مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکا اپنی تمام تر ترقی کے باوجود ایک مذہبی اور قدامت پرست معاشرہ ہے۔ اس کے کرنسی نوٹوں پر ان گاڈ وی ٹرسٹ لکھا ہوتا ہے۔ ہر چھوٹے شہر میں سیکڑوں اور ہر بڑے شہر میں ہزاروں گرجا گھر ہیں۔
لیکن گزشتہ دو تین دہائیوں میں مذہب چھوڑنے والوں کی تعداد کئی گنا بڑھی ہے۔ ہر سال کم از کم چھ ہزار گرجا بند ہورہے ہیں۔ چھ ہزار!
وال اسٹریٹ جرنل نے 1998 میں ایک سروے کروایا جس میں 62 فیصد افراد نے کہا کہ مذہب ان کے لیے بہت اہم ہے۔ اس سال یہ جواب دینے والوں کی شرح 39 فیصد تھی۔
مذہب سے دور ہونے والے سب ملحد نہیں ہوتے۔ کچھ لوگ صاف کہنے سے بھی احتراز کرتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھیں تو 1988 میں امریکا میں 2 فیصد افراد خود کو علانیہ ملحد کہتے ہیں۔ اب یہ شرح 7 فیصد ہے۔
زیادہ لوگ خود کو ملحد یا اگنوسٹ کے بجائے غیر مذہبی کہتے ہیں۔ 1950 کی دہائی میں ایسے لوگوں کی تعداد 2 فیصد سے کم تھی۔ اب یہ تعداد 20 فیصد سے زیادہ ہے۔
جس قدر میں پاکستانی معاشرے کو جانتا ہوں، ایک صحافی ہونے کی وجہ سے اور مختلف مزاج کے لوگوں سے تعلقات کی وجہ سے، میرا خیال ہے کہ آبادی کی اکثریت دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ کٹر مذہبی اور کٹر مذہب دشمن۔ اس وقت یہ شرح نوے فیصد اور دس فیصد ہوگی۔ لیکن مذہب سے نفرت بڑھے گی۔ کٹر مذہبی خاندانوں کے بچے باغی ہورہے ہیں اور مستقبل میں زیادہ ہوں گے۔ سختی بغاوت کو جنم دیتی ہے۔
میں ان لوگوں میں شامل نہیں جو ردعمل میں مذہب سے دور ہوتے ہیں۔ خیر، میں کوئی ایسا دور بھی نہیں۔ لیکن ایسے لوگ، جو مطالعے، سوچ بچار اور شعور بڑھنے پر ریشنلسٹ ہوتے ہیں، وہ ہر معاشرے میں کم ہیں۔ ڈارون اور آئن اسٹائن ایسے ہی آدمی تھے۔ کافکا اور صادق ہدایت بھی۔ جوش ملیح آبادی اور جون ایلیا بھی۔ حاشر ابن ارشاد، جمیشد اقبال، یاسر جواد اور سعید ابراہیم بھی۔ ان میں سے کوئی ملحد نہیں۔ کوئی مذہب دشمن نہیں۔ دلیل سے قائل ہوجانے والا عقلیت پسند ہوتا ہے۔ یہ سب عقلیت پسند ہیں۔ میں غیر مقلد ہوں لیکن ان سب کا مقلد ہوں۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر