نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاستدانوں کیلئے لمحہء فکریہ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بظاہر یہی لگتا ہے کہ حکمران اتحاد اور تحریک انصاف کے درمیان قومی اور دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل اور ملک میں ایک ہی دن عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں اس ناکامی کی تصدیق شاہ محمود قریشی کے اس بیان سے ہوتی ہے کہ ہم سپریم کورٹ سے کہیں گے پنجاب اسمبلی کے انتخابات 14مئی کو کرائے جائیں اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دی جائے۔

پی ٹی آئی کے ذمہ داران غالباً بھول رہے ہیں کہ سپریم کورٹ قبل ازیں خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات کو صوبائی معاملہ قرار دے چکی ہے نیز یہ بھی کہہ چکی کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مزاکرات کیلئے ہم نے کوئی حکم جاری نہیں کیا ۔

شاہ محمود قریشی کے مطابق حکمران اتحاد کے دوستوں کو ہماری تجاویز ماننے میں دقت ہورہی ہے۔ دوسری طرف وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار کا کہنا ہے کہ ہم نے سفارشات ایک دوسرے کے سامنے رکھی ہیں تاریخ کا تعین مشکل مرحلہ ہے امید ہے کہ اگلی نشست میں مزید قریب پہنچ جائیں گے۔

سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سینئر وائس چیئرمین کی جانب سے سپریم کورٹ جانے کے اعلان کے بعد بھی کیا مذاکرات کے اگلے دور کی توقع کی جاسکتی ہے؟

اصولی طور پر دونوں طرف کے مذاکرات کاروں کو چاہیے تھا کہ مذاکراتی سیشن کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے تاکہ ان کے ایک دوسرے سے مختلف بیانات ابہام پیدا کرنے کا ذریعہ نہ بن پاتے۔

پی ٹی آئی اپنی دو صوبائی حکومتوں کے خاتمے کے نتائج کو سامنے رکھ کر اب اس امر پر بضد ہے کہ انتخابات ایک ہی دن کرانے کے لئے قومی اور دو صوبائی اسمبلیاں قبل از وقت تحلیل کردی جائیں۔ عمران خان اور دیگر رہنمائوں کے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اگست میں عام انتخابات کے اعلان پر ہی آمادہ ہیں

اس آمادگی کے پس منظر کے حوالے سے جن امور پر سیاسی اور عوامی حلقوں میں بحث ہورہی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ اگر موجودہ چیف جسٹس کی ستمبر میں ریٹائرمنٹ سے قبل ملک میں عام انتخابات یا پھر کم از کم پنجاب اسمبلی کے انتخابات نہ ہوپائے تو حکمران اتحاد کی پوزیشن زیادہ بہتر ہوجائے گی۔

یہ تاثر بھی ہے کہ اگر عام انتخابات مقررہ وقت سے پہلے ہوتے ہیں تو معاملات پی ٹی آئی کی ترجیحات کے مطابق آگے بڑھ سکیں گے۔

اسی طرح بعض حلقے دبے لفظوں میں 6ماہ کے لئے ایمرجنسی لگاکر قومی اسمبلی کی مدت بڑھانے اور عام انتخابات 25فروری سے 10مارچ 2024ء میں کرانے کی باتیں بھی کررہے ہیں۔

حکمران اتحاد کے رہنمائوں کے مطابق اس طرح کی باتیں کرنے والے وہ لوگ ہیں جو کسی غیرجمہوری عمل سے اٹھائے گئے نظام میں عوامی مسیحا بن کر مسلط ہوتے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کے لئے آئین اور نظام مقدم ہے۔

سپریم کورٹ کے بعض حالیہ فیصلوں اور پھر حکمران اتحاد اور پی ٹی آئی کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے اب تک کے ادوار میں جس بنیادی اہمیت کے سوال کو یکسر نظرانداز کیا گیا وہ ملک میں جاری مردم شماری کا عمل ہے گزشتہ روز اس میں 15مئی تک توسیع کردی گئی ہے بالفرض اگر اس میں مزید توسیع نہ بھی ہو تو نتائج مرتب کرنے اور حلقہ بندیوں کے عمل کو مکمل کرنے میں کم سے کم اڑھائی سے تین ماہ کا عرصہ لگے گا

یعنی بہت جلد بھی یہ مراحل طے ہوں تو لگ بھگت 15اگست تک ممکن ہے۔ 2023ء کے عام انتخابات کے نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر انعقاد کا فیصلہ خود تحریک انصاف کے دور حکومت میں مشترکہ مفادات کی کونسل نے کیا تھا

حیران کن بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی نہ صرف اس نکتہ کو روز اول سے نظرانداز کررہی ہے بلکہ وہ اس سوال کا جواب دینے سے بھی گریزاں ہے کہ اگر مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے پر عمل کی بجائے پچھلی مردم شماری پر انتخابات ہوئے تو ان کی قانونی حیثیت کیا ہوگی

نیز یہ کہ کیا فیڈریشن کی اکائیاں مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کو پس پشت ڈال کر اس امر پر آمادہ ہوجائیں گی کہ انتخابات پہلے ہوجائیں اور مردم شماری کے نتائج و نئی حلقہ بندیوں کا اعلان بعد میں ہو؟

یہ امر اس لئے بھی غور طلب ہے کہ نئی مردم شماری کے عمل میں شکایات سامنے آرہی ہیں ان میں سے اہم ترین شکایت یہ ہے کہ پنجاب کے بعض شہروں بالخصوص لاہور کی آبادی کو مصنوعی طرقیہ سے زیادہ دیکھایا جارہا ہے۔

سندھ میں یہ شکایت سامنے آرہی ہے کہ جماعت اسلامی کراچی میں مقیم 20لاکھ غیرقانونی افغان بنگالی و برمی مہاجرین کو مقامی آبادی کے طور پر رجسٹر کرانے کے لئے بضد ہے۔

ہمارے خیال میں یہ وہ شکایات اور سوالات ہیں جن پر سیاسی جماعتوں کو کامل سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر کرکے ان کا حل اور جواب تلاش کرنا چاہیے۔

پاکستانی سیاست اور نظام کا اصل المیہ یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کو ملکی مفادات اور نظام کی ضرورتوں پر مقدم سمجھتی ہیں۔

ملک میں جمہوری عمل کو سیدھے سبھائو آگے بڑھنے کے لئے حرف آخر انتخابات ہیں؟ یقیناً انتخابات کی اہمیت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسرے معاملات بھی ہیں ان میں اہم ترین معاملہ فیڈریشن کی اکائیوں کا فیڈریشن پر اعتماد ہے۔

آبادی کے تناسب سے وسائل کی تقسیم بھی بنیادی اہمیت کا معاملہ ہے۔

فی الوقت اہم ترین دو شکایات ہیں اولاً یہ کہ پچھلی مردم شماری کے متنازعہ نتائج کی وجہ سے صوبوں کو ان کی حقیقی آبادی کے تناسب سے وسائل فراہم نہیں کئے گئے۔ دوسری شکایت فیڈریشن کے بعض اداروں میں چھوٹے صوبوں کی ان کے حق سے کم نمائندگی ہے۔

دونوں اہم معاملے ہیں انہیں نظرانداز کرکے آگے بڑھنے کا مطلب یہی ہوگا کہ ہر صورت میں بالادستی اور استحصال کے اس عمل کو برقرار رکھا جائے جس سے شکایات اور محرومیاں جنم لیتی ہیں۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انتخابات کے لئے مذاکرات کرنے والے فریقین کوان امور کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے تھا۔ اسی طرح سیاستدانوں کا اپنے معاملات خود طے کرنے کی بجائے غیرمتعلقہ اداروں کے دروازوں پر فریادی بن کر جانا بھی اصل میں نہ صرف ان کی بلکہ نظام کی ان کمزوریوں کو واضح کرتا ہے جس کا فائدہ اٹھاکر بعض ادارے حاکمانہ رویہ اپناتے ہوئے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔

حالیہ سیاسی بحران کی بڑی دو وجوہات ہیں اولاً سیاستدانوں میں وسعت قلبی کی کمی اور ثانیاً بعض اداروں کا حدود سے تجاوز۔

بہتر تو یہی ہوگا کہ سیاسی جماعتیں ازسرنو اس امر پر غور کریں کہ وہ اپنے فیصلوں اور نظام چلانے کے اختیارات کیوں ان اداروں کو سونپنے پر بضد ہیں جن کی اپنے معاملات کے حوالے سے کارکردگی کبھی مثالی نہیں رہی۔

اندریں حالات یہی عرض کیا جاسکتاہے کہ سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے سے فرار کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں۔

اپنے گریبان دوسروں کے ہاتھ دینے کی بجائے اگر وہ مل بیٹھ کر معروضی حالات کی روشنی میں کسی قابل عمل فیصلے پر پہنچ جائیں تو یہ نہ صرف ان کے بلکہ جمہوریت کے لئے بھی خیر کا باعث ہوگا۔

یہی وہ نکتہ ہے جو اس امر کا متقاضی ہے کہ سیاسی جماعتیں ملک میں انتخابات کے لئے مذاکرات کے عمل سے منہ موڑنے کی بجائے ایک ایک قدم پیچھے ہٹ کر راستہ نکالنے کی سعی کریں اور اس امر کو بہرصورت یقینی بنائیں کہ ان کے اختلافات سے کوئی تیسرا کسی بھی طرح فائدہ نہ اٹھانے پائے۔

ہمیں امید ہے کہ سیاسی قیادت ان معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی حالات کے مطابق اتفاق رائے سے کسی فیصلے پر پہنچنے کے لئے کوئی کسر نہیں اٹھارکھے گی۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author