رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھنے اور سننے کے جدید ذرائع بند ہونے کے باوجود جو کچھ دیکھ اور سن رہے ہیں‘ وہ مجھ جیسے خستہ حال اور کہنہ کو نصف صدی پہلے مشرقی پاکستان کے آخری ایام کی یاد دلاتا ہے۔ ایسے ہی مناظر‘ ایسے ہی نعرے‘ ایسی ہی لڑائی اور ایسا ہی تضاد ہمارے سامنے تھا۔ ایک طرف عوام‘ ان کا مقبول ترین رہنما شیخ مجیب الرحمن‘ جمہوریت کا نعرہ اور اکثریت کی رائے عامہ کو تسلیم کرنے کی جدوجہد تھی۔ ایک اعلان پر لوگوں کا سمندر ڈھاکہ‘ چٹاگانگ اور ہر بڑے شہر کی سڑکوں‘ پارکوں اور گلیوں میں امڈ آتا۔ اب تو سب کہتے ہیں کہ مطالبات جمہوری اور جائز تھے اور اگر اقتدار منتقل ہو جاتا تو نہ فوجی ایکشن کی ضرورت پڑتی‘ نہ بھارت کے ساتھ جنگ ہوتی اور نہ ہمیں اس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا جو ہمیشہ کے لیے تاریخ کا حصہ بن چکی۔ ہمارے سب دوست ممالک خصوصاً چین کا اصرار تھا کہ سیاسی تصفیہ کریں‘ جس کا مطلب اکثریت کو اقتدار سونپنا تھا۔ دوسری طرف جنرل آغا محمد یحییٰ خان تھے جن کے قصوں کی رنگینی محمد شاہ رنگیلا سے کہیں بڑھ کر تھی۔ ان کے ساتھ پنجاب اور سندھ میں اکثریت حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ تمام آزاد اور معتبر مورخین کے مطابق بھٹو نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا لیکن فیصلے تو اُن کے تھے جنہوں نے اقتدار منتقل کرنا تھا۔ اس وقت کی حکومت نے پہلی تقریر کے مطابق صرف انتخابات کرانے اور اقتدار اکثریت کو منتقل کرنے کے لیے دل پر بھاری پتھر رکھ کر عنانِ اقتدار اپنے ہاتھوں میں لی تھی۔ اگر وہ اپنے پہلے فیصلے پر قائم رہتے تو بھٹو مرکز میں قائدِ حزب اختلاف ہوتے یا اگر چاہتے تو پنجاب یا سندھ کے وزیراعلیٰ۔ مشرقی پاکستان میں آپریشن ہوا‘ خون خرابہ ہوا‘ حالات مزید بگڑ گئے تو بھارت نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حملہ کردیا۔ بھٹو صاحب کا جنرل یحییٰ خان سے اتحاد اب بند کمروں کی بات نہیں تھی۔ وہ ان کے وزیر خارجہ تھے۔ جنرل اسمبلی میں گئے تو پولینڈ کی قرارداد کو پھاڑ کر پھینک دیا اور واک آئوٹ کر گئے۔ یہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے سیاسی حل کی آخری کوشش تھی۔ کوئی اس قرار داد کا متن پڑھ کر دیکھ لے تو آج بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس کو پھاڑنے کے محرکات کیا تھے۔
انتخابات کے نتائج کو نہ ماننے کی ذمہ داری سیاسی اور تاریخی طور پر یحییٰ خان پر عائد ہوتی تھی اور یہ وہ سیاہ دھبہ ہے جو آنے والی نسلیں بھی نہ دھو سکیں۔ کسی حد تک آج کے حالات پر بھی غور فرماتے جائیں۔ ہمارے بہادر جوانوں اور افسروں نے وطن عزیز کے لیے کیا کیا نذرانے پیش نہیں کیے مگر فیصلوں کی طاقت جن ہاتھوں میں تھی‘ اب آپ تاریخ کے دریچوں سے دیکھیں تو ان کے سامنے ملک اور عوام نہیں‘ صرف اپنے مقاصد تھے۔ جب نیا پاکستان تشکیل پانے لگا تو ہم اس وقت بحرانوں سے گزر کر سیاست کی تعلیم دے رہے تھے۔ بہت کچھ دیکھا‘ اس تاریخ کے پرانے اوراق پلٹے۔ اس وقت بھی اگر طاقت کا غلبہ بھٹو صاحب کو ہوش میں رہنے کی اجازت دیتا تو ان میں ذہانت تھی‘ صلاحیت تھی اور ان کے مقابلے کا کوئی سیاسی رہنما میدان میں نہیں تھا۔ وہ جمہوریت کی بنیاد ڈال سکتے تھے جس طرح انہوں نے ایک متفقہ آئین کی تشکیل میں کردار ادا کیا تھا۔ ان سے کسی زمانے میں جذباتی لگائو تھا جو بعد میں بھی رہا مگر ہم تاریخ کو تو تبدیل نہیں کر سکتے۔
خیال تھا کہ جس طرح انسان ٹھوکریں کھانے کے بعد سنبھل جاتے ہیں‘ ہمارا ملک بھی کسی راستے پرقدم رکھ کر آگے کا سفر طے کرے گا۔ ہمارا المیہ یہ رہا کہ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم دوبارہ زیرو پوائنٹ پر واپس آجاتے ہیں۔ جب پہلی دفعہ ہریالی میں گھرے اس شہر میں آیا تھا تو لوگوں سے معلوم ہوا کہ شہر یہاں سے شروع ہوتا ہے۔ آج کل ہمارے ملک کی وفاقی کابینہ‘ جودنیا کی سب سے بڑی کابینہ ہے‘ کا اقتدار بھی سنا ہے یہاں سے شروع ہوکر واپس یہیں پر ختم ہوجاتا ہے۔ ہم درویش تو اجنبی ہیں‘ اقتدار کے حکیم ہی کچھ بتا سکتے ہیں کہ اس کی کنجیاں کن ہاتھوں میں ہیں۔ وزیروں‘ گماشتی مشیروں اور خصوصی معاونین کی ایک فوج ظفر موج موجیں کررہی ہے۔ عوام سڑکوں پر ہیں‘ پولیس‘ رینجرز کے دستے اور نگران حکومتوں کی مدد کے لیے فوج بھی آرٹیکل 245 کے تحت پنجاب اور کے پی میں طلب کر لی گئی ہے۔ جب یہاں تک نوبت آجائے تو اس کا مطلب ہے کہ موجیں کرنے والے تو اپنے حال میں مست رہیں گے‘ حالات مزید خراب کرنے کی ذمہ داری کسی اور پر لگے گی۔ اب یہ باتیں اتنی سادہ بھی نہیں۔ سیاسی اتحاد تو تیرہ جماعتوں کا ہے مگر سب ایک چھتری کے سائے میں ہرکارے کیوں بنے دکھائی دیتے ہیں؟ سندھ کے وزیر اطلاعات کے سنہری فرمودات سے شروع ہونے والی وزارتی پریس کانفرنس کا تاریخ کا طویل ترین سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے۔ ان کی ترجیحات وہ نہیں جو کبھی نارمل حکومتوں کی ہوا کرتی تھیں۔ سیاستدانوں کا بڑا حصہ عمران خان کو سیاست سے باہر کرنے کے درپے نظر آتا ہے۔ ضرور کریں مگر اس کا طریقہ تو آئین نے انتخابات میں طے کردیا ہے۔ جب آپ کی دوڑیں لگی ہوئی ہوں اور یہاں تک کہ عدالتِ عظمیٰ کے حکم کو ماننے سے بھی صاف انکار کردیا گیا ہو تو پھر وہ ہتھکنڈے رہ جاتے ہیں جن کے مناظر ہم نو مئی کو دیکھ چکے ہیں۔
کسی وزیراعظم کی گرفتاری کا یہ انداز ہم نے کسی بدترین فسطائی نظام میں بھی نہیں دیکھا۔ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر یہ جمہوریت ہے تو فسطائیت کیا ہوتی ہے؟ کپتان کی گرفتاری سے پہلے ان کی ایک وڈیو گردش میں تھی جب وہ عدالت میں آرہے تھے۔ سب نے وہ وڈیو دیکھی اور سنی کہ وارنٹ لے آئیں‘ گرفتاری دینے کے لیے تیار ہوں۔ عدالت کے ایک کمرے میں اکیلے ہی تھے کہ رینجرز کے اہلکار گرفتار کرنے پہنچ گئے۔ یہ دیکھ کر کسی نے ملک کے بڑے انگریزی اخبار میں ”بونی ریاست‘‘ کا استعارہ استعمال کیا۔ کچھ کرشمہ زاروں اورموروثیوں کی فرمائش تو پوری ہوگئی مگر جو تذلیل ہماری ریاست‘ ہماری تہذیب اور معاشرے کی دنیا میں ہوئی اور نہ جانے کب تک ہوتی رہے گی‘ اس کا خمیازہ تو ہم اور ہماری آنے والی نسلیں بھگتتی رہیں گی۔ ایسا سلوک تو مہذب ممالک بدترین مجرموں کے ساتھ بھی نہیں کرتے۔ نہ جانے کہاں گئیں اپنی تہذیب کے بارے میں روایتی باتیں۔
پہلے بھی لکھ چکا ہوں‘ شاید کئی بار کہ اپنی تاریخ کے سب سے بڑے تضاد کو سمجھنا ضروری ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں یا سیاسی انجینئرز۔ دبے لفظوں میں تو سب باتیں کرتے تھے اور جو محترم زرداری صاحب کی ”اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘ کی دھمکی اور میاں نواز شریف کا کہنا کہ ”یہ سارا گند آپ کا ہے‘‘ کا مقصد وقتی مفاد ہی رہا۔ کوئی نظریاتی تبدیلی نہیں تھی۔ ان کا تضاد کپتان سے ہے کہ وہ اتنا طاقتور ہو چکا ہے کہ اب بیساکھیوں کا سہارا لینے کی ضرورت موروثیوں کو ہے۔ ایک فیصلہ تو تیرہ جماعتی اتحاد کر چکا کہ آزادی کی باتیں کرنے والا کپتان رہے گا یا وہ رہیں گے۔ دوسرا فیصلہ عوام کو کرنا ہے۔ ایک دفعہ پھر ریاست کو عوام کے خلاف لا کھڑا کیا گیا ہے۔ حضور کچھ تاریخ پڑھی ہوتی‘ کچھ سبق سیکھا ہوتا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ