دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جامعہ عباسیہ سے جامعہ اسلامیہ تک۔۔۔||سجاد جہانیہ

عرض کیا ضرور حاضر ہوں گا…چوبیس ستمبر، ہفتے کے روزپہنچنا تھا۔ لیجئے صاحب! کالم کے لئے مختص شدہ جگہ تو تمہید اور جامعہ اسلامیہ کی حیرت افزا فضا کے ذکر میں خرچ ہوگئی…سمینار کی تفصیل انشاء اللہ اگلے کالم میں۔

سجاد جہانیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کبھی وہاں نواب رہتے تھے۔ محلات اور دربار آباد تھے جہاں علوم و فنون کی سرپرستی ہواکرتی تھی۔ یہ ذکر ہے بہاول پور کا۔ ستلج کے فروخت ہوکر روٹھ چکے پانیوں کے پڑوس میں اور خواجہ فرید کی روہی کے کنارے بستا شہر بہاول پور۔جب یہ شہر ریاست کا پایۂ تخت تھا تو ابوالاثر حفیظ جالندھری جیسے نابغہ اس کے دربار سے وابستہ تھے۔ نواب صاحبان علم کے متلاشیوں کی سرپرستی کرتے تھے۔ ماحول پر اسلامی جھلک غالب تھی۔ ڈاکٹر مہر عبدالحق نے اپنی سوانح عمری ’’ جو ہم پہ گزری‘‘ میں لکھا ہے کہ جب انیس سو تیس میں انہوں نے ایس ای کالج میں داخلہ لیا تو بہاول پور کا ماحول اس قدر مذہبی تھا کہ اگر کسی خاتون کو اپنے گھر سے نکل کر گلی پار سامنے والے گھر میں جانا ہوتا تو چادریں تان کر پردے کا اہتمام ہوتا۔ گلی کچھ دیر کو بند ہوجاتی اور کہا جاتا کہ ’’ عالم گزر رہا ہے‘‘۔ تانگوں کو بھی چہار جانب چادروں سے ڈھکا جاتا، تب خواتین سفر کرتیں۔ سینئر صحافی ضیا شاہد مرحوم کی ابتدائی تعلیم ریاست کے ضلع بہاول نگر میں ہوئی۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ نواب صاحبان تعلیمی اداروں کے بہ نفسِ نفیس دورے کرتے۔ وظائف ملا کرتے اور تعلیم کے علاوہ غیر نصابی سرگرمیوں میں اچھی کارکردگی دکھانے والے طلباء کو اپنی جیبِ خاص سے انعامات دیتے۔ بہاول پور بارے پڑھی اور سنی ہوئی یہ سب باتیں اسلامیہ یونیورسٹی کے پرشکوہ ہال میں بیٹھے مجھے یاد آتی رہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی وہ ادارہ ہے جو والیانِ ریاست بہاول پور کی علم دوستی کا سب سے نمایاں مظہر ہے۔ یہ ادارہ انیس سو پچیس کو جامعہ عباسیہ کے نام سے قائم ہوا، پچاس برس بعد اسے اسلامیہ یونیورسٹی کا نام دے دیا گیا۔ ون یونٹ کے بعد جب ریاست کا دارالخلافہ فقط ایک ڈویژن رہ گیا تو یہاں بھی اداروں کا وہی حال ہوا جو باقی ملک میں تھا۔ یہ لکھتے ہوئے دُکھ ہوتا ہے کہ ہمارے زمانہ طالب علمی میں اور ابھی کچھ عرصہ پہلے تک اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پورڈگریاں بانٹنے کی مشین تصور ہوتی تھی۔ جس کو کہیں سے ڈگری نہ ملتی اسے کہاجاتا کہ جائو بھائی آئی یو بی سے ڈگری کرلو۔تاہم خوش آئند امریہ ہے کہ اب یہ تاثر ختم ہوچکا ہے۔ ہفتے کے روز اسلامیہ یونیورسٹی کے بغداد الجدید کیمپس میں داخل ہو کر جب دائیں بائیں نظر دوڑائی تو ایک حیرت کا غبار تھا کہ گردوپیش سے اُٹھ کر بصارتوں میں سماگیا۔ تاحدِ نظر وسیع سبزہ زار جن میں نفاست سے تراشی گئی گھاس کا فرش تھا۔ جا بہ جا درختوں کی چھتریاں اور گل و گلزار۔ کیمپس بھر کی سڑکیں ایسی کہ گویا مٹی گرد اور کوڑاکرکٹ سے کبھی آشنا ہی نہ ہوئی ہوں۔ عمارات کے منہ دھلے ہوئے۔ سجی سنوری کینٹین، روغن شدہ فٹ پاتھ اور ان پر یہاں وہاں چلتے طلباء و طالبات … کوئی خواب نگر تھا گویا۔ میں نے طلباء سے کہا کہ پچھلے ہفتے اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں تھا جو پاکستان کے سب سے منظم ادارے کے انتظام میں چلتی ہے۔ اس کا کیمپس بہت خوب صورت تھا مگر وہاں فطرت نے بھی پہاڑ، درخت، سبزہ کی صورت اپنا حصہ ڈالا ہے…یہاں تو صحرا کو نخلستان میں بدل دیا گیا ہے اور اسلامیہ یونیورسٹی کا کیمپس کسی طور بھی اس سے کم نہیں۔ یہ سب ایک ہی شخص کے دم قدم سے ممکن ہوا ، وہ ہیں ڈاکٹر اطہر محبوب۔ رہنما صاحبِ نظر ہو اور خلوصِ نیت سے مالامال ہوتو یہ جذبہ اس کی ساری ٹیم میں سرایت کرجاتا ہے۔ یہی کچھ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں ہوا ہے۔ بلند نگاہ، دل نواز سخن اور پرسوز جاں والا میرِ کارواں میسر ہوا تو یونیورسٹی کی کایا پلٹ گئی۔ طلباء و طالبات کی تعداد ساٹھ ہزار سے تجاوز کرگئی جس میںغالب تعداد ’’ عالم‘‘ کی ہے۔ وہی عالم جو کبھی گھر میں مقید تھا اور جس کے گلی میں نکلنے کے لئے چادریں تانی جاتی تھیں۔ ہاکڑہ کی تہذیب پر تحقیق اور ہاسپٹیلیٹی اینڈ ٹورازم ڈویلپمنٹ جیسے بے شمار نت نئے شعبہ جات کھل گئے اور تعلیم و تحقیق کا بازار گرم ہوا۔ ریاست کے علم دوست حکمرانوں کی یاد تازہ کردی ڈاکٹر اطہر محبوب نے۔جس نے حصولِ علم کو اسلامیہ یونیورسٹی کے در پر دستک دی، مایوس نہ لوٹایا گیا۔ اب کے بار جو داخلے ہوئے، اس میں پہلی اور دوسری میرٹ لسٹ میں جن بچوں کے نام تھے، ان میں سے جنہوں نے فیس جمع نہ کروائی، یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کو پیغام بھیجا کہ اگر آپ مالی مسائل کی بناء پر داخلہ فیس نہیں ادا کرسکے تو یونیورسٹی سے رابطہ کریں۔ نو سو طلباء و طالبات نے رابطہ کیا۔ ان میں سے سات سو کو سکالرشپ پر داخل کر لیاگیا ۔ وہ بچے اب اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کا حصہ ہیں۔ بتایا گیا کہ 60ہزار میں سے 20 ہزار کے قریب مختلف سکالرشپس پر تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ڈاکٹر اطہر محبوب کا بطور وائس چانسلر پہلا برس تھا جب برٹش کونسل والے وظائف کے لئے طالبات کا انتخاب کرنے آئے۔ اس برس سات طالبات کو سکالرشپ مل سکا…وائس چانسلر نے پتہ کروایا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اتنی کم طالبات کو سکالرشپ ملا۔ پتہ چلا کہ امیدوار کوایک مشن سٹیٹ منٹ لکھنی پڑتی ہے کہ برٹش کونسل کا سکالرشپ کیوں لینا چاہتے ہیں اور بعد میں کیا کریں گے۔ اسلامیہ یونیورسٹی کی طالبات اس میں خود کو زیادہ اچھے طریقے سے بیان نہیں کر پاتیں۔ ڈاکٹر اطہر محبوب نے ماہرین کی خدمات حاصل کر کے طالبات کے لئے اس ضمن میں تربیتی کورس شروع کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگلے برس 77 اور اس سے اگلے برس 87 طالبات کو برٹش کونسل کا سکالرشپ ملا۔ واضح ہو کہ پاکستان بھر کے لئے 110سکالرشپس ہوتے ہیں ہر برس۔ میں نے یہ تو آپ کو بتایا ہی نہیں کہ کس تقریب کے تحت اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور جانا ہوا۔ ہوا یوں کہ شعبہ ابلاغیات کے استاد اورکالم نگارڈاکٹر جام سجاد حسین کا فون آیا کہ یونیورسٹی عہدِ حاضر کے معاشی و سماجی چیلنجز کے عنوان تلے ایک سیمینار کر رہی ہے، آپ کو بھی طلباء سے مخاطب ہونے کی دعوت ہے۔ عرض کیا ضرور حاضر ہوں گا…چوبیس ستمبر، ہفتے کے روزپہنچنا تھا۔ لیجئے صاحب! کالم کے لئے مختص شدہ جگہ تو تمہید اور جامعہ اسلامیہ کی حیرت افزا فضا کے ذکر میں خرچ ہوگئی…سمینار کی تفصیل انشاء اللہ اگلے کالم میں۔

 

 

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

سجاد جہانیہ کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author