حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیجئے سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے چیمبر سماعت کے دوران سٹیٹ بینک کو حکم دیا ہے کہ وہ حکومتی فنڈز میں سے الیکشن کمیشن کو 21ارب روپے پنجاب میں الیکشن کرانے کے لئے جاری کردے ۔ جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں اس وقت پارلیمنٹ کا اِن کیمرہ سیشن جاری ہے۔ اِن کیمرہ سیشن میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے جبکہ آج جمعہ کی شام 5بجے قومی اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بھی بلالیا گیا ہے۔ اس کی روداد اس کالم کی اشاعت تک آپ پڑھ چکے ہوں گے
گزشتہ روز سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بنچ نے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ رولز کے اس قانون پر عملدرآمد تاحکم ثانی روک دیا تھا جو ابھی نافذ ہی نہیں ہوا۔ دوسری طرف قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو 21ارب روپے دینے کا بل مسترد کردیا۔ حکومتی اتحاد نے پارلیمنٹ کی بالادستی کا تحفظ کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھارکھنے کا اعلان کیا ہے
اپریل 2022ء میں جنہیں لگتا تھا کہ اقتدار اعلیٰ پارلیمنٹ سے شاہراہ دستور منتقل کردیا گیا ہے وہ اب شاہراہ دستور پر دھمال ڈال رہے ہیں۔
گزشتہ اپریل میں ہی ان سطور میں عرض کیا تھا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ اور صدر کی طرف سے قومی اسمبلی توڑنے کی منظوری ہر دو کے خلاف لیا گیا از خود نوٹس اصل میں آئین شکنی کے مرتکب افراد کو قانونی کارروائی سے بچانے کا عمل ہے۔ ملک کو جوڈیشل اقتدار اعلیٰ کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ قانون ساز دوستوں اور بعض ناقدین نے اس رائے پر آڑے ہاتھوں لیا تھا
کیا میں اپنے ان قابل احترام دوستوں سے آج کے حالات میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ اب ان کی رائے وہی ہے جو پچھلے برس اپریل میں تھی یا بدلتے ہوئے حالات میں انہیں منصوبہ کچھ کچھ سمجھ میں آرہا ہے؟۔
سپریم کورٹ کے بعض حالیہ فیصلے اس وقت تک قانونی حیثیت حاصل نہیں کرپائیں گے جب تک جسٹس قاضی والے تین رکنی بنچ کا فیصلہ قانونی طریقہ سے ختم نہیں ہوتا۔ سادہ سا مطلب یہ ہے کہ جسٹس قاضی والے تین رکنی بنچ کے بعد چیف کے تین رکنی بنچ اور عجلت میں بنوائے گئے 6رکنی بنچ کے فیصلوں کی قانونی حیثیت پر سوالات ہیں۔ اس سے اہم اور بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ملک میں جوڈیشل اقتدار اعلیٰ قائم کردیا گیا ہے؟
بظاہر تو ایسا ہی لگ رہا ہے کہا جاتا ہے کہ ملک کے سارے ادارے سپریم کورٹ کا حکم ماننے کے پابند ہیں۔ سپریم کورٹ بھی کسی کو جوابدہ ہے کہ نہیں؟
آئین سپریم کورٹ کو قانون کی تشریح کا اختیار دیتا ہے قانون سازی کا نہیں۔ تشریح بھی اس حد تک جہاں دستور کی حرمت اور پارلیمنٹ کا حق قانون سازی متاثر نہ ہوں۔
ہاں پچھلے چند برسوں سے سپریم کورٹ نے دستور نویسی کا کام بھی سنبھال لیا ہے۔ آرٹیکل 63اے والے معاملہ پر جب دستور نویسی ہوئی تھی تو پارلیمان کا فرض تھا کہ وہ اس کا نوٹس لیتی۔ نہیں لیا تو اب نتائج پارلیمان کے سامنے ہیں۔
یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے گزشتہ روز آٹھ رکنی بنچ کے فیصلہ پر پارلیمنٹ میں جو تقاریر ہوئیں اور بعدازاں حکومتی اتحادیوں کی پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر قانون نے پنجاب اور سندھ سے دو جونیئر ججوں کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کے معاملے پر حکومت کے کہنے پر ووٹ دینے کے عمل کی قوم سے معافی مانگی۔
کیا وہ فیصلہ حکومت کا اجتماعی تھا یا میاں نوازشریف کا فیصلہ تھا جس پر عمل کروایا گیا؟
معاف کیجئے گا وفاقی وزیر قانون سے 2غلطیاں ہوئیں پہلی یہ کہ انہوں نے سینارٹی کے اصول اور بار کونسلوں کی منشا کے خلاف اپنا ووٹ چیف جسٹس کے پلڑے میں ڈال کر جونیئر ججز کو سپریم کورٹ پہنچایا۔ دوسری غلطی ان سے یہ ہوئی کہ جب سندھ سے سینئر ترین جج کو سپریم کورٹ میں تعینات کرنے کا معاملہ زیربحث آیا اور چیف جسٹس نے یہ کہا کہ میں سندھی جج سپریم کورٹ میں نہیں دیکھنا چاہتا تو فیڈریشن کے وزیر قانون کا اس وقت کیا فرض بنتا تھا؟
اب آیئے اس پر بات کرتے ہیں کہ کیوں ایک طویل عرصہ سے سندھی بولنے والوں سے امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔ ثاقب نثار کا بھی اس طرح کا بازاری رویہ تھا اور تو اور صوبہ سندھ سے ہی تعلق رکھنے والے گلزار احمد بھی اس حوالے سے سطحی سوچ کے مالک تھے۔
اب اگر یہ کہا جائے کہ ایک خاص طریقہ سے سپریم کورٹ میں پنجاب کی بالادستی بنوائی گئی تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ پچھلے ایک سال کے دوران سپریم کورٹ کے ان بنچوں کی تشکیل پر نگاہ ڈال لیجئے جن بنچوں نے تحریک انصاف کے حق میں فیصلے سنائے سارا کھل سمجھ میں آجائے گا۔
آئین و قانون کے محافظ کہلانے والے ادارے میں اگر تعصبات کے اظہار اور تعلق نبھانے کے لئے مخصوص بنچ بنائے جائیں گے تو سوال کرنے والوں کی زبانوں پر تالے نہیں لگائے جاسکتے۔
کیا دلچسپ بات ہے اسی سپریم کورٹ نے پنجاب اسمبلی کے الیکشن کے انعقاد کو زندگی موت اور بظاہر آئین کی بالادستی کا مسئلہ بنالیا ہے لیکن ایک ہی معاملے میں لئے گئے ازخود نوٹس کے آدھے حصے پر فیصلہ سنادیا اور خیبر پختونخوا کے معاملے پر دائر ہوئی درخواست پر اعتراض لگاکر درخواست واپس کردی۔
بچوں کا کھیل ہے کہ سمجھ میں نہ آرہا ہو کہ کیا ہورہا ہے ۔
کیا دنیا میں ایسی کوئی مثال ہے کہ کوئی قانون نافذ ہی نہ ہوا ہو اور حکم امتناعی آجائے؟
خیر یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اس ملک میں سپریم کورٹ فوجی آمروں کے اقتدار کو جائز قرار دیتے ہوئے فیصلے میں لکھتی ہے کہ اگر فوج اقتدار نہ سنبھالتی تو ملک دیوالیہ ہوجاتا۔ اسی فیصلے میں بری فوج کے سربراہ کو تیین برس کا اقتدار لکھ کر دیا جاتا ہے اور ساتھ میں آئین میں ترمیم کا حق بھی پھر توقع یہ کی جاتی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کو زیربحث نہ لایا جائے۔
بہرطور فی الوقت صاف سیدھی بات یہ ہے کہ عدالتی اصلاحات کے خلاف حکم امتناعی دینے والے 8رکنی بنچ کے ارکان کی صوبائی اور قومیتی شناخت زیربحث آچکیں یہ کیوں آئیں بہت احترام کے ساتھ عرض کروں یہ بنچ کی تشکیل کے عمل میں سینئر ججز کو نظرانداز کرنے سے ہوا۔
مجھے یوٹیوبرز کی چپیڑوں اور اسٹکوں والی خبروں سے کوئی دلچسپی نہیں نہ ہی چہل قدمی میں دو لوگوں کے الجھنے اور پارک میں پڑا ڈنڈا اٹھالینے کی خبر سے ہے البتہ یہ حقیقت ہے کہ جمعرات کو سپریم کورٹ کے اندر بعض ایسے واقعات ہوئے وہ اگر نہ ہوتے تو اچھا تھا۔
بدقسمتی کہہ لیجئے دوسروں کو انسانیت، قانون، بنیادی حقوق اور آئین کا احترام کرنے کا درس دینے والے خود ان چیزوں کی مخالف سمت میں کھڑے ہیں ایسے میں اگر کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ تخت پنجاب پر قبضہ کی جنگ ہے تو اس پر ناک چڑھانے اور پھبتیاں کسنے کی ضرورت نہیں۔
پچھلے برس اپریل میں جب آئین کی خلاف ورزی کی مرتکب 5شخصیات کو ازخود نوٹس لے کر محفوظ راستہ دیا گیا تھا اسی وقت عزائم اور منصوبہ بندی دونوں کا اندازہ لگالیا جانا چاہیے تھا۔
اسی طرح جونیئر ججوں کو سپریم کورٹ میں بھیجنے کے عمل میں شریک ہوکر وفاقی حکومت نے اپنے چہرے پر خاک مل لی۔ گو یہ فیصلہ خالص میاں نوازشریف کا تھا کیونکہ رابطہ کار ان سے براہ راست رابطے میں تھے اور یقین دہانی بھی انہیں کروائی گئی تھی۔
میاں صاحب آجکل عمرہ پر ہیں انہیں وہاں اللہ اللہ ہی کرتے رہنا چاہیے ان کے مصلحت سے بھرے فیصلے کے نتائج اب حکومت کو بھگتنا ہوں گے۔
سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کی جو لڑائی جاری ہے اس میں سے خیر نہیں نکلے گا کوئی ادارہ جب خود کو دستور اور پارلیمان سے بالاتر سمجھنے کے زعم میں مبتلا ہوجائے تو خیمازہ صرف وہ ادارہ نہیں بلکہ پورا نظام بھگتتا ہے۔
پچھلے دو ماہ سے آئین سے ماورا جس انتظام کی افواہیں اڑائی جارہی ہیں تحقیقات کرکے دیکھ لیجئے ان کا مرکز آسانی سے مل جائے گا۔
مکرر عرض ہے جو ہورہا ہے اچھا ہرگز نہیں ہورہا۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ یہاں جس کے پاس معمولی سا اختیار بھی ہو وہ دوسروں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ سیاست و صحافت کے ہم ایسے طلباء کے سامنے صوبہ سندھ زندہ مثال ہے جہاں منتخب حکومت کے متوازی ایک نہیں دو دو حکومتیں چل رہی ہیں پھر بھی سندھ حکومت کا حوصلہ ہے کہ آگے بڑھتی آرہی ہے۔
وفاق کو یہ تجربہ پہلی بار گو نہیں ہوا لیکن اس طرح کے حالات پہلے نہیں تھے۔ پہلے صرف نوٹس نوٹس کھیل کر مسائل پیدا کئے گئے۔ اب تو خود کو آئین سے ماورا تصور کرلیا گیا ہے۔
حرف آخر یہی ہے کہ تخت پنجاب پر قبضے کی اس جنگ میں ملک کا ایک ادارہ جو کردار ادا کررہا ہے اس سے فیڈریشن کی بنیادیں ہل کر رہ جائیں گی اس لئے مناسب ہوگا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا بھرم قائم رہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ