رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاست اور اس سے متعلق تبصروں میں تو کوئی آخری حرف نہ ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے مگر آئین اور قانون کے بارے میں حرفِ آخر عدالتِ عظمیٰ ہے۔ یہ لکھتے ہوئے ہم فرض کررہے ہیں کہ آئین کی بالا دستی ملک میں قائم ہے۔ اگر دستور کسی وجہ سے کئی بار ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا یا اس میں سیاسی مقاصد کے تحت ردوبدل کرکے اسے تسلیم کیا جاتارہا ہو تو اس کی قوم اور سیاسی کھلاڑیوں کی نظروں میں وہ توقیر پیدا نہیں ہو سکتی جو ہم جمہوری ممالک میں دیکھتے آئے ہیں۔ ایک اچھی روایت تو ہمارے ہاں بھی ضرور رہی ہے کہ جب انفرادی سطح پر آئین میں بگاڑ پیدا کیا گیا تو سیاسی ہم آہنگی کے ساتھ دونوں مرتبہ اس میں پارلیمانی روح پھونکنے کی کوشش ضرور کی گئی۔ اسے قوم کے لیے متفق اور قابلِ قبول عمرانی معاہدے کا درجہ حاصل رہا۔ بالکل درست ہے کہ پارلیمان آئین میں ترمیم کر سکتی ہے‘ دنیا کی ہر مقننہ کے پاس اختیار ہے‘ مگر اکثر ممالک جہاں وفاقی نظام ہیں‘ وہاں ہر ترمیم کے لیے اکائیوں کی بھاری اکثریت سے تائید درکار ہوتی ہے۔ میری ذاتی شناسائی امریکی دستور سے عرصہ سے رہی ہے۔ اس کے بارے میں تو حتمی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ آئینی ترمیم لانا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ دس سال کا عرصہ ریاستوں کو دیا جاتا ہے۔ اس کے اندر اگر تین چوتھائی ریاستوں کی اسمبلیوں میں سے ہر ایک تین چوتھائی اکثریت سے منظور نہ کرے تو مجوزہ ترمیم خود بخود دَم توڑ جاتی ہے۔ مقصد وسیع تر سیاسی‘ نظریاتی اور علاقائی اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اگر ایوان سے کہیں دور کسی طاقتور کی دلچسپی ہو‘ مدتِ ملازمت میں چند سال مزید اضافے کی تمنا ہو تو آئین کو موم کی ناک کی طرح مروڑ کر اس میں حسبِ ضرورت خاص ترمیم کر دی جاتی ہے تاکہ وہ بھی خوش رہیں اور آئین میں لچک پیدا کرنے والوں کا بھی بھلا ہوتا رہے۔ گویا ترمیم ذاتی مقاصد کی بجا آوری کے لیے ایک حربے کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ آخر نظریۂ ضرورت کس کام کے لیے ہم نے اختراع کررکھا ہے؟ سیاسی فلسفہ ہو یا معاشرتی‘ جمود اور جاگیرداری نظام کی ہماری سوچ اور طرزِ زندگی پر گہری چھاپ ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے ہمارے ہاں نئے نظریات اور افکارِِ تازہ کی گنجائش نہیں۔ ایسے تصورات ہم صرف غالب‘ اقبال اور فیض کے کلام میں پڑھ لیتے ہیں۔ تاہم یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس دور میں نظریۂ ضرورت کی موجودگی میں کسی اور نظریے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ کتنی ہی ایسی ترامیم ہیں جنہیں چائے کی پیالی ٹھنڈی ہونے سے پہلے ہماری پارلیمان نے اپنی تاریخ میں ایک ہی سانس میں مکمل کردیا۔ اس ترمیم کو آپ کیا کہیں گے جو ایمرجنسی نافذ کرکے مشہور و معروف موروثی سیاسی گھرانوں کو این آر او دینے کے لیے عصرِ حاضر کے ”لبرل‘‘، ”ترقی پسند‘‘ اور نڈرصاحبِ اقتدار نے کر ڈالی تھی؟ ہم جیسے کچھ درویش تو تب میدان میں نکلے تھے مگر زیادہ تر ترقی پسند اور مستند لبرلز کی زبانیں گنگ ہوگئی تھیں۔ ان کی روحوں میں بھی نظریۂ ضرورت سرایت کر چکا ہے۔ ہونٹوں پر آئین اور قانون کی سربلندی کے نعرے‘ لیکن آئین کو موم کی ناک کی طرح مروڑ کر ذاتی مقاصد حاصل کرنے پر ان کی پیشانی کبھی شکن آلود نہیں ہوتی۔
آج کل بھی نظریۂ ضرورت کی گونج مجھے تو صاف سنائی دے رہی ہے بے شک آپ اور آٹے کی قطاروں میں کھڑے عوام اور مہنگائی کے مارے متوسط طبقے کے کانوں میں اس کی بھنک نہ پڑ رہی ہو۔ ہمارے سیاسی کاریگر اور وقت کے دھارے کے ساتھ بہنے والے لوگ پارلیمان کی بالادستی کی آڑ میں ماضی کی نسبت زیادہ خطرناک نظریۂ ضرورت کی سیاسی تسبیح کا ورد آج کل اُٹھتے بیٹھتے کررہے ہیں۔ آئین کی سربلندی کو شاید اس سے زیادہ کبھی خطرہ لاحق نہیں ہوا۔ مقصد انتخابات کے انعقاد سے انحراف ہے۔ ان کے لیے خود پیدا کردہ خطرات کی بات ہم کئی مرتبہ پہلے بھی کر چکے ہیں۔ اُنہیں ڈر ہے کہ کپتان کی مقبولیت نے سیاسی جھاڑو پھیر دیا تو وہ ماضی کے تاریک کونوں میں جا پڑیں گے اور پھر دوبارہ سیاسی اکھاڑے میں ان کی جگہ نہیں بنے گی۔ کھلے عام اور روزِ روشن کی طرح نظر آرہا ہے کہ اب سیاسی حالات زمینی سطح پر تو ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ اقتدار کی کرسی ہی بڑا سہارا ہے اور اگر وہ بھی جاتی رہی تو کچھ نہیں بچے گا‘ اس لیے نظریۂ ضرورت کے تحت بیانیہ یہ تراشا جا رہا ہے کہ پارلیمان مقتدر ہے‘ سب کچھ کر سکتی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ پارلیمان وہ نہیں جو مسلمہ جمہوری ممالک میں ہوتی ہے۔ برطانیہ میں ایک تاریخی ادارہ ہے‘ روایات سے زندہ اور سیاسی جماعتوں کی مسابقت اور آئینی یکجہتی کے زور پر پروان چڑھا ہے۔ وہاں تین یا چار مختلف موروثی سیاسی جماعتوں کے خاندانی سربراہ طے نہیں کر سکتے کہ پارلیمان نے کیا فیصلے کرنے ہیں۔ کبھی ایسا ہوا نہیں کہ کسی جمہوری ملک میں پارلیمان عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف نہ صرف قرار داد منظور کرے بلکہ حیلے بہانے سے حکومتِ وقت پارلیمان کو استعمال کرتے ہوئے کہے کہ وہ فیصلے پر عمل درآمد کرنے سے قاصر ہے۔ جمہوری دنیا اس سرتابی کا تصور بھی نہیں کر سکتی لیکن ہماری پارلیمان کی باگ ڈور تین ہاتھوں اور دستِ شفقت رکھنے والوں کے پاس ہے۔
یہ بالکل سطحی بحث ہے کہ پارلیمان مقتدر ہے۔ مقتدر تو دستور ہوتا ہے کہ جس کی تخلیق خود پارلیمان ہے۔ ہمارا آئین پارلیمان نے نہیں دستور ساز اسمبلی نے بنایا ہے۔ اگرچہ ادارہ اور لوگ ایک ہی تھے مگر دونوں میں ہمیشہ امتیاز اس لیے رکھا گیا کہ آئین پارلیمان پر بالا دست ہوگا۔ عجیب و غریب شوشے چھوڑے جارہے ہیں اور بے سروپا بحثیں ہمارے میڈیا پر جاری ہیں۔ بحثیں کیا ہمارے سیاسی کھلاڑیوں اور ان کے گماشتوں کو پلیٹ فارم مہیا کیے جارہے ہیں کہ جتنا ابہام پھیلا سکتے ہیں‘ پھیلائیں تاکہ سیاسی پانی گدلا کیا جائے اور عدالتِ عظمیٰ کے معزز ججوں اور ادارے پر مائیک کے سامنے کھڑے ہوکر ہرزہ سرائی کرتے رہیں۔ میرے علم میں نہیں کہ کسی جمہوری ملک میں حکومت یا چند سیاسی رہنما یہ فیصلہ کریں کہ سپریم کورٹ میں فیصلوں کے لیے پینل اُن کی سیاسی مرضی کے مطابق تشکیل پائے۔ ایک بڑا فیصلہ ہوا تھا‘ کسی کاغذ کے کارخانے کے بارے میں‘ مجھے نہیں معلوم کہ اس پینل پر کتنے جج تھے‘ کبھی اُس فیصلے کے بارے میں سیاسی خاندانوں کی طرف سے کوئی اعتراض اٹھتا دکھائی نہیں دیا۔
پارلیمان‘ سیاسی جماعتیں‘ انتخابات‘ تمام ریاستی ادارے اور ملک کا سیاسی عمل‘ سب آئین کے تابع ہوتے ہیں۔ آئین کیا ہے؟ کسی ایشو کے بارے میں آئین کیا کہتا ہے؟ اس کی تشریح کیا ہے؟ یہ کسی مال دار اور طاقتور سیاسی رہنما اور اس کے کارندوں کی مرضی پر منحصر نہیں‘ یہ عدالتِ عظمیٰ کا اختیار ہے۔ اس بارے میں حرفِ آخر عدالت کا ہے۔ عدالت نے ہمارے سیاسی رہنمائوں کو ایک اور موقع دیا ہے کہ وہ انتخابات کرانے کی تاریخ خود مل کر طے کر لیں‘ اگر نہیں کریں گے تو عدالت کا مئی میں پنجاب میں انتخابات کرانے کا فیصلہ برقرار ہے۔ حکومت ویسے ہی اگست کے وسط میں اپنی آئینی مدت کھو دے گی مگر خوف کا کیا علاج کریں جب یہ طویل المدتی سیاسی بخار میں تبدیل ہو جائے اور ساری دنیا کے حکیم مریضوں کو لاعلاج قرار دے دیں۔ اگر ہم گناہگاروں کی دعا کام آسکتی ہے تو وہ صرف اس ملک اور اس کے عوام کے لیے ہے۔ بس اللہ خیر کرے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر