نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پارا چنار اور شمالی وزیرستان کے سانحات ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

4مئی کو جمعرات کا دن تھا۔ ایک کے بعد دوسری خون میں لپٹی خبر موصول ہوئی تو فقیر راحموں نے کہا یار شاہ آج کہیں کالی جمعرات تو نہیں؟ ہمارے بچپن کے دنوں کی طرح سیاہ گھپ گھور کالی آندھی آئی نہ کسی نے ان دنوں کا ذکر کیا جب کسی ایک بے گناہ کا خون بہائے جانے پر کالی آندھی آیا کرتی تھی۔

پتہ نہیں بے حسی اور نفسانفسی بڑھ گئی ہے یا ہر شخص اتنا تنہا ہوگیا ہے کہ وہ اجتماعی سوچ اپنانے کو اب غیرضروری سمجھنے لگا ہے۔

فقیر راحموں نے ایک بار پھر بات کاٹتے ہوئے کہا شاہ جب ظالم اور مظلوم اپنے اپنے ہوں تو لوگ صرف اپنے مقتولوں پر روتے ہیں۔ ویسے یہ بات کچھ غلط بھی نہیں۔

چار اور نگاہ دوڑایئے عزیزوں دوستوں حلقہ احباب اور اہل علاقہ کے رکھ رکھائو۔ سوچ، رائے کے اظہار سمیت دیگر معاملات کا بغور جائزہ لیجئے۔ آسانی سے سمجھ جائیں گے ہم کہاں کھڑے ہیں اور کتنے شقی القلب ہیں۔

فقیر راحموں کہتا ہے ویسے یہ وہی ملک ہے نا جس میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیئے جانے کے بعد فوجی آمر کی تسلی کے لئے پھانسی پانے والے بھٹو کے برہنہ جسم کی تصاویر اس لئے بنائی گئیں کہ ایک طویل عرصہ سے اس ملک کی مذہبی جماعتیں پروپیگنڈہ کررہی تھیں کہ بھٹو مسلمان نہیں بلکہ گھاسی رام ہے اس کے ’’ختنے‘‘ بھی نہیں ہوئے۔

پھانسی کے بعد برہنہ جسم کی تصاویر بناکر تسلی کی گئی کہ پھانسی پانے والا ذوالفقار علی بھٹو تھا یا گھاسی رام؟

اس ملک کی پچھتر برسوں کی تاریخ میں اس طرح کے گھٹیا واقعات سوچیں اور کہانیاں بھری پڑی ہیں۔

چلیئے تاریخ کے ان اوراق کو نہیں پھرولتے کیا فائدہ ہے کچھ بھی نہیں۔ بھٹو کو گھاسی رام کہنے والوں کی اولادوں نے محترمہ بیگم نصرت بھٹو کو کلب ڈانسر لکھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی کردار کشی میں تو اس بازار کی کسبیوں کو مات دے گئے آج کل ان کی اولادیں بلاول بھٹو کی جنس پر سوال اٹھاکر چسکے لیتی ہیں

ابھی کل کی بات ہے جب سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کے مفرور بھائی کے جرائم کی پردہ پوشی کے لئے ایان علی نامی ماڈل کو آصف علی زرداری سے منسوب کررہے تھے۔ پھر ڈاکٹر تنویر زمانی لائی گئیں بتایا گیا کہ یہ زرداری کی اہلیہ ہیں اور ان میں سے ایک بیٹا بھی ہے۔

بیٹا تو ویسے ایان علی کے الٹراسائونڈ کے ذریعے شاہد مسعود اور مبشر لقمان وغیرہ نے بھی تلاش کرلیا تھا زرداری کا اور بیٹے کے پیدا ہونے کی تاریخ بھی دے دی تھی۔ لیکن پھر مقررہ تاریخ پر یہ پورا ریاستی بھونپو لشکر منہ چھپائے پھر رہا تھا۔

معذرت خواہ ہوں آگے بڑھنے کی بجائے سوچا بات مکمل کرہی لوں۔

فقیر راحموں نے جس جمعرات کو کالی جمعرات کہا اس پر بات کرلیتے ہیں اس کالی جمعرات کا پہلا واقعہ ڈیرہ اسماعیل خان میں پیش آیا جہاں دو عشروں سے انتہائی مطلوب القاعدہ اور کالعدم ٹی ٹی پی کھیارا گروپ کا دہشت گرد اقبال عرف بالی کھیارا پولیس مقابلہ میں مارا گیا۔

اس دہشت گرد کے ایک بار افغانستان میں مارے جانے کی خبر ہمیں آئی ایس پی آر نے سنائی تھی بڑے پرجوش انداز میں کی گئی پریس کانفرنس میں بتایا گیا تھا کہ لگ بھگ دہشت گردی کے 40 مقدمات (ان میں 27 مقدمات ڈی آئی خان میں اس کے خلاف درج تھے) میں مطلوب بالی کھیارا افغانستان میں مارا گیا ہے ۔ یہ خبر غالباً 2012ء میں سنائی گئی تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی اقبال عرف بالی کھیارا کا شناختی کارڈ 2015ء میں تجدید ہوا۔ ظاہر ہے بندہ زندہ اور مجسم حالت میں نادرا آفس گیا ہوگا تو شناختی کارڈ کی تجدید ہوئی ہوگی۔ انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل بالی کھیارا ٹی ٹی پی کے اپنے گروپ کا سربراہ تھا اس کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر تھی۔

جمعرات 4مئی کو اس نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک ڈی ایس پی پر حملہ کیا پولیس نے جوابی کاروائی میں اس انتہائی مطلوب دہشت گرد کو ہلاک کردیا۔

اس کے خلاف درج مقدمات کی تفصیل یہاں لکھنے اور بحث کرنے کی ضرورت کیا ہے شناختی کارڈ کی تجدید ہوسکتی ہے تو کچھ بھی ممکن ہے۔ بالی کھیارا کے مارے جانے پر ڈیرہ اسماعیل خان کے شہری اور بالخصوص اس کی دہشت گردی کی کارروائیوں میں مارے گئے درجنوں مقتولین کے ورثا اس پولیس مقابلے پر جوکچھ کہہ رہے ہیں اس پر ناک چڑھانے کی بجائے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک کروڑ روپے انعام کی قیمت والا دہشت گرد کیسے ہمارے درمیان رہ رہا تھا۔ کیسے اس کے شناختی کارڈ کی تجدید ہوئی ؟ ، یہ سوال بہرطور لوگ پوچھ رہے ہیں۔

جمعرات کو ہی شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں مصروف سکیورٹی فورسز کی ایک ٹیم اور دہشت گردوں کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں 6اہلکار شہید ہوگئے۔ جوابی فائرنگ سے دو دہشت گردوں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔

اس واقعہ پر سابق وزیر اطلاعات و قانون فواد حسین چودھری کا کہنا ہے کہ بیرونی سازش سے ہماری حکومت گراکر ملک کو بے یارومددگار بنادیا گیا ہے۔ ریاست ناکام ہوچکی ہے۔ فواد چودھری سمیت کوئی انصافی اپنے دور حکومت میں دہشت گردوں سے اعتماد سازی کے اس پروگرام پر بات نہیں کرتا جس کے تحت سینکڑوں سزا یافتہ دہشت گردوں کو رہا کیا گیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مارے جانے والے قاتلوں کے لئے مانگے گئے سات ارب روپے خون بہا میں سے تین ارب روپے دیئے جانے کی اطلاعات بھی ہیں۔

عمران خان تو اعتماد سازی کے اس پروگرام کا اب تک دفاع کررہے ہیں ان کا موقف ہے وہ دہشت گردوں کو مین سٹریم میں لانے اور کارآمد شہری بنانے کا پروگرام رکھتے تھے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کب اس پروگرام کو باجوہ کے کھاتے میں ڈال کر کہیں گے کہ ’’مجھے تو جنرل باجوہ نے کہا تھا کہ چالیس ہزار دہشت گردوں کو پختونخوا بسانا ہے اور انہیں ضروری اخراجات کے لئے تین ارب روپے کی رقم بھی دے دو‘‘۔

کالی جمعرات کا ہولناک واقعہ کرم ایجنسی (پارا چنار) کے علاقے تری منگل کے گورنمنٹ ہائی سکول میں رونما ہوا۔ سکول میں امتحانی ڈیوٹی پر تعینات اساتذہ اور دیگر افراد کو ان کی مذہبی شناخت پر الگ کرکے پہلے گولیاں ماری گئیں پھر ذبح کیا گیا۔

اس المناک سانحہ کا رشتہ ایک زمینی تنازع سے جوڑنے والے ڈی پی او اور دوسرے سرکاری افسروں کو اپنی ناک سے آگے کچھ دیکھائی نہیں دیتا۔

ان غیر اطلاع یافتہ سرکاری افسروں نے لگے بندھے معمول کو سچ بناکر پیش کرنے کے لئے سرکاری فائلوں میں موجود گھڑی ہوئی کہانیوں میں سے ایک کہانی میڈیا کو فراہم کردی۔

بلاشبہ زمینی تنازعات علاقے میں موجود ہیں لیکن گورنمنٹ ہائی سکول تری منگل میں دہشت گردوں نے مخصوص مذہبی شناخت کی تسلی کرکے اساتذہ اور دوسرے مقتولین کو (کل 8افراد قتل کئے گئے) دیگر لوگوں اور طلباء سے الگ کرکے جس سفاکانہ انداز میں قتل کیا اس نے چیلاس اور چند دیگر مقامات پر مخصوص مذہبی شناخت کی تسلی کرکے درجنوں لوگوں کو ماضی میں قتل کرنے کے خوفناک واقعات کی یاد دلادی۔

حیران کن امر یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ اپنی کمزوریوں، مجرمانہ غفلت اور فیصلہ سازی میں کمزوریوں کی پردہ پوشی کے لئے حقائق کو مسخ کررہی ہے۔

بالفرض اگر جمعرات کے اس المناک واقعہ کو چند دن قبل منگل قبیلے کے ایک شخص کے قتل کا ردعمل مان بھی لیا جائے تو اس سوال کا جواب کیا ہے کہ جو ڈی پی او ڈی سی وغیرہ ردعمل کی کہانی سنارہے ہیں انہوں نے کیوں اس امر کو یقینی نہیں بنایا کہ منگل قبیلے کے ایک شخص کے قتل کے بعد وہ ضلع بھر میں سکیورٹی بڑھائیں اور جمعرات کو قتل ہونے والے اساتذہ اور دوسرے افراد کی گورنمنٹ ہائی سکول تری منگل میں ڈیوٹی نہ لگنے دیں؟ جبکہ اس حوالے سے انہیں تحریری طور پر آگاہ بھی کردیا گیا تھا

معاملہ اتنا سادہ ہے نا ہی یہ ایک شخص کے قتل کا ر دعمل، دہشت گردی کی اس واردات میں شناخت کرکے چند افراد کو الگ کرنا انہیں قتل کرکے ذبح کرنا یہ ایک مخصوص دہشت گرد تنظیم کا طریقہ واردات ہے جو چیلاس سے پارا چنار تک پچھلے دو عشروں سے دہشت گردی کی بعض وارداتوں میں دیکھنے میں آیا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ رٹو طوطے کی طرح کہانیاں سنانے والوں کو یہ احساس ہی نہیں ہورہا ہے ان کے جھوٹ سے اصل مجرموں کی پردہ پوشی ہورہی ہے۔

کیا انتظامی اور پولیس افسران اس بات سے لاعلم ہیں کہ پچھلے برس جب کرم ایجنسی سے ملحقہ افغان سرحد پر باڑ کاٹنے اور دہشت گردوں کے قافلوں کی صورت میں علاقے میں آنے کے بعد ایک مخصوص طبقے کے شہریوں کو علاقہ خالی کرنے کی دھمکیاں کی گئی تھیں تو انتظامیہ نے ہی لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ دہشت گرد انہیں نقصان نہیں پہنچاسکیں گے، حکومت اور انتظامیہ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے۔

لیجئے ہوگئی ذمہ داری پوری۔اب جھوٹ سناتے اڑاتے رہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author