نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کوئی اچھی خبر؟……||رسول بخش رئیس

رسول بخش رئیس سرائیکی وسیب کے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے رہنے والے ہیں وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ملکی ،علاقائی اور عالمی معاملات پر مختلف اخباروں ،رسائل و جرائد میں لکھ بھی رہے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملکی حالات پر جتنا کوئی غور وفکر کرتا ہے‘ کچھ دیر بعد تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے۔ سیاسی دھاگے اس قدر الجھ چکے ہیں کہ آپ جتنا بھی ہاتھ پائوں ماریں‘ نظریں گاڑ کر رکھیں‘ رنگ برنگے دھاگوں کے یہ گچھے سلجھنے کے نہیں۔ دوجانوراگر جنگل میں لڑرہے ہوں‘ ان کے سینگ پھنس جائیں تو جلد ہی ایک ہار مان کر میدان چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ زور آزمائی طویل ہوجائے تو دوسرے جانوروں میں سے کوئی اور ٹکر مار کر امن و آتشی قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پرندوں کی لڑائی تو گھونسلوں پر قبضہ جمانے کے لیے ہم تقریباً روز ہی دیکھتے ہیں۔ چند لمحوں میں وہ ختم ہوجاتی ہے‘ا ور وہ اُڑ کر درخت کی کسی اور شاخ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ پاکستان میں میدانِ سیاست کے نامور کھلاڑیوں نے اپنی زندگیاں سیاسی لڑائیوں کی نذر کر دی ہیں۔ اُن میں سے اکثر کی جوانیاں گزر گئیں‘ ہماری طرح عمرکے آخری حصوں کی طرف اُن کا سفر جاری ہے‘ مگر خواہشِ اقتدار کا غلبہ دل و دماغ پر اتنا حاوی ہے کہ وہ کچھ بھی کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ ان کی اپنی زندگی کے سیاسی تضادات جتنے بھی کھول کر ان کے سامنے رکھے جائیں اور پرانے انٹرویوز کی برقی پٹیاں انہیں دکھائی جائیں‘ کہیں گے کہ پہلے بھی ان کا مؤقف درست تھااور اب بھی درست ہے۔ عدالت عظمیٰ کی خود مختاری کے بارے میں ماضی کے بیانات کا جائزہ لیں یا ایک دوسرے کے خلاف زبان و کلام کا یا انتقام اور مقدمہ بازی کا ریکارڈ پیش کریں‘ ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ اگر ہے تو آج کے حالات میں اپنی سیاسی پوزیشن کو دوسروں کے مقابلے میں کیسے بہتر بنانا ہے۔ ان میں کوئی اصولی اتفاق نہیں‘ بس ایک خوف ہے کہ یہ سونامی ان کی سیاسی بستیاں بہا کر نہ لے جائے۔ اور یہ خوف بے بنیاد نہیں۔
پرانے کھلاڑی تو وہ تھے ہی‘ تیرہ جماعتی اتحاد کے تین بڑے اب اکٹھے مل کر کپتان کا راستہ روکنے کے لیے ‘سب جائز ہے‘ کے فارمولے کے مطابق معاملات کو اس نہج پر لے گئے ہیں کہ اس بحران میں امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ تحریک انصاف نے بھی اس بحران میں شدت پید اکرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کے پیچھے جو بھی طاقتیں تھیں‘ آئینی لحاظ سے آپ اسے غلط تو نہیں کہہ سکتے۔ جس نے جادوکی چھڑی سے خان کے سب سیاسی حریفوں‘ گویا ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کیا اور اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرڈالا۔ خفیہ مداخلت سہی‘ مگر نہ پہلی بار تھی نہ آخری بار۔ جو نظام کئی دہائیوں سے چلایا جارہا ہے‘ اسی سے عمران خان صاحب خود بھی مستفید ہوچکے ہیں۔ کپتان نے آزادی کے نام پر مزاحمت شروع کررکھی ہے اور آئین کی بالادستی کی بات اور سویلین حاکمیت کا نعرہ لگایا ہے۔ ان کے حلقوں میں ردعمل بھی شدید ہے۔ ہر روز نئے مقدمات اور پارٹی کے رہنمائوں کے ساتھ ناروا سلوک ہوتا ہے۔ دوسروں کو مہرے میسر ہیں‘ ایک نہیں‘ دو نہیں‘ تیرہ‘ جن میں وہ بھی شامل ہیں جو کچھ نہ کچھ سیاسی مقبولیت رکھتے ہیں۔ موقع پرستی اگر کسی نے سیکھنی ہو تو یہ اتحاد ایسی سیاست میں ہارورڈ کی حیثیت رکھتا ہے۔ راتوں رات ”ووٹ کو عزت دو‘‘ اور ”اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا‘‘ کے نعرے کراچی اور لاہور کی کثیف دھند میں تحلیل ہوگئے۔ آج وہ بھی خوش‘ یہ بھی خوش۔ اُنہوں نے تو کہہ رکھا ہے کہ بس آپ خاموشی سے اپنا پیشہ ورانہ کام کریں‘ پر چھوڑ دیں کہ کپتان اور اس کی جماعت کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ دوسری جانب کپتان بھی اپنے بیانیے اور مقبولیت کے زور پر پیچھے ہٹنے کے لیے نہیں جبکہ دوسروں کے منصوبے بھی اب کھل کر سامنے آگئے ہیں کہ کچھ ہوجائے اس کا راستہ روکنا ہے۔ ان کا ڈر بے بنیاد نہیں‘ اگر دو اسمبلیوں کے انتخابات سپریم کورٹ کے چار اپریل کے فیصلے کے مطابق ہوجاتے ہیں تو اتحادیوں کی بساط الٹ جائے گی۔ موروثیت اور گدی نشینی کی سب تیاریاں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ وہ کیسے اپنی کئی عشروں کی سیاست کو ملیا میٹ ہوتا دیکھ سکتے ہیں ؟ اس لیے اب سارا زور اس بات پر ہے کہ موجودہ حالات میں انتخابات کرانا اور خصوصاً دو اسمبلیوں کے علیحدہ کرانا ملک کے مفاد میں نہیں۔ مگر کیا کریں‘ یہ تو آئینی ضرورت ہے اور اس کی تشریح اور واضح فیصلہ سپریم کورٹ کی طرف سے آچکا۔ چار اپریل کے بعد سے حکومت کی یہی کوشش ہے کہ فیصلے کو نہ مانا جائے۔ کبھی پارلیمان کا سہارا لیتے ہیں تو کبھی عدالت عظمیٰ کے اندر اختلافات کا بہانہ بناتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ بینچ پر کتنے جج صاحبان تھے‘ فیصلے کو دیکھا جاتا ہے۔ ایک کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ تصور ہوتا ہے۔ یہ سب کو معلوم ہے مگر مقصد دھاگے کے گچھے کو مزید الجھانا ہے۔ اس کی کوئی پروا نہیں کہ معیشت تباہ ہو چکی‘ عوام میں مایوسی زور پکڑتی جارہی ہے‘مہنگائی کا تو ذکر نہ کریں۔ مالدار طبقے کے سوا سب پریشان ہیں۔ حالات کی خرابی ایسے ہی رہی تو سیاسی فائدہ نہ تیرہ جماعتی اتحاد کو ہوگا اور نہ ہی اس کے سرپرستوں کو۔ ایسے میں بیانیہ اور سیاست حزبِ اختلاف کی مضبوط ہوتی ہے۔ میری رائے ان مبصرین کے ساتھ ہے جو کہتے ہیں کہ موجودہ بحران کے سیاسی نتائج کپتان کے حق میں جائیں گے۔
شروع میں جنگلی جانوروں اور پرندوں کی مثال دی کہ فطرت میں مسلسل فساد سے نسل کشی کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ انسانوں اور ہمارے سیاست بازوں کا معاملہ اور ہے۔ یہ فطرت کے اصولوں سے اور نہ ہی اپنی تاریخ سے کچھ سیکھنے کے لیے تیار ہیں۔ ہماری تاریخ میں بھی قومی ادارے‘ کچھ قدآور سیاسی شخصیات اور کچھ حریف اتحادوں سے علیحدہ سیاسی جماعتیں ایسے بحرانوں کو حل کرانے اور سب کو اکٹھا بٹھا کر بات چیت کرانے کی کوشش کرتی تھیں مگر اب ملک میں تقسیم کی لکیر اتنی گہری ہوچکی ہے کوئی غیر جانبدار ہے اور نہ ہی کسی کی ساکھ رہ گئی ہے کہ سب کو اکٹھا کرسکے۔ جب میاں نواز شریف اور غلام اسحاق خان کے درمیان مسائل پیدا ہوئے تو ثالثی جنرل کاکڑ نے کی تھی‘ جو بعد میں دوسرے بھی کرتے رہے۔ ایک سال اقتدار میں رہنے کے بعد آصف علی زرداری جنرل مشرف کی برخاست کردہ عدلیہ بحال کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ دبائو سیاسی بھی تھا اور تیسری طاقت کی طرف سے بھی اور مسئلہ آخر کار حل ہوگیا۔ موجودہ بحران میں ہمیں کوئی نواب زادہ نصراللہ خان بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ بدقسمتی سے میڈیا کو بھی دو دھڑوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ کوئی معتبرنہیں رہا کہ سیاسی لڑائی کو بند کرا سکے۔ بلکہ اگر سب نہیں تو بھی ان میں سے ایک بڑی تعداد سیاسی آگ کے شعلوں کو بھڑکا کر خوش ہوتی ہے۔ہمیں کسی قسم کا لڑائی جھگڑا پسند نہیں۔ قومی سطح پر تو کسی طور نہیں۔ کسی زمانے میں پھلتا پھولتا ملک تباہی کے راستے پر بے مہار ہے۔ اس عالم میں کم از کم آصف علی زرداری نے قدم تو درست سمت اُٹھایا ہے کہ مذاکرات کیے جائیں‘ آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ یہ ذمہ داری وزیراعظم کی بنتی ہے‘جو بھی معروضی حالات ہوں‘ کپتان کو بھی نئے انتخابات کے لیے بات کرنا ہوگی۔ یہ قوم اچھی خبر کے لیے ترس رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author