جون 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہیں تلخ بہت بندہ صحافت کے اوقات ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

3 مئی آزادی صحافت کا عالمی دن تھا ایک دن کی تاخیر سے کچھ معروضات گزشتہ کالم میں عرض کرچکا لیکن فقیر راحموں بضد ہے کہ آزادی صحافت اور پاکستانی صحافیوں کی تازہ حالت زار پر جتنا لکھا وہ کافی نہیں مزید بھی کچھ لکھا جائے۔ ہمزاد کی بات ٹالنا مشکل ہوتا ہے۔ کچھ دیر قبل اس نے جب اپنے مطالبے کو دہرایا تو یہ دریافت کرنا پڑا کہ صحافت کی “قبر” پر جو کمرشل ازم کی “درگاہ” تعمیر ہوئی ہے اس پر کیا عرض کروں؟۔چند سخت سست جملے سننے کو ملے اور یہ طعنہ بھی کہ شاہ اب تم حالات اور اداروں سے ڈرنے لگے ہو۔ فقیر راحموں نے ایک عزیز جاں دوست کی وہ بات یاد دلائی جو انہوں نے کچھ عرصہ قبل کہی تھی۔ اس دوست کا کہنا تھا۔ ’’شاہ جی لمبی جدوجہد کے بعد اب تھک گئے ہو غالباً عمر کا یہ مرحلہ آڑے آنے لگا ہے‘‘۔
سچ یہ ہے کہ پاکستانی صحافت پچھتر سال کا سفر طے کر چکنے کے بعد بھی آزادی اظہار کے اس مقام تک نہیں پہنچ پائی جو قابل فخر ہو۔ ایک طویل پرعزم اور قربانیوں سے بھری جدوجہد کے وارث آج وہ لوگ ہیں جن میں سے اکثر کی شہرت پولیس ٹاؤٹ، ایجنسیوں کا مخبر اور مالکان کا مڈل مین ہونا ہے۔ کوئی ایک کردار ہو تو آدمی نام بھی لکھے درجنوں سینکڑوں ایسے کردار ہیں جو پریس کلبوں اور پی ایف یو جے کے مختلف دھڑوں پر قابض ہیں چند برسوں یا ایک ڈیڑھ عشرے میں ان کی تو دنیا ہی بدل گئی لیکن کارکن صحافی آج بھی بے حال و بد حال ہے۔
نجی اخبارات کے مالکان نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں این پی ٹی کے اخبارات کو بند کروانے کی سازشیں شروع کردی تھیں ان سازشوں کو مشرق، امروز، پاکستان ٹائمز اور این پی ٹی کے دوسرے اخبارات و جرائد میں بیٹھے کچھ ضمیر فروشوں نے بڑھاوا دیا اور پھر جمہوری دور کہلاتے ایک دور میں وہ وقت بھی آ گیا جب این پی ٹی کے اخبارات ایک ایک کر کے بند ہوئے یا نجکاری کی بھینٹ چڑھ گئے۔ این پی ٹی ( نیشنل پرس ٹرسٹ ) کے اخبارات کے کارکن صحافی آزادی صحافت کے ساتھ روز گار کے تحفظ اور حق خدمت کا تعین کرانے کی جدوجہد میں ہمیشہ ہراول دستہ ہوتے تھے۔ اخباری صنعت کے مالکان کو معلوم تھا کہ جب تک یہ محفوظ قلعے فتح یا برباد نہیں ہوتے صحافیوں کے اتحاد کی قوت پارہ پارہ نہیں ہو سکتی۔
ایک حکمت عملی کے تحت مالکان نے این پی ٹی کے اخبارات کے بعض بڑے ناموں کو اپنے ادارے تباہ کرنے کا مشن سونپا اور ان کا حق خدمت لگا دیا۔ ان ڈبل ایجنٹوں میں بہت سارے قبروں میں جا سوئے چند ایک زندہ ہیں۔ ان کے خاندانی پس منظر اور تازہ حالات کا موازنہ ساری کہانی کھول دیتا ہے۔ این پی ٹی کے اخبارات کو انجام تک پہنچا کر ایک نئی حکمت عملی اختیار کی گئی اس میں پریس کلبوں کو صحافیوں کی یونینوں کی جگہ معتبر بنوایا گیا۔ مالکان کے اشارے اور خود حکومتوں کی ضرورتوں نے پریس کلبوں پر نوازشات کروا دیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صحافیوں کی یونینیں ماضی کا قصہ ہوئیں۔ رہی سہی کسر پی ایف یو جے میں سیاسی مداخلت نے پوری کر دی۔ یوں آج کہنے کو تو پی ایف یو جے کے نام سے کئی گروپ مارکیٹ میں دستیاب ہیں مگر ان کا عملی کردار کیا ہے ۔صفر جمع صفر نتیجہ صفر۔
وہ لوگ جنہوں نے پی ایف یو جے کے پلیٹ فارم سے آزادی صحافت اور صحافیوں کے حقوق کے لئے دلیرانہ جدوجہد کی آزادی اظہار کے لئے ریاستی جبر و تشدد، قید و بند کی صعوبتیں خندہ پیشانی سے جھیلیں ان کی اکثریت آج کس حال میں ہے۔ چند ایک کے سوا جو مختلف شہروں میں اپنا اپنا گروپ رکھتے ہیں اکثریت آج بھی حالات کے رحم وکرم پر ہے۔ یونینوں کی تقسیم اور چٹی دلالوں کے لیڈر بن جانے کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
کہنے کو آج لکھنے پڑھنے اور بولنے کی بہت آزادی ہے لیکن یہ آزادی جمہوریت کو گالی دینے چند سیاستدانوں کی کرپشن کو اجتماعی کرپشن بنا کر پیش کرنے اور چیخ چیخ کر بات کرنے کو اگر صحافت کی آزادی کہتے ہیں تو تین کوس سے دونوں ہاتھ جوڑ کر سلام ہی پیش کیا جا سکتا ہے۔ کیسا المناک لمحہ ہے اہل صحافت کے لئے کہ جس پی ایف یو جے کے سربراہ کبھی منہاج برنا ۔ آئی ایچ راشد، حمید چھاپرا صاحب، نثار عثمانی جیسی شخصیات ہوتی تھیں آج اسی پی ایف یو جے کے مختلف دھڑوں پر مالکان کے وفادار اور مخبر قابض ہیں۔ یہ ایک مثال ہے۔ مدعا یہ ہے کہ پاکستانی صحافت اب دھندا ہے۔
کتنے لوگ جانتے ہیں کہ صحافت و صحافی کے بنیادی فرائض کیا ہیں؟ پی ایف یو جے کے دستور پڑھ کر دیکھ لیجئے۔ امید ہے کہ 50 فیصد لوگ صحافی کہلانے کے اس لئے حقدار نہیں رہیں گے کہ وہ ظاہراً تو صحافی ہیں مگر ان کے کاروبار کچھ اور ہیں اور ان دھندوں کا تحفظ وہ صحافت کے ذریعہ کرتے ہیں۔ یہی عذاب کم تھا کہ چھاتہ برداروں نے رہی سہی کسر نکال دی۔ الیکٹرانک میڈیا نے ماؤں کے پیٹ سے سینئر تجزیہ کاروں کی ایک کھیپ صحافت پر مسلط کردی جو تاریخ تو کیا عصری شعور اور علوم سے بھی بے بہرہ ہیں۔ یہ چھاتہ بردار صحافت کو گالی بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
صحافت کے ہم ایسے طالب علموں کے لئے اپنا کوچہ ہی اجنبی ہے۔ آج بھی کارکن صحافیوں کی ایک اکثریت قانونی حقوق سے محروم ہے۔ چند دلال ٹائپ لیڈر عیش کر رہے ہیں اور کارکنوں کے آنگنوں میں اُتری شام غریباں ان کی موت کے ساتھ بھی رخصت نہیں ہوتی۔ چاپلوسوں کے ٹولے ہیں جنہوں نے ہر طرف قبضہ کررکھا ہے۔ نظریات دائیں کے ہوں یا بائیں بازو کے اب رہے نہیں۔ کمرشل ازم نے ہر چیز تباہ کردی ہے۔
نصف صدی سے صحافت کے کوچے میں قلم مزدوری کرتے زندگی کی گاڑی کھینچتے اس طالب علم کو حیرانی ہوتی ہے کہ یہ کیسی آزادی صحافت کی باتیں کرتے ہیں جس میں ایک سب ایڈیٹر کی تنخواہ گریڈ 9 کے سرکاری ملازم سے کم ہے۔ معاف کیجئے گا اس ملک میں آزادی صحافت نام کی کوئی چیز نہیں، جو ہے وہ مالکان اور اداروں کے مفادات ہیں۔ کارکن صحافیوں کا کوئی حال نہیں۔ جانوروں سے بدتر برتاؤ ہوتا ہے ان سے۔ میری بیٹی مستقبل میں صحافی بننے کے لئے تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ سوچتا ہوں جب وہ عملی میدان میں قدم رکھے گی تو کیا سوچے اور کہے گی۔ خدا کرے کہ اُسے ان حالات، جبر اور استحصال کا سامنا نہ کرنا پڑے جن سے ہماری نسل لڑتے لڑتے اب قبرستان کے دروازے پر کھڑی ہے۔ لیکن کیا محض دعاؤں سے حالات بدلتے ہیں؟ کم ازکم میرا جواب نفی میں ہے۔
صحافت کے شعبہ میں اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن اس سے پہلے پی ایف یو جے اور اس کی ذیلی تنظیموں کو یونین کے دستور و منشور کی رہنمائی میں پھر سے منظم کرنا ہوگا۔ کاش ہماری اگلی نسل آزادی صحافت کی حقیقی منزل حاصل کر لے اور آزادی اظہار کی معراج پر کھڑے ہو کر مظلوم طبقات کی ہمنوائی کر پائے۔ ابھی یہ تو یہ صورت ہے کہ ہیچ پوچ منہ بھر کے پاکستانی صحافیوں کو گالی دیتا ہے۔ ہر مذہبی سیاسی جماعت کے نزدیک صحافی وہی ہے جو ان کا ہم خیال ہو اور ان کے لیڈر کو خدا کا براہ راست تربیت یافتہ قرار دے۔ باقی راندہ درگاہ اور گردن زدنی ہیں۔ ان حالات میں اپنی بات کہنا لکھنا کس قدر مشکل ہے اس کا تصور منہ پھاڑ کر گالی دینے والے نہیں کر سکتے۔ اسی طرح ہم اس تلخ حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ جس طرح مالکان نے صحافتی تنظیموں کو تباہ کروایا، بالکل اسی طرح اس ریاست نے چھاتہ بردار ٹوڈی مخلوق کے ذریعے بطل گری (ہیرو ورشپ) کا دھندا کروایا۔ ان سب سے کب جان چھوٹے گی؟ یہ وہ سوال ہے جس پہ قلم مزدوروں کو غور کرنا ہوگا لیکن کیا معاشی استحصال اور ابتر حالات قلم مزدوروں کو سوچنے کے لئے چند پرسکون لمحے مل پائیں گے؟

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: