حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالآخر امریکی سازش سے بنی حکومت کے ساتھ تحریک انصاف مذاکرات کی میز پر بیٹھ ہی گئی ۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ یہ مذاکرات سپریم کورٹ کے حکم پر ہورہے ہیں۔ غالباً اسی لئے گزشتہ روز چیف جسٹس نے شاہ محمود قریشی کو عدالت میں سیاسی گفتگو سے منع کرتے ہوئے بیٹھ جانے کا کہہ دیا تھا حالانکہ وہ چیف جسٹس کو مذاکرات کے لئے ‘‘اپنی ترجیحات‘‘ بارے اعتماد میں لینا چاہتے تھے۔
بہرحال گزشتہ سے پیوستہ شام پی ٹی آئی اور حکمران اتحاد کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور ہوا۔ تحریک انصاف نے مذاکرات کے اگلے مرحلوں کے لئے تین شرطیں رکھی ہیں۔
پہلی یہ کہ پورے ملک میں ایک ہی دن انتخابات کے انعقاد کے لئے قومی اسمبلی اور سندھ و بلوچستان کی صوبائی اسمبلیاں قبل از وقت تحلیل کی جائیں اور جولائی تک انتخابات کی تاریخ طے کی جائے۔
دوسری یہ کہ دو صوبوں میں 14مئی کے علاوہ ایک ساتھ انتخابات کے لئے آئینی ترمیم کرنا ہوگی اس کے لئے تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کا فیصلہ واپس لیا جائے تاکہ ہم ایوان کی کارروائی میں شریک ہوں۔
تیسری شرط پی ٹی آئی کے لوگوں کے خلاف درج مقدمات واپس لینے کی ہے۔
استعفوں کا معاملہ بڑا دلچسپ ہے۔ شاہ محمود قریشی کی قیادت میں ہی استعفوں کا اعلان کرکے پی ٹی آئی کے ارکان ایوان سے نعرے لگاتے ہوئے رخصت ہوئے تھے۔ پی ٹی آئی کا موقف تھا کہ ہمارے ڈپٹی سپیکر نے اجتماعی استعفوں کی منظوری دے کر الیکشن کمیشن کو آگاہ کردیا تھا۔
اس معاملے کو لے کر پی ٹی آئی عدالت میں بھی گئی کہ نومنتخب سپیکر استعفوں کے معاملے میں غیرقانونی اقدامات میں مصروف ہیں، ہمارے استعفے منظور کئے جائیں۔
دوسری بار عدالت میں یہ درخواست دی گئی کہ ہمارے استعفے قسط وار نہیں اکٹھے منظور کئے جائیں تیسری درخواست میں کہا گیا ہمارے استعفے منظور نہ کئے جائیں۔
اسی عرصے میں متعدد خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے عمران خان سات نشستوں سے تنہا امیدوار بنے چھ سے کامیاب ہوئے اور ایک سے شکست کھاگئے۔ ضلع ملتان کی ایک نشست زین قریشی نے خالی کی اس پر ضمنی الیکشن میں شاہ محمود کی صاحبزادی کے مقابلہ میں علی موسیٰ گیلانی جیت گئے
بعد ازاں قومی اسمبلی کی درجنوں خالی نشستوں پر انتخابی عمل کے خلاف حکم امتناعیوں کی موسلا دھار بارشیں ہوگئیں ۔ دو صوبائی اسمبلیاں توڑنے کے حوالے سے عمران خان کا موقف ہے کہ اس کے لئے انہیں سابق آرمی چیف نے اس وقت مشورہ دیا تھا جب وہ صدر عارف علوی کی موجودگی میں ایوان صدر میں جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملے تھے۔
ایوان صدر میں پچھلے برس عمران اور باجوہ کی دو ملاقاتیں صدر عارف علوی کی سہولت کاری سے ممکن ہوئی تھیں۔
یہ سطور لکھنے سے کچھ دیر قبل اسلام آباد ہائیکورٹ میں اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ’’میں نے شاہ محمود قریشی اور فواد چودھری کو ہدایت کردی ہے کہ حکومت سے الیکشن کے علاوہ کسی بھی معاملے پر بات نہیں ہوگی”
حکمران اتحاد وقت سے پہلے قومی اور دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے پر راضی نہیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم دیگر وزراء اور ارکان اسمبلی نے اس حوالے سے قومی اسمبلی میں بڑے واضح انداز میں اپنا موقف ایوان کے سامنے رکھا۔
قبل ازیں یہ تاثر تھا کہ (ن) لیگ وقت سے پہلے اسمبلیاں تحلیل کرنے پر آمادہ ہے گزشتہ سپہر اس تاثر کی نفی ہوگئی۔ استعفے دے کر ایوان سے نکلنے سے اب تک کے ایک برس میں تحریک انصاف نے حکومت گرانے کے جتنے جتن کئے وہ ’’ہوا‘‘ ہوئے
یہاں تک کہ مبینہ قاتلانہ حملے کی کہانی بھی ’’ہٹ‘‘ نہیں ہوسکی۔ گو عمران خان اس ڈبہ کہانی میں ہر چند دن بعد رنگ آمیزی کرتے ہیں مگر اس حقیقت سے وہ بھی واقف ہیں کہ ان کی کہانی ان کے اپنے دعوئوں کے بوجھ تلے دب گئی ہے۔
سپریم کورٹ کے جس تین رکنی بنچ پر انصافی واری صدقے ہو ہو جاتے تھے گزشتہ سپیہر کے بعد اس بنچ کے سربراہ بارے سوشل میڈیا پر انصافی یوٹیوبروں کے لشکر کی مہم بڑی دلچسپ ہے۔ جمعرات کی دوپہر تک سپریم کورٹ میں جو ہوا وہ انصافیوں کے اندازے کے یکسر برعکس ہوا۔
یہاں تک کہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب سوا گیارہ بجے عمران خان نے اپنے ” سات پیادوں ” کی بیٹھک میں اگلی صبح کے جس ’’عدالتی انقلاب‘‘ بارے انہیں اعتماد میں لیا وہ سفید جھوٹ ثابت ہوا۔
سپریم کورٹ کے باہر شاہ محمود ، فواد چودھری اور شیخ رشید کی حالت دیھکنے اور بونتری گفتگو سننے والی تھی۔
ایک ہلکی پھلکی بڑھک ’’اگر سیاسی جماعتیں متفق نہ ہوئیں تو پھر معاملات ایسے ہی چلیں گے جیسے چل رہے ہیں‘‘ مار کر سماعت غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی کردی گئی۔
معاملات کیسے چل رہے ہیں، جس 90 روزہ آئینی پابندی کی تین رکنی بنچ مسلسل دہائی دیتا رہا خود اس بنچ نے 90دن والی پابندی کی خلاف ورزی کی۔
جن بنیادی سوالات اور تنازعات کو محبتوں کے زم زم میں بہہ کر نظرانداز کیا وہ گلے پڑگئے۔
جمعرات کی سپہر قومی اسمبلی میں جو تقاریر ہوئیں ان پر معترض خواتین و حضرات بس صرف آئین کے اس آرٹیکل کی نشاندہی کریں جو سپریم کورٹ کو انتخابی شیڈول جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
صریحاً غلط انداز میں ازخود نوٹس لینے کی سفارش اور پھر ازخود نوٹس لئے جانے سے پیدا ہوئے عدالتی بحران کے آغاز سے اب تک ان سطور میں عرض کرتا آرہا ہوں کہ ساتویں گیئر میں گاڑی ڈال تو دی ہے لیکن یہ ذہن میں نہیں رکھا گیا کہ سڑکیں ہموار تو ہیں کہیں حادثہ تو نہیں ہوجائے گا۔
یہ بھی عرض کیا تھا کہ جو کردار تین رکنی بنچ نے اپنالیا ہے یہ دستور سے ماورا کردار ہے۔ نظام اور سیاست تو جب کھائیوں میں گریں گے سو گریں گے اس سے پہلے عدالت عظمیٰ بند گلی میں پھنس جائے گی۔
رہی سہی کسر آڈیو لیکس نے پوری کردی۔ فیصلوں کی بجائے جج بولنے لگیں تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
یہاں تو خاندان بولنے لگے تھے دو ٹوک انداز میں وضاحت کردوں کہ کسی جج کے خاندان کی کسی سیاسی جماعت کے قائد سے محبت جرم نہیں نہ ہی اجتماعات میں شرکت اور دیگوں پر بیٹھ کر لنگر تقسیم کرنا غلط ہے
البتہ ان جذباتی پھرتیوں سے جج کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی جعلی اسمبلی میں واپسی کی خواہش مند کیوں ہے امریکی ٹوڈی حکومت سے مذاکرات پر مجبور کیوں، ان دونوں باتوں پر مغز کھپانے کی ضرورت نہیں۔
یہ بدقسمتی ہے کہ حالیہ بعض فیصلوں نے پاکستانی نظام انصاف کے چہرے پر پڑا جھوٹ موٹ کا نقاب بھی اتار کھینچا ہے۔ پچھلے ایک سال میں جتنی ضمانتیں پی ٹی آئی کے لوگوں کو ملیں اور جتنے حکم امتناعی اس کی پچھتر سالہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
ہمارے کچھ دوست تواتر کے ساتھ قاسم سوری والی رولنگ پر لئے گئے ازخود نوٹس پر سوال کرتے ہیں کہ وہ درست تھا تو یہ غلط کیوں؟
مسلسل ان کی خدمت میں عرض کرتا آرہا ہوں کہ وہ ازخود نوٹس آئین شکن ٹولے کی سہولت کاری کے لئے لیا گیا تھا اور یہ محبتوں کے شجر کو بارآور کرانے کے لئے۔
صرف گزشتہ برس سے اب تک ہی نہیں پاکستانی عدلیہ نے ماضی میں بھی سیاسی معاملات میں خود کو الجھاکر اپنی ساکھ تباہ کی۔ خود تین رکنی بنچ کے دو ارکان سنگین الزامات کی زد میں ہیں۔
ایک رکن سندھ ہائیکورٹ کے دنوں سے اور دوسرے پر یہ الزام ہے کہ وہ اسلام آباد کی ایک عمارت کے مالکان کے وکیل رہے اور جب اسی عمارت کا کیس سپریم کورٹ میں آیا تو وہ اس بنچ سے الگ ہونے کی بجائے بنچ میں بیٹھ کر سابق موکل کے حق میں فیصلے سنانے والوں میں شامل تھے۔
خود بنچ کے سربراہ کی صاحبزادی کو پی ٹی آئی کے دور میں پیمرا میں ان کی تعلیمی قابلیت کے برعکس ایک بڑا منصب دیا گیا جس سے پچھلے برس وہ اس وقت مستعفی ہوئیں جب قاسم سوری والی رولنگ پر ازخود نوٹس ہوا۔
مناسب ہوتا اگر جو تماشے لگے یہ نہ لگ پاتے لیکن کیا کیجئے ’’سچیاں محبتاں‘‘ اظہار اور عمل کی متقاضی ہوتی ہیں۔
بہرحال گزشتہ روز سماعت ملتوی کرنے سے قبل جو باتیں کہی گئیں کاش انہیں پہلے مدنظر رکھ لیا جاتا۔
اب تو صورتحال یہ ہے کہ ’’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا سماعت ملتوی‘‘ کڑوا سچ یہی ہے کہ عدالت سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور دوسروں کو سیاست سے دامن بچاکر ہی رکھنا چاہیے۔
سیاسی عمل بندوق یا عدالتی ڈراوے سے آگے نہیں بڑھایا جاسکتا یہ سیاستدانوں کے جھمیلے ہیں وہ جانیں اور ان کے کام۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر