جولائی 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شرعی شادی، شکلیں اور 8 رکنی بنچ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران خان کی تیسری شادی کے معاملات عدالت میں لے جانے، نکاح خواں کا بیان کروانے اور سوشل میڈیا پر جاری ادہم پر سر کھپانے کی ضرورت نہیں پھر بھی دو تین باتیں عرض کرکے آگے بڑھتے ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ کسی سیاستدان یا اور بھی کسی کے نجی معاملات پر بحثیں اٹھانے ’’اٹھوانے‘‘ کی ضرورت نہیں۔ ہماری نسل ایسی کمینگی بھری شُرلیوں، بحثوں اور کج بحثیوں کے نتائج بہت قریب سے دیکھ چکی۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر مفتی سعید اتنے ہی بُرے شخص ہیں تو وہ عمران خان کے رفیق خاص، نکاح خواں اور پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے رکن کیسے بن گئے۔

جنرل امجد شعیب اور ایک ’’تازہ‘‘ عاشق عمرانیات نے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر جو کہا لکھا اس پر تو خود ان کے خلاف قذف کے قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔

تیسری بات کیا یہ واقعہ پہلی بار ہوا؟ آپ مسلم تاریخ کے اوراق کھنگالئے اس طرح کے واقعات مل جائیں گے۔ پڑھیں اور ’’ایمان کا رانجھا‘‘ راضی کریں۔

یہ جن لوگوں کو گزشتہ دوپہر سے اخلاقیات، ذاتی زندگی، اسلامی تعلیمات وغیرہ وغیرہ یاد آرہے ہیں ان کی یاد آوری صرف عمران خان کے مسئلہ پر کیوں؟

ابھی چند روز قبل زرتاج گل نامی ایک عورت عمران خان کے گھر کے باہر کھڑی سابق وزیراعظم نوازشریف کی صاحبزادی کے لئے جو کچھ کہہ رہی تھی وہ یقیناً اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہوگا۔

چند برس ہوئے ہیں عمران خان نے ایک خاتون ریحام خان سے دوسری شادی کی تھی محبین عمران خان نے اسے مادر ملت ثانی کا لقب دیا پھر جب عمران نے اسے طلاق دی تو مادر ملت کو حرافہ، ٹھگ، بیسوا اور نجانے کیا کیا کہا لکھا گیا بلکہ اب بھی اس کے ٹیوٹر اکائونٹ پر محبین عمران خان اسے جو کچھ کہتے ہیں وہ سوشل میڈیا تک رسائی رکھنے والا کوئی بھی شخص دیکھ سکتا ہے۔

خاتون صحافیوں سیدہ عاصمہ شیرازی و غریدہ فاروقی اور مخالفین کے لئے زبان درازی کرتے وقت اسلامی تعلیمات، اخلاقیات وغیرہ پتہ نہیں کہاں تیل لینے چلے جاتے ہیں۔

اس سارے تام جھام کے باوجود یہی عرض کروں گا کہ ہمیں یعنی ہم سب کو احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے البتہ محبین عمران خان کو کامل آزادی ہے وہ کسی کو بھی گالی دیں اس کی جنس کا مذاق اڑائیں یا منفی انداز میں پیش کرتے پھریں ۔

کسی خاتون کا کسی سے بھی رشتہ باندھ دیں اس لئے ان کی سیاسی فکر کی غذا یہی ہُلڑبازی ہے۔ اکتوبر دو ہزار گیارہ سے ہم یہی دیکھ بھگت رہے ہیں۔

مکرر عرض ہے عمران خان کی تیسری شادی کے حوالے سے کھولا گیا باب پڑھانے رٹانے اور اس پر تماشے لگانے کی ضرورت نہیں البتہ عمران خان کو بھی چاہیے کہ اپنے محبین اور خصوصاً زرتاج گل نامی عورت اور دوسروں کو سمجھائیں کہ جو زبان وہ استعمال کرتی پھر رہی ہیں متاثرین کے ہمدردوں نے بھی وہی زبان استعمال کی تو فساد بڑھے گا۔

عمران خان نے دوسری شادی کیسے اور کن حالات میں کی پھر طلاق کیوں دی، تیسری کیوں کی کن حالات میں کی ان پر مغز کھپانے کی ضرورت کیا ہے۔

ان کی سیاست، زبان و بیان اور دور حکومت کے کج ہی اتنے ہیں کہ ان پر کڑی سے کڑی گرفت کی جاسکتی ہے۔ مثلاً انہوں نے ایک کاغذ لہراتے ہوئے جس سائفر سازش کا بیانیہ فروخت کیا تھا اس میں پچھلے ایک سال کے دوران جتنے رنگ بھرے اور کردار ڈالے اس سے یہ امر واضح ہوگیا کہ وہ پہلے دن سے غلط بیانی کررہے تھے۔

ان کے حامی انہیں قدرت کا انعام اور مخالفین میں سے کچھ قدرت کی جانب سے دی گئی سزا قرار دیتے ہیں۔ دونوں کے پاس اپنے اپنے موقف کے حق میں دلائل کے انبار ہیں حالانکہ وہ انعام قدرت ہیں نہ سزا بلکہ وہ اس ملک کے نظام پر قابض اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق تھے اور تخلیق کی وجہ یہ تھی کہ سیاست میں ایک ہماری پارٹی بھی ہونی چاہیے

اس ہماری پارٹی والی بات کو مزید بہتر انداز میں سمجھنے کیلئے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ ظہیرالاسلام کی ویڈیو تلاش کرکے سن لیجے ۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ گزشتہ دوپہر سے اخلاق کے دیوتا بنے اخلاقیوں کواس وقت بھی اخلاقیات کا دامن تھاکر رکھنا چاہیے تھا جب وہ ایان علی نامی خاتون کو زرداری کی نیم منکوحہ اور ڈاکٹر تنویر زمانی کو منکوحہ ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے تھے اور کچھ تو ایان علی کی میڈیکل رپورٹ ٹی وی سیکرینوں پہ لہراتے تھے ۔

ایان علی اور تنویر زمانی کے پراجیکٹ ان ماہرین اخلاقیات کو اس وقت کے آئی ایس پی آر کے سربراہ نے عطا کئے تھے۔ قصہ مختصر یہ کہ یہ شرعی و غیرشرعی نکاح والی بحث اور ڈھمکیریاں فضول باتیں ہیں ویسے بھی پسندیدہ بزرگوں کی روایات پر عمل پر باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔

ایک بات اور عرض کردوں یہ جو اتاولے تجزیہ نگار اور اینکرز و یوٹیوبرز مفتی سعید کا ماضی اور ان کے کچھ گھریلو معاملات سوشل میڈیا پر زیربحث لارہے ہیں وہ بھی عمران خان کی خدمت نہیں کررہے بلکہ اس کے لئے مزید کانٹے بورہے ہیں۔

بہت ادب سے خبردار ہی کرسکتا ہوں کہ اس ساری کھیچل کا جو نقصان ہوگااس سے بچ کے رہا جائے تو بہتر ہے۔

اب آیئے فواد چودھری بارے دو باتیں کرلیتے ہیں موصوف نے گزشتہ روز چند مخالف سیاسی رہنمائوں کی شکلوں پر تبصرہ کیا۔ کاش کسی دن وہ آئینہ میں اپنی شکل دیکھ لیتے۔ کچھ لوگوں کو انہوں نے ٹائوٹ قرار دیا، مہربانی کرکے وہ عمران خان کے رفیق خاص اور پی ٹی آئی کور کمیٹی کے بانی رکن سینئر قانون دان حامد خان کی تحریر کردہ کتاب کے وہ اوراق پڑھ لیں جن میں ان کی ٹائوٹ گیری کی کہانیاں درج ہیں اور یہ کہانیاں ان دنوں کی ہیں جب فواد چودھری کے چچا، چودھری افتخار حسین لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ہوا کرتے تھے،

بات بات پر لوگوں کو قانونی کارروائی کی دھمکی دینے والے فواد چودھری نے آج تک حامد خان کی کتاب میں اپنے بارے لکھے گئے ٹاوٹ گیری کے واقعات کی تردید کی نہ ان کے خلاف قانونی کارروائی۔

رہا معاملہ شکلوں کا تو اس کی ایک متھ وہی ہے کہ یہ اللہ بناتا ہے دوسری سائنسی متھ ہے جو اس حقیقت سے پردہ ا ٹھاتی ہے کہ خدوخال نشونما اور دوسرے معاملات میں رہن سہن، موسمیات، خوراک اور دیگر چیزوں کا کتنا تعلق ہے۔

مفتی سعید والے معاملے میں شائستہ تنقید ان کا حق ہے لیکن جو الفاظ انہوں نے دوسروں کے لئے استعمال کئے کبھی ٹھنڈے دل اور سکون کے ساتھ شیشہ دیکھیں وہ ہوبہو اپنے انہی الفاظ کی مکمل تصویر ہیں جو دوسروں کو قرار دے رہے ہیں۔

کالم کے تیسرے حصے میں سپریم کورٹ پروسیجر رولز کے خلاف دائر درخواستوں اور سپریم کورٹ میں سماعت کے لئے بنائے جانے والے 8رکنی بنچ پر بات کرلیتے ہیں۔

تحریک انصاف کے رہنما حامد خان کا کہنا ہے کہ 8رکنی بنچ میں سینئر ججز کو شامل کردیا جاتا تو تقسیم کا تاثر نہ ابھرتا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ 15رکنی سپریم کورٹ کے 8ججز کا بنچ اس بات کا جواب ہے کہ اکثریت ’’میرے‘‘ ساتھ ہے۔

اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ قانون (قانونی مسودہ) دوبارہ صدر مملکت کو منظوری کے لئے بھیجا گیا ہے پارلیمانی قواعد کے مطابق اگر صدر نے اس بار بھی اس قانون کی منظوری نہ دی تو یہ قانون ازخود نافذ ہوجائے گا۔

صدر کے پاس غالباً دس سے چودہ دن ہیں۔ یعنی ابھی قانون کاغذوں میں ہے منظور ہوا نہ نافذ پھر ایسا اتاولہ پن کیوں؟

جو قانون ابھی نافذ ہی نہیں ہوا اس کے خلاف درخواستیں دائر ہوئیں اور سماعت کے لئے بنچ بن گیا۔ کیا سپریم کورٹ اور وفاقی حکومت کا دنگل شروع ہونے والا ہے؟

بنچ اولاً تو قبل از وقت بنایاگیا ہے پھر بھی اگر یہ ضروری تھا تو سینئر جج صاحبان پر مشتمل بنچ بنادیا جاتا۔ دو جج صاحبان کو بطور خاص اس بنچ میں شامل کر کے کیا جوابی طبل جنگ بجادیا گیا ہے؟ آسان جواب یہی ہے کہ ’’جی ہاں‘‘۔

اس صورت میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت ڈرٹی سیاست کا حصہ بن گئی ہے اور یہ اچھا نہیں ہے۔ حامد خان اور حسن رضا پاشا کی یہ بات درست ہے کہ بنچ میں اگر سینئر ترین ججز کو لے لیا جاتا تو لوگوں کو باتیں کرنے کا موقع نہ ملتا۔

عدلیہ میں یہ سیاسی تقسیم خود عدلیہ کے لئے کسی بھی طرح اچھی نہیں۔

بار دیگر عرض ہے کہ غلط فیصلوں اور اقدامات کے دفاع میں جو رویہ اپنایا اور راستہ اختیار کیا گیا ہے اس سے سیاسی کشیدگی بڑھے گی۔

ایک سوال ہے وہ یہ کہ کیا سپریم کورٹ ایگزیکٹو اور پارلیمان کا کردار بھی خود ادا کرنے کی خواہش مند ہے؟

ویسے بعض لوگ کہتے ہیں وہ تو اختیارات کو استعمال کررہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: