حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی دفاعی حیثیت پر سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے زریں خیالات کا انکشاف دو معروف ٹی وی اینکروں نسیم زہرا اور حامد میر نے ایک ٹی وی پروگرام میں کیا۔
نسیم زہرا کی میزبانی میں ہونے والے اس پروگرام کے مہمان حامد میر تھے۔ دونوں کی گفتگو کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو مختلف لوگوں، صحافیوں، سیاسی کارکنوں، سوشل میڈیا استعمال کرنے والے عام صارفین اور عمران خان کے ٹائیگرز نے اس ویڈیو پر اپنے اپنے انداز میں تبصرے کئے۔
سوشل میڈیا کے اپنے فیس بک اکائونٹ پر میں نے عرض کیا کہ ’’نسیم زہرا اور حامد میر دونوں پورا سچ نہیں بول رہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیراعظم عمران خان ایک ہی وقت میں امریکہ کے دورے پر گئے۔ باجوہ پینٹاگون کی دعوت پر امریکہ پہنچے۔ پینٹاگون میں انہیں 21توپوں کی سلامی دی گئی۔ عمران خان امریکہ گئے تو اپنی جماعت کے ایک کنونشن میں شرکت کے لئے گئے تھے جہاں انہوں نے وہ مشہور زمانہ تقریر کی تھی جس میں کہا تھا پاکستان واپس پہنچ کر نواز شریف کے جیل سیل سے اے سی اتروادوں گا۔ شاہد خاقان عباسی کو بہت شوق ہے گرفتار ہونے کا، اسے جیل میں ڈال دوں گا "۔
اس دورے کے دوران جوکہ نجی تھا سفارتی کوششوں سے صدر ٹرمپ سے ملاقات طے ہوئی یہاں پر تاثر دیا گیا کہ دورہ امریکہ صدر ٹرمپ کی دعوت پر تھا۔ یہ وہی مشہور زمانہ دورہ امریکہ ہے جس سے واپسی پر عمران خان نے کہا تھا لگتا ہے آج میں دوسری بار ورلڈ کپ جیت کر وطن واپس آیا ہوں۔
سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اس پر ہوئے تبصروں، تنقید اور حالات و واقعات کی روشنی میں تجزیوں پر حامد میر کا رد عمل تھا
’’کچھ ساتھی حسد کا شکار ہیں انہیں حسد کرنے کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے‘‘۔
میری دانست میں انہوں نے انتہائی سطحی بات کی لیکن ان کی سطحی بات پر بحث اٹھانے کی بجائے ہم مکرر اس امر کی جانب پڑھنے والوں کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ جنرل باجوہ اور عمران خان کے دورہ امریکہ یہ ماہ جولائی میں ہوئے سے اگلے ماہ اگست میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کی آئینی ترمیم کرتے ہوئے اپنے زیرقبضہ کشمیر کو تین حصوں میں بانٹ دیا
’’یعنی اندھا بانٹے ریوڑیاں وہ بھی اپنوں کو‘‘۔
اس دورہ امریکہ کے بعد ہی امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ میں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے دوریوں کو ختم کروادیا ہے۔
یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے ہمیں اسی سال کے ماہ فروری اور مارچ کی تاریخوں میں ہانگ کانگ میں منعقد ہونے والی وزرائے خارجہ کی ایک کانفرنس کے دوران امریکہ اور بھارتی وزرائے خارجہ کی ایک الگ گوشے میں ہوئی جو گفتگو بین الاقوامی میڈیا کی زینت بنی اسے دیکھنا ہوگا ۔
خبر نگاروں کے مطابق بھارتی وزیر خارجہ نے امریکی وزیر خارجہ کو کشمیر کے حوالے سے اپنے آئندہ لائحہ عمل پر اعتماد میں لیا۔ خبر میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ بھارتی وزیر خارجہ اپنے ملک کے کشمیر کے حوالے سے نئی حکمت عملی پر امریکہ سے تعاون کی خواہستگار تھیں ۔
اسی برس جولائی میں پاکستانی وزیراعظم اور آرمی چیف باجوہ امریکہ کے دورہ پر گئے۔ اگست میں جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی تو میں نے ان سطور میں لکھا کہ
امریکہ نے پاکستان کو بھارتی اقدام پر پیشگی اعتماد میں لے لیا تھا یہ اعتماد سازی عمران اور باجوہ کے دورہ امریکہ کے دوران ہوئی۔ اسی طرح جب ہمارے ہاں جمعہ کے جمعے آدھے گھنٹے والے احتجاج کی بات ہوئی تو عرض کیا کہ
پاکستانی قیادت امریکہ کو یہ یقین دہانی کرواکر آئی ہے کہ بھارتی اقدام کے بعد پاکستان میں کشمیریوں کے حق میں بڑی تحریک کو منظم نہیں ہونے دیا جائے گا۔
جنرل باجوہ کی ایکٹینشن کے موقع پر عرض کیا تھا اس کا ظاہری ڈرامہ جو بھی ہوا اصل یہ ہے کہ یہ توسیع مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے امریکہ کو کرائی گئی یقین دہانی اور اس پر عمل کا انعام بھی ہے اور اس امر کا انتظام بھی کہ پاکستان میں عسکری کمان تبدیل نہ ہو تاکہ سول حکومت کے لئے کشمیر کے حوالے سے مشکلات پیدا نہ ہوں۔
مقبوضہ کشمیر پر بھارتی اقدام اور پاکستانی قیادت کے زبانی جمع خرچ کے پس منظر کے حوالے سے معروضات پیش کرنے کے دوران بعض مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
ان سطور میں ان کا تذکرہ غیرضروری سمجھا اس لئے چند دوستوں سے ان دھمکیوں اور پیشیوں پر ضرور بات کی۔ ہمارے چند دوست اس وقت یہ کہہ کر تمسخر اڑاتے رہے کہ تمہاری کیا اوقات ہے کہ اتنی گہری باتیں جان سکو۔ ایک دو نے پھبتی کسی ثبوت لائو۔ میرا اصرار تھا کہ پینٹاگون اور وائٹ ہائوس میں یہ طے کرکے آئے ہیں ہمارے رہنما کہ بھارتی اقدام کے کچھ عرصہ بعد گلگت بلتستان اور اگلے مرحلہ میں پاکستان کے زیراہتمام آزاد کشمیر کو صوبوں کا درجہ دینے کے عمل کو بتدریج آگے بڑھایا جائے گا۔
یاد کیجئے کہ گلگت بلتستان کی موجودہ اسمبلی کے انتخابات سے قبل جنرل باجوہ کے مشاورتی اجلاس میں کیا ہوا۔ ان ہنگامہ اٹھاتی خبروں اور اجلاس میں ہوئی تلخیوں کے باعث بات عبوری صوبہ کے جعلی سے حکومتی اعلان تک محدود رہی پی ٹی آئی کو پورے انتظام کے ساتھ وہاں سے کامیاب کروایا گیا۔
یہاں ایک بار پھر سانس لیجئے۔ آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم فاروق حیدر کی اس تقریر کو یاد کیجئے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ
’’آزاد کشمیر کو باضابطہ صوبہ بنانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ میرے بعد کٹھ پتلیاں وزیراعظم بنیں گی‘‘۔
باردیگر عرض ہے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی اقدامات امریکہ اور پاکستان کی اعتماد سازی سے ہوئے جس کی یقین دہانی پینٹاگون اور وائٹ ہائوس میں پاکستانی قیادت نے کرائی ۔ نسیم زہرا اور حامد میر کے ویڈیو کلپ پر میرا تبصرہ یہی تھا کہ دونوں پورا سچ نہیں بول رہے۔
ایک جاہل مطلق نے پھبتی کسی کہ مجھے کسی چیز بارے علم نہیں میں بس اپنے بیس ہزار روپے پکے کررہا ہوں۔ یہ بیس ہزار مجھے کون دیتا ہے یہ اس جاہل کو پتہ ہوگا جسے اردو ٹائپ کرنی آتی ہے اور وہ سوشل میڈیا کا بھالو دانشورہے۔
اخبار نویس دستیاب معلومات، سامنے ہوتے اقدامات اور بعض ان خبروں پر تجزیے اور رائے کی بنیاد رکھتا ہے جو کسی عام پڑھنے والے کے لئے غیراہم ہوتی ہیں۔
ایک اخبار نویس کے طور پر پچھلی نصف صدی کے دوران میں نے کبھی مقبول موقف کی بھیڑ چال میں خود کو شریک نہیں کیا میرے نزدیک تصویر کا وہ دوسرا رخ اہمیت کا حامل ہے جسے چھپانے کی کوششیں صاف دیکھائی دے رہی ہوتی ہیں۔
سو میری اب بھی یہی رائے ہے کہ گلگت بلتستان اور پھر آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کو مسلط کرانے والی باجوہ رجیم اصل میں اس بات سے خوفزدہ تھی کہ اگر انتخابی مینجمنٹ نہ ہوئی اور دوسری جماعتوں میں سے کوئی تنہا یا مل کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگیا تو ان کا منصوبہ خطرے میں پڑجائے گا۔ مجھے یاد ہے کہ جب گلگت بلتستان پر جنرل باجوہ کے مشاورتی اجلاس میں جنرل باجوہ اور بلاول بھٹو میں ہونے والی تلخی کا ذکر کرتے ہوئے میں نے عرض کیا تھا کہ بلاول باجوہ تلخی اس لئے ہوئی کہ باجوہ اجلاس میں یہ کہہ رہے تھے کہ فوج الیکشن میں غیرجانبدار ہے تو بلاول نے ان چند افسروں کے نام ایک کاغذ لکھ کر اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا
’’پھر یہ کون لوگ ہیں جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے لوگوں کو دبائو میں لاکر پی ٹی آئی میں بھرتی کررہے ہیں؟‘‘
بلاول کا دوسرا سوال یہ تھا کہ
گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا فیصلہ ہمیں نہیں وہاں کے لوگوں کو کرنا چاہیے۔ بہترین راستہ یہ ہوگا کہ اس کے لئے وہاں کی اسمبلی قرارداد منظور کرے۔
ان دو باتوں پر باجوہ اور بلاول میں تلخی ہوئی۔ میری اس خبر پر آئی ایس پی آر کا کہنا تھا یہ مفروضہ ہے۔ میں نے عرض کیا، باجوہ بلاول تلخی کی بلاول تائید کررہے ہیں تو یہ مفروضہ کیسے؟
رہی حامد میر کی یہ بات کہ کچھ ساتھی حسد کا شکار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حسد کیسا میں نے تو فقط یہ عرض کیا ہے کہ وہ پورا سچ نہیں بول رہے۔
معاف کیجئے گا متعدد معروف اردو انگریزی اخبارات کی ادارت میں نے اپنی محنت اور قابلیت سے حاصل کی تھی کبھی آئی بی یا ایم آئی کے کسی سربراہ نے کسی اخبار کے مالک کو یہ کہہ کر مجھے ایڈیٹر نہیں بنوایا تھا کہ بی بی صاحبہ کی خواہش ہے کہ میرا منہ بولا بھائی آپ کے اخبار کا ایڈیٹر ہو ۔
نا ہی میں خالد کشمیری کی پشت میں چھرا مار کر کسی اخبار کا ایڈیٹر بنا۔
الحمدللہ کبھی کسی ایجنسی یا آئی ایس پی آر کا محتاج ہوا نہ کسی سیاسی و مذہبی جماعت سے تعاون وصول کیا۔
معاملہ خودستائی کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ انسان کو جملے بازی کرتے وقت اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہیے۔
حرف آخر یہ ہے کہ میں آج بھی اس بات پر قائم ہوں کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی اقدام پاکستان کی امریہ کو کرائی گئی یقین دہانی کا نتیجہ تھا۔
باجوہ اور عمران یقین دہانی نہ بھی کراتے تو بھارت نے طے شدہ پروگرام پر عمل کرنا تھا سوال یہ ہے کہ ان دونوں کو کوئلوں کی دلالی سے کیا حاصل ہوا؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر