حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت احترام کے ساتھ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی خدمت میں عرض ہے کہ
’’پنچایت کے لئے منتخب لوگ بڑے وضعدار، حلیم اور معاملہ فہم ہونے کے ساتھ ساتھ یہ شہرت بھی رکھتے ہیں کہ وہ فیصلہ کرتے وقت ذاتی تعلقوں، خاندان اور اولاد کی محبتوں کو خاطر میں نہیں لاتے بلکہ اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ایسا فیصلہ دیتے ہیں کہ پنچایت میں ہارنے والا بھی اسے کھلے دل سے تسلیم کرتا ہے‘‘۔
ہم آگے بڑھتے ہیں ان کا یہ کہنا درست ہے کہ چیف جسٹس کا بنچ ہماری توہین کررہا ہے۔ جس بنچ پر پارلیمنٹ نے عدم اعتماد کیا ہو اس کے سامنے کیسے پیش ہوجائوں۔ ایک شخص کی خوشنودی اور سیاست کے تحفظ کے لئے پورے نظام کو بند گلی میں دھکیل دینے والے متنازعہ ہوچکے ہیں ہمارے نزدیک آئین اور پارلیمنٹ سپریم ہیں۔
گزشتہ روز ہی پی پی پی کے سربراہ بلاول بھٹو نے کہا بندوق کی نوک پر کوئی مذاکرات نہیں کراسکتا۔ انا، ضد اور ہٹ دھرمی کے نتائج خطرناک ہوں گے۔
مولانا فضل الرحمن نے ایک دلچسپ بات کی وہ یہ کہ
’’آج ہتھوڑے کے سامنے مذاکرات کا کہا جارہا ہے وہ بھی ایک ایسے شخص سے جو کہتا ہے کہ انتخابی نتائج آنے کے بعد فیصلہ کروں گا کہ نتائج تسلیم کرنے ہیں یا نہیں اس شخص نے یہ اعلان بھی کررکھا ہے کہ دو تہائی اکثریت نہ ملی تو اسمبلیاں توڑ کر پھر انتخابات میں جائوں گا‘‘۔
بلاول اور مولانا نے کچھ اور بھی کہا بلکہ بہت کچھ کہا ہے۔ دوسری طرف گزشتہ روز ہر صورت میں 4بجے تک سیاسی جماعتوں کا مشترکہ فیصلہ سننے کے خواہش مند بنچ نے پنجاب الیکشن کیس کی سماعت 27اپریل تک ملتوی کردی۔
پی ڈی ایم اتحاد کا موقف ہے کہ الیکشن ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ دو وجہ سے قابل قبول نہیں پہلی وجہ ازخود نوٹس لینے کی سفارش کرنے والوں کے ذاتی مفادات اور تعلقات، دوسری وجہ فیصلہ تین دو کا نہیں چار تین کا ہے۔
گزشتہ روز بلاول بھٹو نے ایک بہت اہم بات کہی ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو خدشہ ہے کہ بیک ڈور سے ون یونٹ لاگو کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔
ہم آگے بڑھتے ہیں۔ اصولی طور پر سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو عدالتی نوٹس کے بعد دیوانہ وار پیشی کے لئے شاہراہ دستور کی طرف امڈ آنے کی بجائے اس معاملے میں پارلیمنٹ سے رائے لینی چاہیے تھی کیونکہ پارلیمنٹ نے ہی ازخود نوٹس کیس کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ چار تیین کے فیصلے پر تین دو کے فیصلے کو مسلط کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے۔
یہ درست ہے کہ سیاسی جماعتیں مذاکرات کے دروازے بند کرکے نہیں بیٹھتیں لیکن یہ غلط ہوگا کہ سیاسی جماعتیں کسی دھونس اور جبر کا مقابلہ کرنے کی بجائے کسی کے لاڈلے سے مذاکرات کریں۔
ویسے یہ اچھا ہوا کہ سپریم کورٹ کے باہر عمران خان کے نمائندے فواد چودھری نے صحافیوں سے گفتگو میں یہ کہا کہ
” ہماری عمران خان سے بات ہوئی ہے وہ چاہتے ہیں جو بھی ہو سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہو ہم پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں سے بات نہیں کریں گے”
بات ہی ختم ہوئی۔ تین رکنی بنچ عدالت کی طاقت سے سیاسی جماعتوں کو جس شخص کے حضور ہاتھ باندھ کر پیش ہونے کا حکم دے رہا ہے وہی مذاکرات نہیں چاہتا۔
تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ ایک غیرقانونی ازخود نوٹس پھر اس کے فیصلے اور فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کے خلاف درخواست کی سماعت اور فیصلہ یا اب جس طرح معاملہ کو آگے بڑھایا جارہا ہے یہ سب غلط ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ الیکشن کمیشن کے اختیارات بھی سنبھالے ہوئے ہے۔ احکامات نہ ماننے پر سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی جارہی ہے۔ یہ حکم بھی دیا گیا کہ سیاسی جماعتیں 26اپریل کو اجلاس کریں اور 27 کو ہمیں اتفاق رائے سے آگاہ کریں ۔
چلیں اس حکم میں معاونت کرتا آئین کا وہ آرٹیکل دیکھادیجئے جو سپریم کورٹ کو سیاسی امور کی انجام دہی کا اختیار دیتا ہو؟ یہ بدقسمتی ہی ہے کہ اس وقت تقسیم شدہ رائے عامہ سپریم کورٹ کو ایسا پریشر گروپ سمجھ رہی ہے جو ایک جماعت کے حق میں اور دوسری کے خلاف ہے۔
یہ رائے مثبت صورتحال کی نشاندہی نہیں کرتی۔ اس لئے بالائی سطور میں عرض کیا تھا پنچایت کے لئے منتخب لوگ بڑے وضعدار ۔ حلیم، معاملہ فہم اور خواہشات و جذبات کی قربانی کا حوصلہ رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔
اب آیئے چند باتوں کی طرف آپ کی توجہ دوبارہ دلانا چاہتا ہوں ۔ ازخود نوٹس لینے کی سفارش غیرمتعلقہ تھی۔ دلچسپ بلکہ باعث عبرت بات یہ ہے کہ جس بنچ نے ازخود نوٹس لینے کی سفارش کی اس نے اصل کیس میں جو فیصلہ دیا سی سی پی او لاہور کے تبادلے والے معاملے میں اس فیصلے پر آج تک عمل نہیں ہوا کیوں؟ اس معاملہ کو چھوڑ کر پرائے پھنڈوں میں ٹانگ اڑانے کی ضرورت کیا تھی؟
ہمیں اس کیس کے ایک اہم پہلو کو دوبارہ دیکھنا ہوگا۔ یہ پہلو روز اول سے نظرانداز ہورہا ہے۔ ایک دو بار عدالت کی توجہ اس معاملہ کی طرف دلانے کی سعی کی گئی تو مزاج شاہاں کو ناگوار گزرا اور توجہ دلانے والے وکیل کو جھڑک دیا گیا۔
وہ معاملہ ہے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے مطابق ملک میں یکم مارچ سے جاری مردم شماری کا۔ یہ فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ہی کیا تھا کہ آئندہ انتخابات نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر ہوں گے۔ دو صوبوں کی اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے ازخود نوٹس کی سفارش کرنے اور نوٹس لینے والے عزت مآبوں کے مدنظر یہ اہم اور حساس معاملہ کیوں نہیں رہا۔
قانون کے ادنیٰ طالب علم اور امور مملکت کی معمولی سی سدھ بدھ رکھنے والا عام شہری بھی اس امر سے واقف ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے تحت ہونے والی مردم شماری اور نتائج کے بعد حلقہ بندیوں کے مکمل ہونے پر ہی انتخابات ممکن ہیں۔
پنجاب اسمبلی کے انتخابات کرانے کو ضد بنالینے پر بحث مقصود نہیں۔ سوال صرف اتنا ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کو بائی پاس کرکے اپنے احکامات ماننے پر اصرار کرے؟
مشترکہ مفادات کونسل ایک آئینی ادارہ ہے اس میں وفاق اور فیڈریشن کے چاروں یونٹ (صوبے) شامل ہیں۔ سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ اولاً تو ایک آئینی ادارے کے فیصلے کو خاطر میں نہیں لارہا ثانیاً یہ کہ اپنے فیصلے پر عمل کے لئے سنگین نتائج کی دھمکی دے کر یہ تاثر دے رہا ہے کہ یہ فیڈریشن نہیں ون یونٹ ہے۔ بہت ادب کے ساتھ یہ سوال کرنا پڑرہا ہے کہ سپریم کورٹ فیڈریشن کی سب سے اعلیٰ عدالت ہے یا فیڈریشن کے ایک یونٹ کی؟
میری رائے روز اول سے یہی ہے کہ مردم شماری کا التواء اور پچھلی مردم شماری، حلقہ بندیوں پر انتخاب پانچوں اسمبلیوں یا ایک اور دو اسمبلیوں کے اسی صورت ہوسکتے ہیں کہ پارلیمنٹ مردم شماری کے معاملے میں مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کے لئے وزیراعظم سے کہے۔
سپریم کورٹ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے خلاف حکم امتناعی نہیں دے سکتی یہاں تو یہ تاثر مستحکم ہوگیا ہے کہ سپریم کورٹ کے نزدیک (یوں کہہ لیجئے ایک تین رکن بنچ کے نزدیک) مشترکہ مفادات کونسل کی کوئی حیثیت نہیں۔
کیا معزز جج صاحبان اس امر سے لاعلم ہیں کہ اگر مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل نہ ہوا تو انتخاب متنازعہ ہوجائیں گے؟
مکرر اس امر کی جانب توجہ دلانا ضروری ہے کہ یہ کیسا فیصلہ ہے جو تبدیل نہیں ہوسکتا عمل نہ کرنے پر سنگین نتائج کا سامنا کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے اور پھر سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا ایک تاریخ پر متفق ہوجائیں تو درمیانی راستہ نکالا جاسکتا ہے۔
درمیانی راستہ نکالنا 90دن والے قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟ کیا سپریم کورٹ خود اپنے فیصلے سے انحراف کا حق رکھتی ہے۔ آخر کیوں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ عمران خان کو منالو تو ٹھیک ہے ورنہ ہمارا فیصلہ موجود ہے اس پر عمل کرو؟
نصف صدی سے صحافت کے کوچہ میں محنت مزدوری کرتے اس طالب علم کو اس طرح کے تماشے پہلے بار دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ توہین عدالت کا شوق ہے نہ اس کی ضرورت لیکن کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ جن تین صاحبان کے خلاف سنگین نوعیت کے الزامات کی درخواستیں موجود ہیں ان پر بھی کارروائی کرلی جاتی۔ بہرطور مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کا حکم دینا عدالت کا کام نہیں عدالت کا کام آئین و قانون کے مطابق فیصلہ دینا ہے۔
جو فیصلہ دیا گیا پارلیمان اسے متنازعہ قرار دے چکی ہے۔ پہلے اس کا حل نکالا جائے۔ لالہ سدھیر اور مظہر شاہ بننے کی ضرورت نہیں اس روش پر عمل جاری رہا تو انارکی پھیلے گی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ