عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید تصنیف حیدر ہندوستان سے اردو شاعری کی ایک توانا آواز ہیں ( اگرچہ یہ جملہ بہت پائمال ہوچکا ، ہر کس و ناکس کے لئے بولا گیا مگر تصنیف مجھے لگتا ہے کہ اس کا حقدار ہے ) ان کی شاعری کی کتاب “نئے تماشوں کا شہر ” حال ہی میں دلّی سے شایع ہوئی ہے -اس کتاب کو پی ڈی ایف فارمیٹ میں انہوں نے مجھے بھی بھیجا ، ان کی مہربانی کہ مجھے اس قابل خیال کیا
” نئے تماشوں کا شہر ” کو انہوں نے ” فاطمہ خان ” کے نام کیا ہے اور ایک شعر ان کے نام کیا
طلسم شب کے مقفل کواڑ کھولنے ہوں
تو اس کا ایک کلیدی خیال فاطی ہے
فاطمہ خان مری بھی فیس بکی دوست ہیں ( محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی ، انٹرنیٹ کے آنے سے پہلے قلمی دوست کی اصطلاح معروف تھی اور اب فیس بکی دوست کی ، ان دونوں میں مشترک یہ ہے کہ یہ دوستی ” مکان ” کے مختلف ہونے پر ہے کہ ایسی دوستی میں دو دوستوں کا مکان ایک اکثر نہیں ہوپاتا ، زمان بوقت ملاقات ایک ہوتا ہے مکاں نہیں ) اور مجھے تصنیف حیدر کا اسی مذکورہ کتاب میں یہ شعر پڑھنے کو ملا
خدا کا رنگ نہ بھورا ، نہ آسمانی ہے
اسے بھی راس وہی سیر لامکانی ہے
فیس بک پر دوستی بھی اکثر سیر لامکانی ہی کی طرح سے ہے اور یہ کئی قباحتوں سے بچاتی بھی ہے تو کئی قسم کی تشنگیوں سے آشنا بھی کرتی ہے ، ویسے میرا جی اگر اس دور میں زندہ ہوتے تو وہ زمان کے ساتھ متصل ہوکر لامکانی وصال کی وہ وہ وارداتیں کرتے کہ جس کا تصور کرنا مرے لئے کچھ محال سا ہے
تصنیف حیدر نے اپنی شاعری کی پہلی کتاب میں آغاز میں لفظ سے اپنے رشتے ، تعلق اور فن شاعری بارے اپنے خیال کو بیان کرنے کے لئے ایک تحریر لکھی ہے جسے اس نے ” دیباچہ ” کہنے کی بجائے ” دیباچہ نما ” کہا ہے اور اس کی شخصیت میں جو ایک ” اندر کی ٹوٹ پھوٹ ” ہے جس سے اس کے ظاہر کی وحدت بنتی ہے کا عکس بھی جھلکتا ہے – اس نے اس دیباچہ نما کو ” سیانے شاعر کی گاتھا ” کا نام بھی دیا ہے
گاتھا سنسکرت زبان کا لفظ ہے اور جین و بدھ مت کے جو مقدس متون پراکرت میں لکھے گئے ان کو گاتھا کہا جاتا ہے اور اس کے لفظی معنی ہندی میں ” بھجن یا گیت ” کے ہیں تو سیانے شاعر کا بھجن یا گيت کیا ہے ؟ بلکہ اسے سیانے شاعر کی ذھنی کیفیت کی داستان بھی کہا جاسکتا ہے – ویسے تصنیف نے اپنے لئے ” سیانے ” کا جو لفظ چنا ہے وہ غلط نہیں ہے اور نہ ہی جھوٹی تعلی ، سیانا تو وہ واقعی ہے
لفظ سے اس کا تعلق کب سے ہے اور اس تعلق کے دوران وہ کن مرحلوں سے گزرا اس نے چند الفاظ ميں یہ کہانی بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور مرے خیال میں وہ اس میں کامیاب رہا ہے
تحریر کا رواج جب سے ہوا ہے
تب سے کاغذ نے اپنا دھانہ کھول دیا ہے
اور لفظ کی فصلیں کاٹی جارہی ہیں
اناج بھرپور ہے
یہ لفظ تانبے کے ، پیتل کے ، سونے کے یا پھر کسی اور دھات کے
کیسے اگائے جاتے ہیں
یا پھر کہاں بو ئے جاتے ہیں
تصنیف لفظ کی تاریخ کو ” کن ” سے شروع کرنے بارےمتشکک ہے اور وہ ” کن ” سے پہلے کیا تھا اسے جاننے کا مشتاق بھی ہے ، یہاں تک کہ اسے یہ بھی جاننے کی چاہ ہے کہ ” کن ” لفظ کا خالق خود کب صفت تکلم سے متصف ہوا تھا ؟ یہ سوال اس قدر اہم ہے کہ پوری مسلم تاریخ اس سوال کا جواب تلاش کرنے والے کلامی مسالک سے بھری پڑی ہے ، قرآن کے مخلوق ہونے نہ ہونے جیسا معرکہ بھی اصل میں اسی سوال کی بازگشت تھا اور تصنیف کو اعتراف ہے کہ یہ سوال خود اتنا چمکدار ہے کہ اس سے اس کی آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں
تصنیف نے “دیباچہ نما ” میں شاعری کی جانب اپنے اولین رجحان بارے لکھتے ہوئے اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے بہت تفصیل سے بتاتا ہے کہ ممبئی شہر میں تھانہ سٹی کے اندر وسئی نام کے علاقے میں جب اس کا خاندان ایک نئی نویلی ، دھلی دھلائی بلڈنگ میں منتقل ہوا تو اس کی چھت پر وہ اپنی ڈائری لیکر بیٹھ جاتا تھا اور اس وقت شاعری بارے اس کا خیال تھا کہ بس ناک کی سیدھ میں دور دور تک پیھلے سمندر سے اچانک جناب خضر براق گھوڑے پر سبز قبا میں نمودار ہوں گے اور الفاظ کے لعل و زمرد اس کے دماغ میں انڈیل دیں گے ( ہوسکتا ہے ابتداء میں یہ خیال اتنا مسجی و مقفی نہ ہو مگر ہوگا اس کے آس پاس ہی —- ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ) تصنیف نے بھی کئی اور نئے نئے شاعری کے میدان میں قدم رکھنے والوں کی طرح شاعری کو کسی دیوتا کا وردان ، کسی کرن کا کوج ، کسی عمرو عیار کی زنبیل یا کسی شاہ جہاں کے تعمیری خواب کی دین خیال کیا اور یہ اسکو معلوم تھا کہ یہ جوہر ہر کس و ناکس کے حصّہ میں نہیں آتا ، اس زمانے میں تصنیف نے جو لکھا ، وہ ہمارے سامنے نہیں ہے لیکن تصنیف کے بقول اس کے والد فصیح اکمل کے پاس وہ ڈائری اب بھی سینت کر رکھی ہوئی ہے جس میں انہوں نے اپنی ابتدائی شاعری کو محفوظ کیا تھا
تصنیف حیدر بہت دیر اس کیفیت میں نہ رہے جس کا زکر انہوں نے ” لفظ ” سے اپنی شیفتگی کو بیان کرتے ہوئے کیا اور ان کے بقول بہت جلد ان کی ساری حیرتیں ، سارے الفاظ ساری مشقتیں اور ساری خوشیاں کافور ہوگئیں اور اب وہ جس کیفیت میں ہیں وہ اسے ” الجھتی سلجھتی کیفیت ” کہتے ہیں جس میں انہیں پرانی رومانویت سے بھری حالت اور خیالات سب ” فراڈ ” سے لگتے ہيں اور ان کا تجربہ شاعری یہ بتاتا ہے کہ
شاعری کرتے رہنے کے باوجود اس تجربے کی دنیا میں بےچینی اور بدحواسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگتا ہے
تصنیف حیدر کہتے ہیں کہ ان پر ایک “انکاری کیفیت ” طاری ہوئی ہے اور ہر اس چیز کا انکار وہ کرتے ہیں جو ان کو کسی نہ کسی بہانے سے ” تکمیلیت یا معراج ” کی اور لیجاتی ہو ، کمال کی بات کی ہے تصنیف نے کیونکہ اصل میں یہ نام نہاد اکمال اور نام نہاد ” صعود ” ہے
مجھے تصنیف کی شاعری کی کتاب آنے سے پہلے اور سیانے تصنیف کی گاتھا پڑھنے سے پہلے بھی ہلکا سا خیال تھا کہ اس نے ” ارضیت ” کو پالیا ہے اور اسی لئے اس کے ہاں ” تکمیل پانا ، مکمل ہوجانا اور معراج شاعری کو چھولینے جیسی باتیں نقص کی علامت ہیں اور اب یہ پڑھکر مجھے اپنے احساس کے ٹھیک ہونے پر یک گونہ خوشی بھی ہے
تصنیف کی ایک معصوم سی نراجی خواہش اور آرزو یہ ہے کہ ساری دنیا کے لوگ اسی کے رنگ مين رنگ جائیں اور وہ ” آزادی اظہار ” کے نام پر ہر گناہ ، ہر لذت کو قبول کریں جس سے اس کو اطمینان نصیب ہوتا ہے – یہ اباحیت کے فلسفے کے قریب ہونے کی نشانی ہے لیکن مجھے اس میں ایپی کیورس چاہ نظر آتی ہے
یہاں مجھے تصنیف کے اس نظریہ فن کو پڑھتے ہوئے خیال آیا ہے کہ شاعری اور فن کی دنیا میں تصنیف نے خود جس روایت سے جوڑا ہے اسے ہم ادب کی تاریخ میں
Dissenting tradition
انحرافی روایت بھی کہہ سکتے ہیں اور یہ خیال مجھے یونہی نہیں آگيا بلکہ حال ہی میں ، میں ایڈورڈ سعید کا ایک لیکچر
Freud and Non – Eroupians
پڑھ رہا تھا تو اس میں ایڈورڈ سعید سگمنڈ فرائيڈ کی اپنی ” تہذیبی ، ثقافتی بشمول مذھبی شناخت ” کے سوال کو زیر بحث لاتے ہوئے فرائڈ کو
Non Jewish Jew
اور اس نے یہ خیال
Issac Deutcher
سے لیا اور بقول ایڈورڈ سعید
Issac Deutcher
نے لکھا تھا
A major dissenting tradition within Judaism is constituted by heretical thinkers like Spionza , Marx , Heine and Freud ; these were peophets and rebels who were persecuted and excommunicated by their own communities . Their ideas were powerful critiques of their societies ; they were pessimists ……….
مرے خیال میں یہ جو ” انحرافی روایت ” ہے یہ مطلق ادبی تاریخ کے اندر پائی جاتی ہے اور یہ ٹھیک ہے کہ ” یہودیت کی تاریخ میں اس کو سپنوزا ، مارکس ، ہائن ، فرائیڈ وغیرہ نے تشکیل دیا ہوگا ” تصنیف کا فن شاعری بھی اسی طرح کی انحرافی روایت کا آئینہ دار ہے جس کے اندر ریس ، مذھب اور قوم ، ملک وغیرہ کے ساتھ جڑی اینگزائٹی ، بغاوت ، انحراف ، تشکیک سبھی ہے اور ہم اسے تصنیف کے باب میں ” نان شیعی شیعیت و ادبیت ” کا نام دیں تو غلط نہ ہوگا – تصنیف نے ناجانے کس لہر میں ایسی دنیا کی تخلیق کرنے کی بات کی جس کی تہذیت ہی غیر تمدنی اور غیر ثقافتی رویے کی قائل ہو مگر مجھے یہ ایڈورڈ سعید کی بات کے قریب لگتی ہے – آپ تصنیف کو ” نراجیت پسند ” ہونے یا اباحیت پسند ہونے کا ” طعنہ ” دے سکتے ہیں جب وہ یہ کہتا ہے کہ اس کی آزوئے تخلیق ایسی دنیا کی پیدائش چاہتی ہے جس میں تہذیت غیر تمدنی و غیر ثقافتی ہو اور اس دنیا کے باسی کسی اصل و قاعدے یا کھونٹے سے بندھے نہ ہوں ( ویسے رسل نے بھی ایسی ” عبادت ” کی تلاش کی تھی جو مطلق آزاد انسان کی ہو )
شاعری تصنیف کے ہاں ایسا فن ہے جو ایسے لفظ کی تلاش ہے جسے ابتک پایا نہیں جاسکا اور وہ باطن سے زیادہ ظاہر کی الجھنوں میں ڈوبی ہوئی بغاوتوں سے متصف ہو ، ایسا فن جو رگوں سے چٹخ کر پھوٹ پڑے اور لہو کی طرح آنکھوں سے ٹپکے ، دوسرے معنوں میں ایسا فنکار بننے کی آرزو جو ” خدا ہونے کی کوشش ہو اور اس میں مارا جائے
ابد تک لفظ کی صورت پکارا جاؤں
میں کس جنگل میں اے مولی اتارا جاؤں
خوشی ہوگی مری تخلیق کاری کو
خدا ہونے کی کوشش میں مارا جاؤں
اس نے ٹھیک ٹھیک پہچان لیا کہ شاعری کا فن اصل میں ایسے استعارے کی تخلیق ہے جو جوڑی چکلی تاریخ کو سیال جیسی شکل دینے کی سعی ناتمام ہے اور اس استعارے کی تخلیق واقعی وقت مانگتی ہے ، یہ بقول تصنیف اپنی تربیت کرتے رہنے کا کرب ہے – اس تربیت کے دوران تصنیف نے کلاسیکل شاعری کے مہان ستاروں بارے جو چند فقرے لکھے وہ بھی کمال کے ہیں
اسے رومی کی ابیات شرق و غرب پر سحر پھونکتی ، فرودوسی کی نظر غزنوی کے گھوڑوں کی دھول پر ، سعدی کی شاعری دریافت رنگ ہائے موسم پر ، جائسی پدماوت کی چھاتیوں پر ، حافظ کی شاعری عشق کا بار اٹھائے ، میر ملگجے تصوف پر ایک امرد پرست باریش صوفی کی طرح مسند شاعری پر ٹیک لگائے ، غالب اپنے سامنے پڑی ہوئی مایوس اور سڑتی ہوئی اموات سے زندگی کے ریشے چن چن کر نکالتے ہوئے ، اقبال کا اسلوب اپنی تمام تر تنگ نظری کے باوجود آسمان سے اترا صحیفہ لگتا ہے
پوسٹ کلاسیکل دور میں تصنیف کو ” ترقی پسندوں کے نعرے ان کے حلق میں اٹکتے ہوئے ، رومانویت پسند شاعروں کی نظریں عورت کے ساق سیمین پر گرنے کے بعد بھلائے جانے پر ، جدیدیت کی آواز دیوار ادب سے اپنے حصّے کی مٹی کھرچنے کے بعد الگ ہوتی ہوئی اور باقی کے شاعر اپنی شناخت تلاش کرتے نظر آتے ہیں اور تصنیف کی تعلی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ وہ اس سارے ماحول کو ” جما ہو ” کہہ کر مستقبل میں خود کو پگھلتا دیکھ رہا ہے
حکائت غم دوراں جو اتنی رنگیں ہے
یہ سوچتا ہی رہا ہوں کہ سادہ کیسے ہو
ہزار تجھ سے محبت سہی لیکن
سوال یہ ہے کہ خود سے زیادہ کیسے ہو
تصنیف حیدر نے ” نئے تماشوں کا شہر ” میں اپنی شاعری کو دو ادوار میں بانٹا ہے اور ایک دور 2012ء سے پہلے کا ہے اور دوسرا 2012 ء سے 2015 ء کا ہے اور اوائل دور میں اس نے جتنے شعر اس کتاب میں شامل کئے ہیں ، وہ طلسم شب کے کواڑ کھولنے کی ابتدائی کشا کش اور اس سے جنم لینے والی اینگزائٹی کے عکاس ہیں لیکن دونوں ادوار کی شاعری میں ” جسم کا سوال اور ظاہر کی الجھنوں می ڈوبی بغاوتوں ” سے نبرد آزما ہونے کے حوالے سے ایک سا ہے ، اگرچہ اولین دور ميں تصنیف حیدر ” خدا ہونے یا اپنے محبوب کو خدا بنانے ” میں زیادہ مصروف لگتا ہے ، اور اسے دوسرے بھی ” خدا کماتے ” نظر آتے ہیں
اور محبوب بھی ایسا کہ جو ” بے وفا نظر آتا ہے
ہمیں بھی دیکھ زرا اے وفا کہ ہم جیسے
تمام عمر اک بے وفا کماتے ہیں
بڑے عجیب سے ہیں یہ شکستہ حال لوگ
خدائی بیچتے ہیں اور خدا کماتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چراغ کم سخنی کی ہوا بنانے میں
میں خرچ ہوگیا اس کو خدا بنانے ميں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصنیف کو یہ سب ” زندگی ” سے مربوط لگتا ہے اور اسے محسوس ہوتا ہے کہ
زندگی تھی تو بڑی سرکش تو بالآخر اپنی
زیر کرنے میں اسے ساری توانائی گئی
تصنیف مجھے اس لئے بھی پسند ہے کہ اس کے ہاں ” عشق ” کوئی نوفلاطونی ، غیر ارضی ، ماورائے جسم و خدوخال کوئی باطنی سا ، غیر سفلی و غیر ارضی سا عمل نہیں ہے اور اس کے دونوں ادوار شاعری میں اس کا یہ یقین کہیں متزلزل نہیں ہوا
کسی کی آگ کو مٹی سے آب کرتا رہا
میں اپنے آپ کو شب بھر خراب کرتا رہا
—–
اے عہد رفتہ تجھ کو تو یاد ہوگی شاید
کیا بات تھی وہ اس پر ہم شاد ہوتے رہے
——-
سوائے جسم کے کردار ہی نہیں کوئی
مرے فسانے سے لے کر تری کہانی تک
——
بری بھلی میں ترے جسم میں گزارتا ہوں
یہاں سے دیس نکالا نہ ہو تو بہتر ہے
——
تصنیف کے ہاں ایک دو اشعار ایسے ہیں جو عشق میں بس ایک تک محدود ہونے کو عشق خیال کرنے کی بات کی تائید کرتے ہیں
پھر اس کے عشق کا دعوی کروں تو کیسے کروں
مرا بدن تو سبھی کو قبول کرتا ہے
وہ مجھ کو قرض میں دیتا ہے ایک رات اپنی
اور اس کے بعد کئی دن وصول کرتا ہے
————
تمام لوگ جسے کہہ رہے ہیں دن کا خدا
مجھ پہ یہ آیہ شب کا نزول کرتا ہے
——————-
پھر اس نے جسم کی تکمیل جسم سے کردی
میں چاہتا تھا کہ یہ واقعہ ادھورا ہو
———–
ہم تو صدیوں سے ترے ساتھ بسر کرتے ہیں
تجھ کو اک رات میں کیسے کوئی حاصل کرپائے
———–
دشت بھر میں کبھی پھیلا تو پھر اس کا بدن
آگیا سمٹ کر ایک مشت خاک پر
جانے کس شب کے حصّے میں تھا وہ چاندی سا بدن
جانے وہ پگھلا تھا کس کی خواہش بے باک پر
( کیا تجاہل عارفانہ ہے )
ہے رات بے لباس ترے جسم کی طرح
اور دن کے پاس کوئی لبادہ نہیں ابھی
—–
میں نے اپنے جسم پہ وہ سندروری جسم سجایا ہے
مری سانسوں میں زندہ ان سانسوں کا سرمایہ ہے
———
چاہتا بھی ہوں کہ اک دن وہ مجھے کھلا پڑھے
جبکہ اس کے سامنے ہی کم نما رہتا ہوں
کیوں نہیں کہتا خدا سے بھی کہ مل جائے
کون ہے جس کے لئے خاموش سا رہتا ہوں
————
تصنیف ‘ عشق ” میں اپنے دخل کو زرا بھر نہیں سمجھتا
تو ہی بتا اگر دخل ہوتا مرا کچھ
تو پھر میں تیری ہی آنکھوں سے عشق کیوں کرتا
————
تصنیف کی شاعری کے دوسرے دور میں ” بدلاؤ ” کی تفہیم کا تذکرہ بہت ہے اور اس کا آغاز ہی اس شعر سے ہوتا ہے
ہوں ریگ وقت سو مٹھی سے پھسل گیا ہوں
تو لاکھ اس سے یہ سمجھے کہ میں بدل گیا ہوں
————
مری سرشت میں ہے بے وفائی برسوں سے
سو اپنا کام نکالا اور نکل گیا ہوں
کبھی کبھی تو ترے ساتھ دیکھکر اس کو
میں کتنا تنگ ہوا ہوں ، کتنا جل گیا ہوں
—————-
اس دور کی شاعری میں تصنیف کی کیفیت تلاش اور کسی بے وفا کو کمانے کی بجائے بس ہستی سے جان چھڑانے کی سی نظر آتی ہے
کچھ ایسی بات کبھی چھیڑ چھاڑ میں کی جائے
کہ سب حقیقت ہستی کباڑ میں جائے
میں سوچتا ہوں بہت اسکو اور پھر خود ہی
یہ سوچتا ہوں کہ وہ شخص بھاڑ ميں جائے
ہمیں کیا حس اساطیر کی تلاش میں تو
بلا سے بابل و مہن جوداڑ میں جائے
—————-
میں نے سب آہ دبائی ہوئی ہے مٹھی میں
اور تو ریت کی مانند نکلتی ہوئی
——–
میں جانتا ہوں ترے تعلق کی خموشی
دراصل مری بیان بازی پر برہمی ہے
۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ تیرا بخار مجھ پر چڑھا ہوا ہے
مگر مجھے خبر ہے اس کی کہ موسمی ہے
——–
یہ جو سب کار ناتمامی ہے
صرف اک جسم کی غلامی ہے
—–
تصنیف کے ہاں طنز کی نوعیت بھی انحرافی روایت سے اس کی وابستگی اور عیاں کرتی ہے
شب تعمیر کی جبیں پر دیکھ
حرف مسمار ہی دوامی ہے
—–
بچا کچھا ہوا اک آدمی کا حساب
ابھی تو اور ملے گا خدا کے کھاتے میں
———-
کیا وصل ہے کہ کمبخت نے مزے کے ساتھ
مرے تمام بدن کو ادھیڑ ڈالا ہے
—–
پلٹ کر دیکھ رہا تھا تھا خدا کو میں لیکن
وہ ایک اور تماشے کو تھا بناتا ہوا
———
وہ جستہ جستہ جسم کو کھائے تو دیکھنا
قصّہ کوئی بدن کا دکھائے تو دیکھنا
———
تصنیف جہنم اور جنت دونوں کے ہاں جبر دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ
ایک جہنم دجاّلی ہے ، ایک جنت شدادّی ہے
اس میں جلنے کی ،اس میں خوش رہنے کی آزادی ہے
واقعی تصنیف چاہتا یہ ہے کہ جہنم ميں خوش رہنے اور جنت میں جلنے کی بھی آزادی ہو نہ کہ ایک ہی اختیار اور پھر باقی پر پابندی ، یہ اختیار تو نہیں ایک اور طرح کا جبر ہوگیا
تصنیف حیدر کی شاعری کی یہ پہلی کتاب مجھے اس کے جسم کی آپادھاپی کے اندر چھپے فتنوں کی قرضا قرضی لگتی ہے اور اس کی بے چین اور منہ پھٹ طبعیت کہ
میں تو سلیم احمد جیسوں کو حالی کرکے دیکھوں
سلیم احمد حیات ہوتے تو شاید ایک نیا معرکہ دیکھنے کو ملتا – تصنیف کس قدر ارضی ہے کہ اس کے ہاں یہ شعر بھی پڑھنے کو ملتے ہیں کہ
ہوس کی شکل تھی یہ بھی کہ کرفیو میں اسے
نظر جو آئی تو ایک لیڈی کانسٹیبل ہی
اور اس کا یہ شعر بھی بہت کمال کا ہے کہ
اس عورت کی عمر پچاس کے پیٹے میں تھی
لیکن وہ اب بھی آنکھ کے لپیٹے میں تھی
اس کتاب میں درجنوں اشعار ایسے ہیں جو تصنیف حیدر کی وال پر ہیں لیکن اس کتاب میں نہیں اور حالیہ کچھ ہفتوں میں جو ان کی وال پر ظاہر ہوئے وہ اس کتاب میں شامل کئی اشعار سے کہیں زیادہ توانا ہیں جو ان کے فن شاعری کے بہتر سے بہتر تر ہوجانے کی علامت ہے اور آخری صفحے پر تصنیف نے اپنی بھانجی کے دم قدم سے ہونے والی برکت اور اپنے والدین ، بھائیوں ، بہنوں ، دوست احباب اور دشمن سب کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کی شاعری کے رنگ کہیں نہ کہیں ان سب کی مرہون منت ہیں ، میں نے اخری صفحہ پڑھا تو مجھے خیال آیا کہ یہ شاعری اور اس کے لئے انسپائریشن کا ” مدار المہام ” جو بنی اس کا تذکرہ نام کے ساتھ انتساب میں موجود ہے اور پھر اس سے ملنے والی انسپائریشن ہر دوسرے تیسرے شعر میں جھلکتی ہے ، اتنی ایمانداری برتے ہوئے فنکار کم ہی دیکھے گئے ہيں ، کیا ہی اچھا ہوتا اگر تصنیف اس کتاب کا اختتمام ان اشعار پر کرتے
فاطمہ خان کے گھر پر کبھی جانا ہو تو
مری آنکھوں میں محبت کا بہانہ ہو تو
چھپ کے دیکھی ہے بہت اس کے بدن کی صورت
کیا ہو اک روز اگر اس کو دکھانا ہو تو
مجھ سے اس طرح کی باتیں نہیں کرنا تصنیف
زندہ رہنا ہو اگر مار نہ کھانا ہو تو
میں تو شرماتا ہوں اپنی ہی پذیرائی سے
اور اس کا بھی ہنر اس میں ملانا ہو تو
تصنیف صاحب ! نئے تماشوں کا شہر میں آپ نے فاطمہ خان کے ہنر کو اپنے ہنر کے ساتھ ملاتو دیا ہے اور اس سے جو آب و تاب ابھری ہے اس کتاب میں اس کے کیا کہنے
سوچ رہا تھا کہ بس یہیں گفتگو کو تمام کردوں گا لیکن خیال آیا کہ ان اشعار کو یہاں درج کئے بنا بات بننے والی نہیں ہے
قلم سے لکھتا نہیں میں، سو میرے مائوز میں
عجیب رنگ کی اک روشنائی لگ گئی ہے
بھلا ہوا مری تنہائی کا کہ کیا مرگیا میں
برا ہوا کہ اب اس کو جدائی لگ گئی ہے
یہ رات میں نے خریدی ہے زندگی دے کر
اور اس بدن میں مری پائی پائی لگ گئی ہے
زمیں پہ رہتے ہوئے میں خلا میں زندہ ہوں
مری زبان کو لت ماورائی لگ گئی ہے
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر