مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہندوستان کا مذاق اُڑانا ضروری ہے۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ کے پڑوس میں انڈیا اگلے چالیس پچاس سال میں خود کو کہاں دیکھتا ہے؟ اُس کے معاشی لیڈرز کیسے معاشیات کو سیاسی استحکام اور ووٹروں کی تعداد اور آبادی کے ساتھ جوڑ کر مستقبل کا نقشہ تیار کرتے ہیں؟ Treasury Leadership Forum 2023 میں کسی دیپک بگلا صاحب نے موجودہ اور آئندہ جی ڈی پی پیداوار کا تقابل اور پروجیکشن بھی پیش کی۔
اِس ویڈیو کا لنک محمد جامی صاحب نے بھیجا۔ جو دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ آپ کو بھی لنک پہلے کمنٹ میں فراہم کر دیتا ہوں، تاکہ آپ بھی اس دکھ میں برابر کے شریک ہو جائیں۔ اس بندے (’’بگلے‘‘) کی ٹون محسوس کریں، اس کے اعتماد کو دیکھیں۔ کل کو ہمارے کسی مزاحیہ پروگرام میں شاید اس کی نقلیں بھی اُتاری جائیں۔ یہ ہمارے پاس اپنی خفت دور کرنے کا واحد طریقہ ہے۔ کبھی کسی کو ٹرمپ بنا کر جوتیاں ماریں، کبھی مودی بنا کر مذاق اُڑایا۔
سبھی معاشرے یہی کچھ کرتے ہیں، لیکن صرف یہی کچھ نہیں کرتے۔ انڈیا اپنی جمہوریت کو (تمام تر جہالتوں سمیت) انویسٹمنٹ کا جزو سمجھتا ہے۔ یہاں ہمارے پاس 8 لاکھ مربع کلومیٹر کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی ہے۔ جس کے شہروں میں (جو ہمیشہ سے شہر تھے) چھوٹے چھوٹے بلاکس پر لڑائیاں جاری ہیں۔ جمہوریت کے فقدان نے ہماری معاشیات کے ساتھ تو جو کچھ بھی کیا، سو کیا، لیکن معاشرے کے ساتھ جو ہو رہا ہے، اُس کی ایک مثال پیش ہے۔
کبھی کچھ سڑکوں پر لکھا ہوتا تھا: یہ شارعِ عام نہیں۔ اب لاہور اور دیگر شہروں میں بھی جگہ جگہ ایسے علاقے موجود ہیں جہاں کوئی بھی آپ کو روک سکتا ہے، داخلے سے منع اور حتیٰ کہ بے عزت بھی کر سکتا ہے۔ یہ گیٹڈ سوسائٹیز ہیں۔ اِنھوں نے اپنے اپنے سکیورٹی گارڈز رکھے ہوئے ہیں جو بظاہر رہائشیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہیں۔ ان کے پاس بندوقیں اور اچھے موٹر سائیکل ہیں۔ یہ گارڈز ایک ایک گھر کی خبر رکھتے ہیں۔ اِنھیں چور پر گولی چلانے کی اجازت نہیں۔ یہ ہاؤسنگ سوسائٹی میں داخل ہونے والے گوالوں سے دودھ بطور رشوت لیتے ہیں، مجبور اور ناکارہ شوہروں اور زیادہ بچوں کی وجہ سے گھروں میں کام کرنے آنے والی نوکرانیوں سے ’معاملات‘کرتے ہیں، اینٹوں اور تعمیراتی سامان کی ٹرالیوں سے کمیشن لیتے ہیں۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ اِن کا کام رہائشیوں کی حفاظت کرنا نہیں، بلکہ سوسائٹی کے مالک کے ذاتی دستے کا کام دینا ہے۔ یہ ریٹائرڈ تنخواہ دار گارڈز سوسائٹی انتظامیہ کے کہنے پر کسی گھر پر بھی حملہ کرنے سے باز نہیں آتے۔ آج ٹرائیکون ولیج میں ایسا ہی ایک واقع ہو۔ اِن ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں گارڈز کے کردار کو آٹھ لاکھ مربع کلومیٹر کی پاکستانی ہاؤسنگ سوسائٹی پر پروجیکٹ کر کے دیکھ لیں، بہت کم سمجھ آ جائے گا۔
دریں اثنا لعنتی ہندوستان معیشت میں پوری دنیا کی قیادت کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے، اور ہم گارڈز کو سلام کر کے گزرتے ہیں کہ وہ روک نہ لیں، بے عزتی نہ کر دیں۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: