دسمبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خوشی۔۔۔||سجاد جہانیہ

سب سے زیادہ خوش فن لینڈ کے لوگ ہیں۔ آخری نمبر پر پچھلے کئی برسوں سے افغانستان ہے۔ مسلسل جنگ نے اس ملک کے عوام کو دنیا کی سب سے ناخوش قوم بناڈالا ہے۔ دنیا کے سب سے ناخوش بیس ممالک میں شکر ہے ہمارا شمار نہیں البتہ ہمارے دو پڑوسی بھارت اور بنگلہ دیش شامل ہیں. خوشیاں ماپنے کے یہ پیمانے اور وہ میتھیواکارڈ کے دماغ سے چپکے سینسر اپنی جگہ لیکن خوشی چیزِ دیگراست۔ سرائیکی زبان کی دو دعائیں بڑی خوب صورت اور جامع ہیں۔ شالا لوڑ دی تھوڑ نہ ہووی اور صحت دی بادشاہی ہووی۔ ضرورتیں پوری ہوتی رہیں یعنی تنگ دستی نہ ہو تو تن درستی کو غالب جیسا دنیادار بھی نعمت قرار دیتا ہے۔

سجاد جہانیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خوشی کس شئے کا نام ہے؟ یہ کہیں انسانی جسم کے اندر قیام رکھتی ہے یا اس کا تعلق خارج سے ہے؟ خوشی کا کوئی مستقل وجود ہے یا بس ایک وقتی احساس ہے اور واہمہ ؟ پیہم پچاس برس کی جستجو کے بعد آخری وعظ میں گو تم نے اپنی تلاش کا جو خلاصہ بتایا، اسے ڈاکٹر اسلم انصاری نے یوں نظم کیا ’’میرے عزیزو/میں دْکھ اٹھا کر/حیات کی رمزِ آخریں کو سمجھ گیا ہوں/تمام دْکھ ہے/وجود دْکھ ہے/وجودکی یہ نمود دکھ ہے/حیات دْکھ ہے/ممات دْکھ ہے/یہ ساری موہوم و بے نشاں کائنات دْکھ ہے/شعور کیا ہے؟/اک التزامِ وجود ہے اور وجود کا التزام دْکھ ہے /جدائی تو خیر آپ دْکھ ہے/ملاپ دْکھ ہے/کہ ملنے والے جدائی کی رات میں ملے ہیں/یہ رات دْکھ ہے/یہ زندہ رہنے کا، باقی رہنے کا شوق ، یہ اہتمام دْکھ ہے/میرے عزیزو تمام دْکھ ہے‘‘۔ طویل نظم ہے جس میں زندگی کو دْکھ کا دوسرا نام قرار دیا گیا ہے۔ روایت ہے کہ فرغانہ والے بابر نے دمِ واپسیں ہمایوں کو جو نصیحت کی اس میں ایک جملہ یہ بھی تھا کہ ’’راحت یا خوشی کسی شئے کا نام نہیں۔ اگر کچھ ہے تو بس دو دْکھوں کے مابین حائل مختصر وقفہ”۔ زمانہ قبل از تاریخ سے لے کر آج تک انسان کا تمام تر سفر دراصل اسی دْکھ کے ساتھ جنگ پر مبنی ہے۔ راحت اور آسودگی کا حصول کہ اسی راہ سے خوشی کے در پر دستک دی جاسکتی ہے. اشفاق احمد مرحوم کہا کرتے تھے کہ میں جب ٹیلی وژن سکرین پر درجنوں چینلز دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ آج کا انسان کس قدر ناخوش ہے کہ اسے تفریح کے لئے اتنے زیادہ چینلز کی ضرورت ہے۔ ایک زمانے میں صرف ریڈیو ہواکرتا تھا اور ہم آج سے زیادہ خوش تھے۔ گویا تفریحات بھی خوشی کی ضامن نہیں۔ گوتم نے تو دنیا کو دْکھ کا پھیلو بتایا مگر طرفہ تماشا یہ ہے کہ دْکھ کا فلسفہ عام کرنے والے بدھ کے ایک پیروکار جو نیپال کی ایک خانقاہ کے بھکشو ہیں، میتھیواکارڈ، انہیں دنیا کا سب سے خوش انسان قرار دیا گیا ہے۔ وسکونسن یونیورسٹی کے سائنسدان کئی برس سے دوسو چھپن سینسر لگا کر ان کے دماغ کا مطالعہ کررہے ہیں۔ خوشی ماپنے کا جو پیمانہ سائنسدانوں نے وضع کیا ہے، اس کے مطابق صفر اعشاریہ تین ریڈنگ والا انسان انتہائی ناخوش جبکہ منفی صفر اعشاریہ تین والا انتہائی خوش قرار دیا جاتا ہے۔ میتھیو اکارڈ کے دماغ کی ریڈنگ صفر اعشاریہ چار پانچ ہے۔ گویا میتھیو اس قدر خوش ہیں کہ ان کی خوشی پیمانے سے باہر نکل گئی ہے۔ میتھیو کا کہنا ہے "خوش گوار احساسات کا مستقل موجود رہنا خوشی نہیں، یہ تو ایک بور کردینے والا اکتاہٹ بھرانسخہ ہوگیا۔ جذبہ ایثار، ہم دردی، جذباتی توازن، اندرونی امن، آزادی اور دیگر بہت سارے مثبت عوامل مل کر خوشی تشکیل دیتے ہیں”۔ ہمارے گھر کا ڈرائیور اظہر اگلے روز بہت خوش تھا۔ وہ حال ہی میں کینسر کے طویل اور تکلیف دہ علاج سے گزر کر صحت یاب ہوا ہے۔ کیمو تھراپی کی وجہ سے کم زور اور چڑچڑاسا ہوگیا ہے۔ سڑک پر بھی دیگر سواریوں سے ضد لگائے رکھتا ہے۔ کل میرے ساتھ تھا تو کہنے لگا سر جی! سویرے باجی کو لے کر دفتر جارہا تھا تو گاڑی سے میاوں میاوں کی مدھم آواز آنے لگی۔ میں نے گاڑی روک کر سیٹوں کے نیچے، ڈگی وغیرہ ہر جگہ دیکھا مگر کچھ نہ ملا۔ کافی آگے جا کر پھر آواز آئی تو بونٹ کھول کر دیکھا۔ انجن کے نیچے والی شیلڈ پر بلی کا ایک نوزائیدہ بچہ بیٹھا تھا۔ اتنا چھوٹا تھا کہ چل بھی نہیں سکتا تھا۔ میں نے اسے ہاتھ سے اٹھا کر سڑک کنارے رکھ دیا۔ گاڑی میں بیٹھا تو باجی نے کہا اسے کوئی آوارہ کتا کھا جائے گا یا کسی شئے کے نیچے آجائے گا۔ میں نے بچے کو اٹھا کر ڈگی میں رکھ لیا۔ باجی کو چھوڑ کے واپس گھر آیا۔ پورچ میں ایک بلی بیٹھی تھی۔ میں نے ڈگی سے نکال کر بچہ اس سے کچھ فاصلے پر رکھ لیا۔ اس نے بڑھ کر بچے کو منہ میں پکڑا اور لان کی طرف چلی گئی۔ اظہر نے کہا ’’سر جی! بلی نے جن احسان بھری نظروں سے مجھے دیکھا، یقین کریں روح راضی ہوگئی‘‘۔ بس یہ روح کا راضی ہوجانا ہی تو خوشی ہے صاحب‘ اور روح دوسروں کو خوشی دے کر راضی ہوتی ہے۔ پچھلے دنوں اخبارات میں ایک فہرست شائع ہوئی جو یہ بتاتی تھی کہ دنیا کے 137 ممالک میں سے کون سے ملک کے عوام کتنے خوش ہیں۔ اقوام متحدہ کے ساتھ کام کرنے والی دو تنظیمیں ہر سال یہ سروے شہریوں کی آمدن، زندگی کے فیصلوں میں آزادی، رحم دلی، فیاضی، دوسروں پر بھروسہ اور کرپشن کی شرح کو بنیاد بنا کر کرتی ہیں۔ اس فہرست میں ہم خیر سے ایک سو آٹھویں نمبر پر ہیں، اوپر والے چھ معیارات کو پیمانہ بنا کر اپنے اردگرد دیکھ لیں، میرا خیال ہے یہی نمبر بنتا ہے ہمارا یا شائد اس سے بھی تھوڑا نیچے۔ سب سے زیادہ خوش فن لینڈ کے لوگ ہیں۔ آخری نمبر پر پچھلے کئی برسوں سے افغانستان ہے۔ مسلسل جنگ نے اس ملک کے عوام کو دنیا کی سب سے ناخوش قوم بناڈالا ہے۔ دنیا کے سب سے ناخوش بیس ممالک میں شکر ہے ہمارا شمار نہیں البتہ ہمارے دو پڑوسی بھارت اور بنگلہ دیش شامل ہیں. خوشیاں ماپنے کے یہ پیمانے اور وہ میتھیواکارڈ کے دماغ سے چپکے سینسر اپنی جگہ لیکن خوشی چیزِ دیگراست۔ سرائیکی زبان کی دو دعائیں بڑی خوب صورت اور جامع ہیں۔ شالا لوڑ دی تھوڑ نہ ہووی اور صحت دی بادشاہی ہووی۔ ضرورتیں پوری ہوتی رہیں یعنی تنگ دستی نہ ہو تو تن درستی کو غالب جیسا دنیادار بھی نعمت قرار دیتا ہے۔ نعمت کی دست یابی ہی توخوشی ہے۔ رات کو آپ سوئیں تو روح پر کسی ضرورت کا اور کسی کے ساتھ کی گئی زیادتی کا بوجھل پن نہ ہو اور جسم کا کوئی انگ تکلیف میں نہ ہو، یہی تو خوشی ہے۔ ٭٭٭٭٭

 

 

 

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

سجاد جہانیہ کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author