عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
14 فروری 2023، اسلام آباد کے سرکاری کنونشن سنٹر میں دیوبندی مکتبہ فکر کی ایک کاغذوں میں کالعدم جماعت اہل سنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان نے بریلوی اور اھل حدیث کی انتہا پسند اور فسطائی جماعتوں کے مولویوں کو لیکر جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی عبدالاکبر چترالی اور مولوی مفتی عبدالشکور ہزاروی دیوبندی جو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے کوٹے سے پی ڈی ایم کے کوٹے سے وفاقی وزیر مذھبی امور بنے ہیں کی موجودگی میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا اور اس کانفرنس میں انھوں نے قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے "پاکستان لاءز ترمیمی بل” جسے قانون انسدادتوھین صحابہ و اہل بیت اطہار کا نام سُنی اسلام کے پاکستان میں پائے جانے والے تین فرقوں کے شدت پسند اور انتہاپسند تنظیموں اور مولویوں نے نام دیا ہے –
اس بل کا سب سے بڑا مقصد صاف اور واضح ہے کہ ایک تو شیعہ اسلام کے ماننے والے اپنے اُن عقائد اور شعائر پر عمل پیرا نہ ہوسکیں جو انھیں سُنی اسلام کے ماننے والوں سے الگ کرتے ہیں – اُس باب میں انھیں "مذھبی آزادی” سے محروم کردیا جائے – اس کا دوسرا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ شیعہ اسلام کے ماننے والے اپنے عقیدے اور شعائر مذھبی کو بمطابق سُنی اسلام کرلیں اور اگر نہیں کرتے اور شیعہ اسلام کے مطابق چلتے ہیں تو وہ ناقابل ضمانت مقدمہ کے لیے تیار رہیں جس کی سزا عمر قید اور بھاری جرمانہ ہے –
لیکن ٹھہریے! جب اہل سنت الجماعت /سپاہ صحابہ کے لدھیانوی، فاروقی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے عبدالشکور ہزاروی ،تحریک لبیک کے اشرف جلالی، اھل حدیث کے مولوی روکڑی "سُنّی اسلام” کی بات کرتے ہیں تو اس سے اُن کی مراد فروعی عقائد کے معاملات میں "تنوع” کی نفی ہوا کرتا ہے – اور وہ اس باب میں بھی صرف اپنی تعبیر کو قطعی اور حتمی سُنی تعبیر کہتے ہیں –
یعنی ایک ایسا معاملہ جس پر خود سُنی اسلام کے علماء و مشائخ کی رائے مختلف رہی ہو یہ اُس میں بھی اپنی اختیار کردہ تعبیر اور رائے کو "حتمی” ہی قرار نہیں دیتے بلکہ اُس سے انکار کو یہ اب لوگ "بلاسفیمی/توھین” تک قرار دینے لگ گئے ہیں – اور اپنی اختیار کردہ رائے سے انحراف کو ریاستی سطح پر قابل تعذیب /پرسیکوشن کا سزاوار قرار دینے کی طرف جارہے ہیں –
کسی گروہ یا فرد کو اُس کے عقیدے اور اُس کے شعائر مذھبی کی تعریفات خود متعین کرنے کے حق سے محروم کرنا اور اُس کی طرف سے ایسا کرنے کو بلاسفیمی/توہین قرار دینا اور اسے فوجداری جرم قرار دینا یہ ریاست کے قانون میں 1974 میں ایک آئینی ترمیم اور پھر جنرل ضیاء الحق کی طرف سے کی گئی فوجداری شقوں میں ترمیم کے زریعے شامل کیا گیا تھا-
اگر ایک مسلم فرقہ اور اس کے ماننے والے دوسرے فرقے کے ماننے والوں کے عقائد اور شعائر کو اسلام نہ مانیں تو یہ اُس فرقے اور اُس کے ماننے والوں کا اختیار اور آزادی ہے –
جیسے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے سنی اور شیعہ فرقے تمام کے تمام جماعت احمدیہ کو اُن کے عقیدہ ختم نبوت کی تعبیر کے سبب انھیں مسلم فرقہ نہیں مانتے-
ایسے ہی سُنی اسلام کے پیروکار سارے کا سارا جمہور بشمول اُن کے انتہا پسند و شدت پسند گروہوں کے سب کے سب السابقون الاولون من المھاجرین والانصار کی تعریف میں شامل صحابہ کرام اور حضور علیہ الصلوات والتسلیم کی امہات خاص طور پہلے دو خلفاء راشدین کی صاحبزادیوں اور ابو سفیان کی صاحبزادی رضی اللہ عنھم کو اسلام سے پھر جانے والے سمجھنے والے فرقہ کو رافضی اور انھیں اسلام سے خارج سمجھتے ہیں تو یہ اُن کا رائے کا حق ہے اور آزادی رائے کے زمرے میں آتا ہے –
اسی طرح سنی اسلام میں سپاہ صحابہ جیسا گروہ بھی ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ خلیفہ راشد چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی بیعت نہ کرنے یا بیعت توڑ دینے اور پھر اُن سے جنگ کرنے والے صحابہ کرام کے اس طرح کے افعال کو غلط کہنا یا اُسے کفر کہنا یا اُسے گناہ قرار دینا یا اسے اجتہادی خطا نہ ماننا یہ سب کے سب گمراہی اور کفر کے زمرے میں آتا ہے اور وہ صحابی رسول رض کو علی المرتضٰی کے مخالف کیمپ میں ہونے کے سبب گالی دینا یا ان پر سب وشتم کرنا کو حرام سے آگے بڑھ کر ارتداد خیال کرتے ہیں تو خیال رکھنے کی حد تک تو یہ اُن کا حق ہے لیکن اس سے آگے چل کر جب وہ ریاست کو اس معاملے میں ملوث کرتے ہیں تو پھر یہ معاملہ مذھبی آزادی سے آگے بڑھ کر ریاستی "تعذیب” کے زمرے میں آجائے گا –
ایسے ہی اگر شیعہ اسلام کے ماننے والے کسی ایسے گروہ یا افراد کی ریاستی سطح پر تعذیب کا مطالبہ کریں جو خلیفہ چہارم جناب علی المرتضٰی کے ساتھ جنگ آراء ہونے والوں کے موقف کو درست قرار دیں یا پھر بنو امیہ کی بادشاہت کو اسلامی مانیں –
تھیاکریسی /مذھبی پیشوائیت کا نظام ایسا ہے کہ ہر فرقہ کا مذھبی پیشوا دوسرے فرقے کی مذھبی آزادی کا مطلب توہین/بلاسفیمی لیتا ہے اور ریاست کے آئین اور قانون میں وہ اُسے ضابطہ فوجداری میں قابل سزا (اور سزا بھی زیادہ سے زیادہ، انتہائی سخت) فعل قرار دلوانے میں ہر ممکن کوشش کرتا ہے –
سن 1947ء کے بعد سے سنی اسلام کے ماننے والے ہوں یا شیعہ اسلام کے ماننے والے دونوں کی مذھبی پیشوائیت نے اپنے تئیں اپنے تصورات مذھب سے انحراف کو ریاستی سطح پر قابل تعذیب/پرسیکوشن قرار دلانے کے لیے کوشاں رہے – دونوں کی مذھبی سیاسی قیادتوں نے مل کر قرارداد مقاصد کو سپورٹ کیا جس کا ہدف پاکستان کی مذھبی اقلیتیں تھیں اور پھر سُنی اسلام کے شدت پسندوں اور انتہاپسندوں نے "شیعہ اسلام” کے مذھبی شعائر مجالس عزا اور جلوس عاشور کے رسوم و رواج پر ریاستی سطح پر پابندی لگائے جانے کا مطالبہ کیا- یہ مطالبہ جمعیت اہلسنت (دیوبندی تنظیم) نے 1948ء میں پہلی بار کیا اور 1950 سے 1951 میں تو مطالبہ نہ ماننے پر شیعہ جلوسوں اور مجالس پر حملے تک کیے گئے- اس مطالبے کی حمایت میں بریلوی اور اھل حدیث کے بھی کئی ایک علماء اور مشائخ سامنے آئے –
اہل حدیث اور دیوبندی فرقوں کے شدت پسندوں کو بریلوی فرقےکے شعائر کو بھی چیلنج کیا لیکن ان کے خلاف ریاستی تعذیب / پرسیکوشن کا مطالبہ سامنے نہیں آیا – اُس کی وجہ بریلوی اسلام کے ماننے والوں کی اکثریت تھی –
پاکستان میں ریاستی سطح پر شیعہ کی پرسیکوشن/تعذیب ایک ایسی حقیقت ہے جس کی جڑیں پاکستان کے آئین کو ایک تھیوکریٹک آئین کے طور پر تشکیل دینا ہے –
ایک مذھبی ریاست/تھیوکریٹک سٹیٹ مذھبی بنیاد پر تعذیب/پرسیکوشن سے دور رہ ہی نہیں سکتی – اور اس طرح کی ریاست کسی ایک مذھبی گروہ کی تعبیر مذھب سے منحرف ہونے والی برادریوں کو سخت سے سخت تعذیب کا نشانہ بناتی ہیں –
ایک ایسا سماج جس کی اکثریت مذھبی پیشوائیت پر یقین رکھتی ہو وہ اپنے اپنے فرقوں کے امتیازی عقائد سے ہٹ کر عقائد اور مذھبی رسوم و رواج کے حامل فرقوں کو اگر ریاستی تعذیب کا نشانہ نہ بھی بناسکے تو وہ ہجومی تشدد، بلوے پَن، لنچنگ کی ثقافت کو پروان چڑھائے رکھتی ہے –
پاکستان میں شیعہ برادری کی ریاستی پرسیکوشن بارے ایک طرف تو لبرل سیکولر سول سوسائٹی اشراف کے ایک سیکشن کا منافقانہ کردار اس سوال کو پس پشت ڈالتا ہے دوسرا خود شیعہ برادری کے مذھبی پیشواؤں کے ایک ایسے سیکشن نے اس سوال کو نمایاں نہ ہونے دینے میں انتہائی مرکزی کردار ادا کیا ہے جو پڑوسی ملک ایران کی مذھبی پیشوائیت پر مبنی حکومت اور مذھبی پیشوائیت پر مبنی آئین کا دفاع کرتا ہے اور وہ پاکستان میں ایرانی مذھبی پیشوائی سیاست کو مثالی اسلامی سیاست قرار دیتا ہے-
مذھبی پیشوائیت پر مبنی ریاست اور ریاستی آئین کی تشکیل کے علمبردار مسلم مذھبی پیشوائیت مغربی ممالک سمیت دیگر سیکولر آئین کے حامل ممالک میں نسل پرست ایسی سیاست کو مذھبی آزادی کے منافی بتلاتی ہے جو مسلمانوں کے مذھبی اظہار، شعائر پہ عمل ، تبلیغ مذھب پر پابندی کا مطالبہ کرتی ہیں لیکن ایسا ملک جہان وہ بھاری اکثریت رکھتے ہیں وہاں اُن کا جس فرقے سے تعلق ہوتا ہے اُسے چھوڑ کر باقی سب کی مذھبی آزادی انھیں "توھین/بلاسفیمی” لگتی ہے –
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر