عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت حکومت میں شامل قریب قریب 13 جماعتیں اور حزب اختلاف میں تحریک انصاف اور اُس کے اتحادی جبکہ دوسری جماعتیں جیسے جماعت اسلامی یہ سب کی سب "بلوچستان” میں بلوچ قومی تحریک کے ریڈیکل چاہے وہ مسلح جدوجہد کرنے والے ہیں یا پرامن جدوجہد کرنے والے کے بارے میں پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ کی پالیسی پر مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں –
ایسے بلوچ قوم پرست جنھیں فوجی اسٹبلشمنٹ اپنے تئیں ہندوستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے جوڑے ہوئے ہے چاہے وہ حقیقی سیاسی جدوجہد کرنے والے رہنماء اور کارکن ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ وہ سی پیک سمیت مرکز کے بلوچستان کے ترقیاتی و انتظامی گورننس و منیجمنٹ کے طریقہ کار کو پسند نہیں کرتے یا اس سے کھلا اختلاف کرتے ہیں اُن کے بنیادی انسانی حقوق و سیاسی و شہری آزادیوں کے سوال کو بھی حکونت اور اپوزیشن دونوں میں شامل جماعتوں نے غیرترجیحی فہرست میں ڈالا ہوا ہے –
بدقسمتی سے فوجی اسٹبلشمنٹ نے جب یہ دعویٰ کیا کہ وہ غیرسیاسی ہوگئی ہے تو ہمارے کسی بھی تجزیہ کار نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ فوجی اسٹبلشمنٹ نے "غیرسیاسی” ہونے کی تعریف کیا مقرر کی ہے؟
کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ کیا فوجی اسٹبلشمنٹ نے پاکستان کی داخلی اور خارجی سلامتی کی پالیسی کی تشکیل سازی کے ازخود لیے اختیار سے بھی دست برداری کرلی ہے؟ کیا بلوچستان میں اُس نے جو ڈی فیکٹو منیجمنٹ قائم کر رکھی ہے اور اسی طرح اُس نے کے پی کے سابقہ 7 قبائلی ایجنسیوں میں عملاً سارا اختیار خود لے رکھا ہے کیا وہ اُس سے دستبردار ہوئی ہے؟
ہمارے ہاں کسی نے یہ سوال بھی نہیں اٹھایا کہ کیا فوجی اسٹبلشمنٹ اب بھی جئے سندھ قومی محاز، بلوچ نیشنل موومنٹ جیسی قوم پرست جماعتوں اور پی ٹی ایم جیسی پشتون تحفظ موومنٹ کے حوالے سے سویلین ایڈمنسٹریشن، سویلین سیکورٹی و انٹیلی جنس ایجنسیز اور یہاں تک کہ عدلیہ کو بھی ویسے ہی انڈر کنٹرول رکھے ہوئے ہے جیسے پہلے کرتی تھی؟
وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے عہدے داران اب بھی کہتے ہیں کہ پی ٹی ایم کی قیادت، ایم این اے علی وزیر اور پی ٹی آئی کے اعظم سواتی پر درج مقدمات میں اُن کا ہاتھ نہیں – بلوچستان میں بلوچ قوم پرستوں کی جبری گمشدگیاں، ٹارگٹ کلنگ، اُن کی جلسے جلوس کرنے کی آزادی پر پابندیاں یہ سب جاری و ساری ہیں-
پی ٹی ایم، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی (کاکڑ گروپ) ، بلوچ نیشنل موومنٹ، جئے سندھ قومی محاذ ایسے تمام سیاسی گروہ اب بھی جبر و دباؤ کا شکار ہیں – اور یہ جبر کہاں سے کیا جارہا ہے اس بارے دوسری رائے نہیں ہے –
فوجی اسٹبلشمنٹ نے نائن الیون کے بعد بھی نیشنل سیکورٹی کی پالیسی اور منیجمنٹ اپنے ہاتھ میں رکھی اور 2018ء میں جو تھوڑا بہت اختیار سویلین کے پاس تھا اُسے بھی انھوں نے اپنی پسند کا سیٹ اپ لاکر حاصل کرلیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم نے یک سُو ہوکر 2008 سے 2018ء تک جو کامیابیاں لی تھیں اُن سب کو ریورس گیئر لگ گیا- امریکہ سے لیے گئے 20 ارب ڈالر کھوہ کھاتہ ہوگئے – آپریشن ضرب عضب کی آپریشنل کاسٹ ایک ارب 90 کروڑ اور آپریشن ردالفساد کا خرچ 3 ارب 67 کروڑ ڈالر تھا- اس کے بعد کروڑوں ڈالر انٹیلی جنس انفارمیشن بیسڈ ٹارگٹڈ آپریشن پر خرچ کیے گئے اور اس دوران کئی بار یہ دعوے کیے گئے کہ تحریک طالبان پاکستان و دیگر دیشت گرد گروپوں کی کمر توڑ دی گئی ہے اور اب وہ دوبارہ منظم نہیں ہو سکیں گے –
لیکن محض چار سالوں میں ہمیں یہ پتا چلا ہے کہ ٹی ٹی پی نہ صرف دوبارہ منظم ہوگئی ہے بلکہ اس مرتبہ اُس کا تنظیمی ڈھانچہ بھی قبائلی نہیں بلکہ شہری بنیادوں پر کھڑا ہے اور اُس نے دس ڈویژن میں پاکستان کو تقسیم کرکے اپنا تنظیمی نیٹ ورک قائم کرلیا ہے –
اس سب کی سب سے بڑی زمہ داری کیا پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ پر عائد نہیں ہوتی؟
اگر پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف 20 ارب ڈالر کی مہنگی ترین جنگ کی قیادت کرنے والے فوجی افسران کے اربوں اور کروڑوں کے اثاثے ہوں اور مابعد جنگ کے تین سال بعد دوبارہ وہی حالات ہوں تو کیا ان سب فوجی افسران کو کہٹرے میں لاکر کھڑا کرنا نہیں بنتا؟ فوجی اسٹبلشمنٹ کی سابق قیادتوں نے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بلنڈر نہیں کیے بلکہ اس نے پاکستان کے سیاسی و معاشی مستقبل کو برباد کیا، اگر فوجی اسٹبلشمنٹ کے بقول اُن کا احتساب کا اپنا میکنزم ہے تو اس میکنزم کے تحت اس تباہی کے زمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوتی سب کو نظر آنی چاہیے –
پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کی قیادت فوجی اسٹبلشمنٹ کے غیر سیاسی ہونے کی انتہائی محدود اور تنگ تعریف کا ڈھول پیٹ رہی ہے اور وہ کٹھ پتلی، سلیکٹڈ پر سلیکٹرز اور انسٹرکٹرز سے زیادہ پتھر برسارہی ہے – سسٹم صرف ہائبرڈ ہی نہیں بلکہ اس میں ابھی تک توازن بھی نہیں ہے اور پلڑا کم از کم نیشنل سیکورٹی کے معاملے میں زیادہ فوجی اسٹبلشمنٹ کی طرف جھکا ہوا ہے
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر