ہوتے۔ سیاسی شعور کی بلندی اسی کو کہتے ہیں کہ لوگوں میں یہ احساس بیدار ہوجائے کہ حکومت ان کی ہوگی اور اس کے فیصلے بند کمروں میں نہیں ہوں گے۔ بہتریہی ہے کہ عوامی شعور کو موقع دیا جائے اور اس کی جانچ کا دنیا میں مروجہ طریقہ آزادانہ اور شفاف انتخابات ہی ہیں۔
اس صورتحال میں اعلیٰ عدلیہ نے تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ طاقت اور دھمکیوں کے سامنے انصاف اور آئینی حقوق کے تقاضے پورے کرنے کے لیے عزت مآب چیف جسٹس اور دو معاون ججز کے فیصلے نے سیاسی اندھیروں میں ایک شمع روشن کی جس کا اجالا ہمارے مستقبل کو ان بھٹکے ہوئے راستوں سے نکال کا قانون اور انصاف کی راہ پر ڈال سکتا ہے۔ سوچیں اگر عدالت عظمیٰ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا غیر قانونی حراست کے خلاف فیصلہ نہ آتا تو ملک میں آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوتے۔ قومی ہیجان اور اضطراب کو کچھ تو سکون آیا۔ہمارے کرم فرمائوں کو ملکی حالات‘ معیشت اور عوامی جذبوں کا کچھ ادراک کرنا ہوگا۔ امیدیں باندھ لیناتو ہم سادہ لوح درویشوں کی عادت ہے مگر طاقت کے کھیل میں اقتدار کے گھوڑوں پر سوار کھلاڑیوں کی نظریں زمینی حقائق پر نہیں ہوتیں۔ جب گرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ حالات کیسے ہیں۔
ہم چونکہ ارضی مخلوق ہیں‘ کھلی آنکھوں سے دیکھ اور کانوں سے سن رہے ہیں اور گواہی دینا ہماری بطور لکھاری ذمہ داری ہے۔ انتباہ کرنا فرض ہے کہ اب جب عدالت عظمیٰ نے ماحول ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے‘ بہتر ہے کہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سب فریق اپنے طرزعمل پر غور کریں۔ دنیا میں ہم تماشا بن چکے۔ جگ ہنسائی ہوئی تو ان کی جنہوں نے اس خرابی میں ہاتھ ڈالا۔ جو کچھ ہم نے چند دنوں میں دیکھا‘ وہ ایک بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ ہے۔ حالات ایسے ہی رہے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author