مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

باروچی خانوں میں چھریاں نہیں ہیں||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ایک ہفتے سے بڑی عجیب و غریب صورت حال کا شکار ہوں اور یہ صورت حال کئی ایک تضادات کو مری ذھنی حالتوں کے اندر سے جنم دینے کا سبب بن رہی ہے ،مجھے سب سے زیادہ شدت سے یہ بات پریشان کررہی ہے کہ اس وقت مرے اردگرد اور مجھ سے سنیکڑوں میل دور علاقوں میں جو صورت حال ہے اور اس سے جو المئے جنم لے رہے ہیں ان پر جو میں سوچتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں ان کے بیان کے لئے جس سٹائل اور اسلوب کی ضرورت ہے وہ مرے ہاتھ ٹھیک طرح سے لگ نہیں رہا ، اس طرح کا اسلوب جس میں غم دوران اور غم زات دونوں ایسے مربوط ہوں کہ دونوں کے لئے الگ بیانیہ کی ضرورت نہ پڑے اسی شش و پنج میں مبتلا تھا اور اپنی نیوز ایجنسی کی دی گئی ایک اسائنمنٹ کو پورا کرنے کے لئے احمد پور شرقیہ سے لیکر بلوچستان کے رکھنی سے ڈیرہ بگٹی تک کا سفر کرنا پڑا تو اس سفر کے دوران وہ مجھے کہنے لگا کہ
دیکھو !ان پہاڑوں کو کیسے مسکراکر تمہارا سواگت کرتے ہیں مگر ” اداسی ” اور ایک وجودی ” اینگزائٹی ” ان کے چہرے پر ثبت ہے اور بتاتی ہے کہ تمہارے سواگت کے لئے مسکراہٹ سجائی تو ہے مگر اندر کی ویرانی اور بڑھ گئی ہے
میں اس کی بات سنکر تھوڑا سا حیران ہوا لیکن جونہی میں کوہلو کے بلند وبالا پہاڑوں کی طرف گاڑی سے سر باہر نکال کر دیکھا تو واقعی مجھے لگا کہ پہاڑ حزنیہ مسکراہٹ سے مرا سواگت کرتے ہیں اور اسی دوران مجھے احساس ہوا کہ ” وہ ” بھی فاصلوں کی دیوار پھلانگ کر گاڑی میں مرے پاس آگیا اور اپنے سر کو مری گود میں ڈال کر بیٹھ گیا ہے اور مجھ سے کہتا ہے کہ
لو اب دیکھو ان پہاڑوں ، ان اے اوپر دور کہیں ٹمٹماتے چراغوں کو
ہم ڈیرہ بگٹی کے ایک نواحی ععلاقے میں پہنچے تو مجھے ” وہ ” ملا اور میں نے دیکھا کہ اس کے سر کے بال بہت بڑھے ہوئے تھے ، اس کی داڑھی کے بال بھی بہت بڑھ چکے تھے اور وہ اس ناف کے قریب پہنچتی لمبی داڑھی کے ساتھ ” سلفی مجاہد ” لگ رہا تھا ، لیکن ان کی طرح اس کی شلوار ٹخنوں سے کہیں زیادہ اوپر نہ تھی کہ اس کی پنڈلیاں مجھے نظر آتیں
تمہارا افسانہ “بھگوڑا کامریڈ ” میں نے پڑھا تھا ، تم کب یہ مڈل کلاسیوں کے چوتیاپے پن اور آن کے سڑاند مارتی قنوطیت و مایوسی سے نکل پاؤ گے اور اپنے اعصابی جھنجنھاہٹ سے باہر آؤ گے جس کے لاشعور اور تحت الشعور میں ” عورت کا جسم ” تمہاری جان ہی نہیں چھوڑتا
وہ بہت غصّے سے بول رہا تھا
میں کچھ نہیں بولا تو مرا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ مجھے لیکر وہ ایک غار میں آگیا جہاں رنگ برنگی کترنوں سے بنی ایک گودڑی غار کے فرش پر بچھی تھی اور ایک پتلی سی لمبی چینی چپ لائٹ وہاں جل رہی تھی جس کی اندر روشنی بہت تھی ، غار کے اندر سب صاف نظر آرہا تھا ، ایک کونے پر پانی کا گھڑا اور مٹی کا برتن ، کچھ قاصلے پر ایک بستر نما لگا ہوا تھا جس پر کتابیں بھی بے شمار بکھری ہوئی تھیں ، ساتھ ہی ایک بندوق ، راکٹ لانچر اور پانـچ چھے گرینڈ پڑے ہوئے تھے
بتاؤ مجھے کیوں بلایا تھا ، میں نے چوکڑی مارتے ہوئے گودڑی پر بیٹھتے ہوئے کہا
میں نے نہیں بلایا ، وہ تمہارا یار جو اب ہمارا کمانڈر بھی ہے کہتا ہے کہ تمہیں کچھ بتایا جائے تازہ صورت حال بارے تو امید ہے کہ تم روائتی طور پر ” بلوچوں کا احساس محرومی ” ” نوجوان بلوچوں کی غیر ملکی قوتوں کے ہاتھوں گمراہی ” اور بلوچ آزادی کی تحریک کے دم توڑنے ” اور ” بندوق ڈالنے کو بے تاب نوجوانوں کی بے چینی ” اور ” ترقی دشمنی ” جیسی بدبو دار اصطلاحوں میں ” تازہ حالات ” کو بیان نہیں کرو گے
تو تمہارا خیال کیا ہے ؟ تمہارا کمانڈر غلط سمجھتا ہے ؟
ہاں وہ غلط خیال کرتا ہے ، کیونکہ تمہارا مڈل کلاسی چوتیا پن کبھی تم سے الگ ہوتا نہیں ہے ، گھٹیا قسم کی سطحی رومانویت کا سہارا لینے سے تم باز نہیں آتے ، تمہاری فنتاسی تمہاری جان نہیں چھوڑتی
وہ انتہائی جھنجھلایا ہوا نظر آتا تھا اور لگتا تھا کہ اپنی مرضی کے بغیر مجھے رسیو کرنے آیا ہے
میں پھیکی سی مسکراہٹ ہنسا اور کہا تو پھر کیا میں واپس چلا جاؤں ؟
اس نے مرے چہرے کی طرف دیکھا اور پھر اچانک اس کی ٹون بدلی اور کہنے لگا
اب جتنی لجاجت سے تم نے کہا ہے تو میں تمہیں ایسے واپس نہیں جانے دوں گا اور اس کے بعد وہ خود بھی بیٹھ گیا ، ابھی وہ شاید کچھ کہنا چاہتا تھا کہ ایک دم ” جنگی طیاروں ” کی گونج اٹھی اور گڑگراہٹ سے کئی ایک طیاروں کے گزرنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی یک بعد دیگرے دھماکوں کی آوازیں ابھریں
غار کی دیوار کے ساتھ ہوجاؤ ، فوری طور پر ” وہ ” خود بھی تیزی سے غار کی دیوار کے ساتھ لگ گیا
باہر مت نکلنا ، بہت خطرہ ہے
تھوڑی دیر بعد وہ نارمل ہوگیا اور مجھے لیکر باہر نکلا اور دور ہم نے آگ کے بڑے بڑے شعلے اٹھتے دیکھے
صبح کے اخبارات کچھ اس طرح کی خبروں سے بھرے ہوں گے کہ
شاہینوں کی کاروائی ، درجنوں دھشت گرد ٹھکانے تباہ اور کئی ایک دھشت گرد مارے گئے
اس کی آواز غصّے اور غم کی ملی جلی کیفیت سے بھری ہوئی تھی
میں خاموش تھا ، کچھ نہیں بولا
پاس پڑے ایک سٹوو چولہے کو اس نے دیا سلائی سے جلایا اور پانی گرم کرنے لگا اور تھوڑی دیر بعد کچھ جڑی بوٹیاں اس میں ڈالیں اور ایک ململ کے کپڑے سے گرم پانی کو کشید کیا اور ایک پیالی میں اس ” قہوہ نما ” کو مری طرف بڑھادیا ، میں نے پیالی پکڑی اور پہلی گھونٹ بھری تو طبعیت کی کسل مندی دور ہوتی ہوئی محسوس ہوئی
وہ اپنے بستر کی اور گیا اور پھر وہاں سے ایک کتاب اٹھالایا اور اس کو مرے حوالے کیا
کتاب عربی میں تھی اور عنوان تھا
لا سکاکین فی مطابخ ھذہ المدینۃ
یہ عنوان نجانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ کہیں میں نے پہلے بھی سنا ہے
میں نے کتاب کا پہلا صفحہ کھولتے ہوئے کہا
لگتا ہے کہ ” بوسیدہ ہوجانے والی خبروں ” کے درمیان زندگی بسر کرتے ہوئے تمہاری یاداشت بھی بوسیدگی کا شکار ہوگئی ہے
اس نے برجستہ کہا
یاد نہیں بیروت میں امریکن یونیورسٹی کے شعبہ عربی ادب میں پی ایچ ڈی کرنے والا طالب علم کامریڈ اسامہ شہود جس نے ہمیں 1960ء سے 1964ء تک شام کے صدر ” حافظ الامین ” کی تقریر سنائی تھی جس کا عنوان ہی
لا سکاکین فی المطابخ ھذہ المدینۃ
یعنی باورچی خانوں میں ‘چھریاں ” نہیں ہیں
تھا
مجھے اچانک ” اسامہ شہود ” یاد آگیا جو لبنانی کمیونسٹ پارٹی کے طلباء ونگ کا امریکن یونیورسٹی بیروت کا صدر تھا اور ہمارا بیروت میں میزبان
یہ خالد خلیفہ کون ہے ؟
میں نے کتاب کے مصنف کا نام پڑھتے ہوئے اس سے پوچھا
تمہارے جیسا ایک مڈل کلاسی خبطی ادیب جو ” ماضی اور حال ” کے درمیان ایک ناسٹیلجک کیفیت کا شکار ہے اور یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ اپنی کہانیوں اور ناولوں میں ” شامی یادداشتوں ” کی کھدائی کرنے میں مصروف ہے اور اس کا محور و مرکز شام کا شہر ” الیپو ” ہے ، جیسے تم کبھی ” کراچی والوں کی یادداشت ” کھودنے نکل جاتے ہو تو کبھی ” لاہور والوں ” کی اور کبھی ایک دم اڈاری مار کر اپنے آباء کے شہر اعظم گڑھ کی یاداشت کھودنے نکل پڑتے ہو
اس نے بتایا
مجھے کیوں دے رہے ہو یہ کتاب
میں نے پوچھا
کہنے لگا کہ
تم جیسے چیزوں کو یہاں دیکھتے ہونا ، ویسے ہی ” شام ” کا یہ ناول نگار بھی اپنے شہر الیپو سے دور مصر کے شہر قاہرہ میں بیٹھ کر چیزوں کو دیکھ رہا ہے
مرے منہ سے ایک ٹھنڈی سی آہ نکلی
وہ مجھے وہاں بیٹھا چھوڑ کر خود اپنے بستر پر چلاگیا اور لیٹنے کے بعد اس نے دوسری طرف کروٹ بدلتے ہوئے کہا
کل صبح کچھ دوست پہنچیں گے اور تمہیں بریف کریں گے
میں نے کتاب کھولی اور پڑھنا شروع کردی
جیسے جیسے کتاب پڑھتا گیا ویسے ویسے مجھے لگا کہ میں ” آج کے شام ” اور ” شامیوں کی حالت زار ” کا حصّہ بن گیا ہوں ، اس وجودی اینگزائٹی اور اور وہاں پھرنے والی موت کا
یہ احساس بڑھتے ہی مجھے ایسے لگا کہ ” وہ ” پھر سے طنزیہ طور پر مسکرایا ہو اور جیسے اس نے کہا ہو
مڈل کلاسی چوتیاپا پن
میں اس اپنے اندر پیدا ہونے والے التباس پر زرا دیر کے لئے خود شرمندہ ہوگیا +
خالد خلیفہ کا جنم شام کے ایک قدیم ترین تجارتی ، ثقافتی اور تاریخی اہمیت کے حامل شہر ” الیپو ” مين ہوا تھا اور اس شہر کی 200 سال پرانی تاریخ اس کے رگ و پے ، دل و دماغ میں سرایت کئے ہوئے اور یہ شہر جو اب ” سزا یافتہ شہر ” ہے ایک معتوب شہر جس نے جدید شامی تاریخ میں ایک کھلے کاسموپولیٹن شہر کے طور پر اپنے آپ کو ظاہر کیا تھا اور پھر اسے ” حافظ اسد ” کے دور یہ ایک سیکورٹی انفارمرز کا شہر بن گیا ، خالد خلیفہ کا خیال یہ ہے کہ حافظ اسد کے دور سے لیکر بشار الاسد کے دور تک شامیوں کی زندگی ، شام کی حکمران پارٹی کے لوگوں کی زندگی کے متوازی چلتی رہی اور اس کی قیمت انھیں خوفناک حد تک اٹھانی پڑی اور پھر جب اپنی زندگیوں کو مصائب سے باہر نکالنے کی کوشش کی گئی تو ( بہار شام سے عذاب شام تک کا سفر ) ایک موت سے دوسری موت کا سامنا کرنا پڑا
ناول ایک مڈل کلاس فیملی کے گرد گھومتا ہے جوکہ ڈھیر سارے تضادات میں گھری ہوئی ہے -مجھے کچھ یوں لگا جیسے کہ اس خاندان کے ڈھیروں تضادات سے بننے والے مصائب اصل ميں ” الیپو ” شہر کا اشوب ہے جہاں یہ خاندان رہ رہا تھا
شہر اور خاندان دونوں ” عظمت گم گشتہ ” کے مارے ہوئے ہیں اور اس خاندان کے افراد کے المیوں سے شہر کا ” المیہ ” برآمد ہوتا نظر آتا ہے اور دونوں کا انجام موت ہے
اس ناول کے موضوعات مین سے ایک مرکزی موضوع ” موت ” ہے اور یہ موت اس خاندان کا مقدر تو ہے ہی ساتھ ہی اس شہر کے ثقافتی تنوع اور تکثیری شناختوں کی موت کی علامت بھی ہے جسے ” فرقہ واریت ” کا اژدھا نگلے جارہا ہے
اس ناول کا آغاز ہی اس خاندان کی ” ماں ” کی موت سے ہوتا ہے اور اس کا خاتمہ اس ناول کے داستان گو بیٹے کی موت پر ہوتا ہے اور یہ اموات ایک نئے دور کے آغاز کی علامت ہے جو “موت ” کو پرانے رجیم کی بانٹی جانے والی اموات سے زیادہ خوفناک کردیتا ہے – میں بہت حیرانی سے اس ناول کے اندر کی حرکیات کو دیکھ رہا تھا کہ کیسے شہر بتدریج یہاں پر زندگی گزارنے والوں کو داخلی بحران اور انتہائی تنگ نظری کی طرف دھکیل رہا تھا اور ان دو اموات کے درمیان ” زندگیوں کے ہارے جانے اور وجودی اینگزائٹی کے سب کو حصّار میں لئے جانے کا عمل جاری و ساری رہتا ہے
اس ناول میں ” ماں ” وہ ہے جو شام کے 1940ء میں ابھرنے والی مڈل کلاس خاندان کی فرد ہے جو شہر کے کاسموپولٹین ماحول میں یورپی آرٹ اینڈ کلچر سے منسلک ہے اور اس کا آغآز اس کے والد کی ایک ریلوے کے انجئینر سے دوستی سے ہوتا ہے اور اسی سے ماں کا جو بھائی ہے لڑکے کا انکل ” نزار ” جو ہم جنس پرستی کا شکار ہوتا ہے اور اس کا بڑا بھائی یعنی لڑکے کا تایا عبدالمنعم اس کے انکل نزار کی ضد ہے جو اپنا بیٹا اخوانی اور حکمران بعث پارٹی کی باہمی لڑائی مین گنوا بیٹھتا ہے
ماں جو ہے وہ اپنے نوجوانی کے دنوں ميں شام کی ایک دیہی فیملی سے تعلق رکھنے والے مرد کی محبت میں مبتلا ہوتی ہے اور اس سے شادی کی خاطر اپنا خاندان چھوڑ دیتی ہے اور یہ دیہاتی مرد جس امریکن مالکن کے ہاں کام کرتا ہے تو اس کی محبت میں متبلا ہوکر اس کے ساتھ امریکہ سیٹل ہوجاتا ہے اور اپنی زاتی خوشی کو سب پر ترجیح دیتا ہے لیکن ماں ایسا نہيں کرتی
اسی ناول کا ایک اور کردار رشید کی بہن سوسن ہے جوکہ امریکن یونیورسٹی میں پڑھنے کے بعد حکمران جماعت کے پیروٹروپر بٹالین کو جوائن کرتی ہے اور وہاں پر ایک کامریڈ منذر سے عشق میں مبتلا ہوجاتی ہے جو اسلحے کی سمگلنگ اور کرپشن کے الزام میں گرفتاری سے بچنے کے لئے دبئی فرار ہونے والے پارٹی لیڈر حبیب الموصلی کے پاس جانے کا فیصلہ کرتا ہے اور سوسن بھی سہانے مستقبل کے خواب سجائے اس کے ساتھ دبئی آجاتی ہے ، یہاں کامریڈ منذر سوسن کے ساتھ رہتا ہے اور ایک داشتہ کی طرح اسے رکھتا ہے اور پھر جب سوسن اس سے شادی کا کہتی ہے تو سوسن کے فرقے کے الگ ہونے کا عذر کرکے اس سے شادی کرنے سے انکار کردیتا ہے – سوسن اس سے سخت شاک میں رہتی ہے اور ایک غیر اعلانیہ طوائف بن جاتی ہے اور پھر جب اس شاک سے سنبھلتی ہے تو واپس شام آتی ہے اور یہاں وہ فرانسیسی زبان کے استاد “ژاں ” سے ملتی ہے جوکہ جینیوا سے اپنی اندھی ماں کی دیکھ بھال کرنے شام آیا ہوتا ہے – لیکن سوسن کے ساتھ وہ تعلقات نہیں بناتا اور ہم بستری سے انکار کردیتا ہے مگر سوسن بیسوا پن جاری رکھتی ہے
ژاں ایک عجب المیہ میں گرفتار ہوجاتا ہے ، اسے اپنا ملک اور شہر بالکل بدلا نظر آتا ہے اور سارا شہر ریاست کے مخبروں میں بدلے نظر آتے ہيں اور وہ ” الیپو ” کو بالزاک کے ” پیرس ” سے تشبیہ دیتا ہے جو ” بوژروازی گھٹیا پن ” کا شکار ہے اور وہ بالزاک کی طرح سب سے الگ تھلک ہونے کا قائل ہوجاتا ہے اور ” شہر کی موجودہ حالت ” کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کے لئے شہر کی طوائفوں میں خود کو غرق کرلیتا ہے اور اس دوران نجانے کیوں اسے “سوسن ” کے اس جسم کا خیال آتا ہے جس سے وہ کبھی وابستہ ہی نہیں ہوا تھا
ادھر سوسن بھی ایک بڑی ذھنی بدلاؤ سے گزرتی ہے ( یہ اصل میں الیپو کے کاسموپولیٹن شہر سے ایک تنگ نظر فرقہ وارانہ قدامت پرستی میں بدلنے کا اشارہ ہے ) اور وہ بکارت بحال کرنے کی سرجری
hymen restoration surgery
سے گزرتی ہے اور حجاب پہننے لگتی اور ایک مکمل قدامت پرست عورت بن جاتی ہے لیکن سب اس کو اس کے نہ بدلنے والے اٹل ماضی کے آئینے کی روشنی میں دیکھتے اور اس کے جسم کے طلبگار ہوتے ہیں
اسی دوران کہانی میں ایک اور ٹوئسٹ آتا ہے اور سوسن کو فرانسیسی نوجوان لڑکے مائیکل کا التفات ملتا ہے ، مائیکل اس کے انکل نزاز سے رشتہ ہم جنسیت میں منسلک تھا اور پھر اس کام سے اوب جاتا ہے اور سوسن سے پیار میں مبتلا ہوکر اس سے شادی کرتا ہے اور پیرس منتقل ہوجاتا ہے
منذر بھی اس دوران بدلاؤ کے عمل سے گزرتا ہے اور وہ حزب اللہ میں شامل ہوجاتا ہے اور پھر حزب اللہ کی جانب سے شام میں ہی لڑتا ہوا مارا جاتا ہے
اس ناول میں سوسن کی ایک اور معذور بہن بھی ہے سعاد ، یا حاشیہ پر پڑی لڑکی جس کی معذوری کی وجہ سے اسے خاندان کے لئے باعث شرم اور بے عزتی گردانا جاتا ہے ، اسی گمنامی اور ‏عزلت میں زندگی گزارتی مرجاتی ہے
انکل نزار اپنی ہم جنس پرستی کے سبب الیپو کی سماجی زندگی اور اس خاندان کی زندگی سے باہر نکالے ہوئے شخص کی طرح ہے مگر وہ اپنی زندگی کے راستے تلاش کرتا ہے ، اس کے اندر ایک نفیس روح ، ہمدردی کا جذبہ اور ایک خاص قسم کی ذھنی جلاوطنی کو ناول میں پینٹ کیا ہے ، وہ اپنے خوابوں کے اندر دنیا بسالیتا ہے اور ایک خارج کئے گئے فرد کی طرح بالآخر ” عزلت گزینی ” کی طرف مائل ہوتا ہے
جبکہ اس کا سب سے چھوٹا بھتیجا ” رشید ” جو اس ناول کا راوی بھی ہے اسی انکل نزار سے موسیقی کے اسرار و رموز سیکھتا ہے اور نزار کی موجودگی کے ساتھ ہی ناول کے اندر
موجود ساری کہانیاں ابھر کر سامنے آتی ہیں اور نزار کا کردار
non-stereotypical homosexual
کے طور پر سامنے آتا ہے
رشید بچپن سے ہی وجودی اینگزائٹی اور عزلت نشینی کا شکار ہوتا ہے اور پھر وہ اپنے خوابوں کی ایک دنیا الگ سے بساتا ہے ، اس کی زندگی میں بدلاؤ اس وقت آتا ہے جب وہ عراق میں امریکیوں کے خلاف جنگ لڑنے ” مجاہدین ” کے ایک گروپ کے ساتھ چلاجاتا ہے اور وہاں سے پلٹتا ہے تو اس گروپ میں سپلٹ کا شکار ہوکر اس کی اینگزائٹی بڑھتی اور اسی اینگزائٹی میں وہ خودکش حملہ کرکے اپنے آپ سے جان چھڑالیتا ہے
ساری رات اس ناول کو پڑھتے ہوئے کب گزری مجھے پتہ نہ چلا ، اور جب دور پہاڑوں کی اوٹ سے نکل کر سورج کی روشنی غار تک پہنچنے لگی تو میں اس ناول کے اندر ” ماضی اور حال ” کی جدلیات سے گندھی فضاء سے باہر آنے پر مجبور ہوا ، میں سوچ رہا تھا کہ اس ناول میں ایک عورت جو ماں تھی اور دوسری جو بیٹی تھی ایک جیسی ” قسمت ” کا شکار ہوئیں
خالد خلیفہ جسے ” وجودی اینگزائٹی ” کا نام دیتا ہے جو اس پورے ناول کی فضا میں پھیلی ہوئی ہے اور جسے وہ ” عزلت نشینی ” کہتا ہے میں اسے بلوچستان کی فضا اور پھر اسے خاص طور پر کوئٹہ ، گوادر ، خضدار ، اور اگر کاسموپولیٹن شہر کراچی مين تلاش کروں تو کیا مجھے اس کے نشانات ملیں گے ، جس المئے سے شامی گزرے ، اس سے ملتے جلتے تجربے سے متحدہ ہندوستان والے بھی گزرے تھے اور ایسی وجودی اینگزائٹی کا سراغ ہمیں ” سعادت حسن منٹو ” کے ہآں پوری شدت کے ساتھ ملتا ہے اور یہ ہمیں قرۃ العین حیدر کے ہاں بھی نظر آئی تھی ، آج یہ کہیں حمید شاہد کے افسانوں میں بھی نظر آتی ہے
پڑھ لیا خالد خلیفہ کو
وہ نجانے کب بیدار ہوگیا تھا یا سویا بھی تھا کہ نہیں ، مجھے سے پوچھنے لگا
میں نے کہا ہاں
تو پھر ایسی فرسٹریشن سے کیا نکالوگے تم “مڈل کلاسی دانشور اور ادیب ”
اس نے سوال کیا
میں اس کے سوال پر تھوڑی دیر کے لئے سٹپٹا سا گیا اور اس وقت مجھے کوئی بات نہیں سوجھی تھی لیکن وہاں سے آنے کے دو روز بعد مجھے اطلاع مل گئی کہ مرا دوست ایک بمباری میں اپنی کتابوں سمیت فنا کے گھاٹ اتر گیا ہے تو میں خالد خلیفہ کا پیج کھولا ، خالد خلیفہ کی ” نجیب محفوظ لٹریری ایوارڑ ” وصول کرتے ایک تقریر چھپی تھی جس کا ایک پیراگراف یوں تھا کہ
When a place gets wrecked it does not become ruined alone, it ruins with its people,” he says. “It’s a sad, soulless city at the moment, and its people have lost all of their dreams. One of the major crimes of the Arab regimes is robbing and destroying this deep memory. You know the city I told about in my novel is another city, a city that does not exist, but it’s defending itself and its memory.”
خالد خلیفہ کا شہر عربوں کے ہاتھوں تباہ ہوکر اپنی گہری یاداشت سے محروم ہوا تو ہمارے شہر بھی ایسے ہی تباہ ہوگئے اور اس تباہی میں ” بہار شام کا عذاب شام ” میں بدل جانے اس کہانی میں اسد اور اس کے بیٹے بشار اور اس کی حکمران پارٹی کا کردار تو بہت نمایاں ہے لیکن ایک بہت ہی لطیف اور گہری بات جو خالد خلیفہ نے انے کرداروں کے عمل کے زریعے سے دکھائی وہ یہ ہے جو پرانی جنریشن تھی جس نے اپنی آزادی کے سلب کئے جانے کا ردعمل کنزویٹو اور مذھبی فاشزم کی شکل میں نہیں دیا تھا اور اپنے ساتھ ڈھیروں تضادات کا حل یک رخی ” مذھبی جنونیت ” مين نہیں دھونڈا تھا جیسے ناول میں ” ماں ” کا کردار ہے ، انکل نزار کا کردار ہے لیکن نئی نسل کا منذر ، رشید اور سوسن تینوں کے تینوں اس دلدل میں جاگرے جو پرانے شہروں کے پھر سے اپنی میموری کو پالینے کی امید نہیں دلاتے اور خالد خلیفہ شاید قاہرہ میں ہے اس لئے وہ اس دوسری نسل کے کرداروں کی اس کایا کلپ کے زمہ داروں کے چہرے بہت واضح نہ دکھاسکا لکین امید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دور میں کہيں یہ سچ بین السطور کی جگہ کھل کر بیان ہوگا

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: