حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے لگا میں حرمِ مرشد اعلیٰؑ کے صحن میں روضہ کی طرف بڑھ رہا ہوں۔ جسم کانپ رہا تھا مناجات کا تسلسل گاہے ٹوٹتا اور ایک خیال کی دستک سنائی دیتی جیسے کوئی کہہ رہا ہو
’’تم وہی ہو نہ جو کسی کی نہیں سنتے مانتے پھر یہاں کیا لینے آئے ہو”
پہلی دو تین دستکوں پر میں نے اس خیال کو جھٹک دیا اور آگے بڑھتا رہا۔ اس بار میں رک گیا۔ آنکھیں بند کیں، پوری بات پر غور کیا پھر آنکھیں کھول کر گنبد کی طرف دیکھا اسی دوران مجھے لگا کسی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا ہے۔
آنکھیں کھول کر دیکھا تو نامانوس شخص چہرے پر مسکراہٹ سجائے میرے کاندھوں پہ ہاتھ رکھے کھڑا تھا مجھے متوجہ پاکر اس کے لب ہلے اور میری سماعتوں تک اس کی بات پہنچی۔ اجنبی کہہ رہا تھا،
” آدمی محبوب کے کوچے میں قدم رکھتے ہوئے دنیاداری اور سوچیں باہر چھوڑ آتا ہے۔ یہ کیا کہ سوچیں تمہارے تعاقب میں ہیں ان کی دستکوں سے پریشان بھی ہوتے ہو۔
جمال یار کا جلوہ مسخر نہ کرسکے تو اپنے دعوے پر غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے”
قبل اس کے کہ میں کوئی بات کرتا اجنبی آگے بڑھ گیا۔
دھوپ میں ابھی اتنی تمازت نہیں تھی کہ گرمی محسوس ہوتی۔ تب میں وہیں صحن میں یبٹھ گیا۔
دنیاداری اور سوچوں کو جھٹکتے ہوئے میں نے روضہ کے مرکزی دروازے پر نگاہیں ٹکاتے ہوئے کہا، مرشد اعلیٰؑ، میرے دامن میں دکھوں اور حسرتوں کے سمیت سب کچھ ہے۔ آپ سے ملنے آیا ہوں، یہاں تک کیسے پہنچا، ایک لمبی کہانی ہے میں کہانیاں سنانے نہیں بس ملنے آیا ہوں۔
مجھے محسوس ہوا مرشد اعلیٰؑ کہہ رہے ہیں
’’آدمی بذات خود ایک کہانی بس اسے مکمل کوئی کوئی کرپاتا ہے‘‘۔
عرض کیا، آدمی کی کہانی مکمل کیسے ہوتی ہے؟
جواب ملا ’’خود شناسی سے‘‘۔
خودشناسی؟
” تخلیق جب حق تخلیق ادا کرنے کا شعور پالے کہانی مکمل ہونے کی طرف بڑھتی ہے جواب ملا ”
اپنی جگہ سے اٹھتے وقت مجھے میری امڑی سینڑ یاد آئیں چند ساعتوں کے لئے امڑی سینڑ کا پرنور مسکراتا ہوا چہرہ آنکھوں کے سامنے موجود تھا وہی مسکراہٹ اور شفقت بھرا جلال ان کے چہرے پر تھا ۔ یوں لگا امڑی سینڑ فرمارہی ہیں ’’نیازمندی سننے میں ہے اور وارفتگی تعمیل میں‘‘۔
تب یوں لگا کہ میری حاضری قبول ہوگئی ہے۔ صحن حرم مرشد اعلیٰؑ میں اپنی مادر گرامی کی زیارت سے بڑی قبولیت اور کیا ہوسکتی ہے۔
میں اٹھا اور روضہ کے مرکزی دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔ تب میری سماعتوں پر مرشد کریم سیدی بلھے شاہؒ کے ارشاد نے دستک دی، مرشد کہہ رہے تھے
"موقع اچھا ہے آج سارے سوال ایک ایک کرکے مرشد اعلیٰؑ کے سامنے رکھ دو ” ۔
لیجئے یہ روضہ کے مرکزی دروازے کی چوکھٹ ہے۔ میں بے اختیار جھکتا چلا گیاایک بوسہ اور چند آنسو ہدیہ کئے آگے بڑھا اور اندر دیوار کا سہارا لے کر بیٹھ گیا۔ چند ساعتوں بعد محسوس ہوا کہ باتیں کرنے کی اجازت مل گئی ہے تب میں نے عرض کیا، مرشد اعلیٰؑ، حق تخلیق طمع اور جمع سے بچ رہنا ہے یا کچھ اور؟
ارشاد ہوا ’’طمع اور جمع سے بچ رہنا اصل میں لذت دہن پر قابو رکھنے کی سعی ہے”۔
"حق تخلیق کی ادائیگی کےلئے ضروری ہے کہ آدمی اپنی بات مختصر کر کے دوسروں کی کامل توجہ سے سنے دوسروں کے دکھ درد محسوس ہی نہ کرے بلکہ توفیق کے مطابق بٹانے کی کوشش بھی کرے‘‘۔
مرشد اعلیٰؑ ارشاد فرمارہے تھے اور میں دامن موتیوں سے بھر رہا تھا۔ ارشاد ہوا
’’زبان انسان کی لیاقت کا ترازو اور جھوٹ زبان کا عیب ہے۔ جھوٹ ایک دیمک کی طرح ہے جیسے دیمک لکڑی کو چاٹتی ہے جھوٹ آدمی کو نگل جاتا ہے‘‘۔
” ظلم اور زیادتی پر مغرور ہونے کی بجائے ندامت محسوس کرنا بہادری ہے اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ آدمی معذرت کرلے‘‘۔ "زبان کے درندے کو کبھی کھلا نہیں چھوڑنا چاہیے "۔
"طلب بڑھاتے رہنے سے خودپسندی کا زہر پھیلتا چلا جاتا ہے۔‘‘ عرض کیا زندگی تو بذات خود طلب سے بندھی ہوتی ہے‘‘۔
ارشاد ہوا "اپنے حصے کی خواہش طلب ہے اس کے حصول کے لئے جستجو آدمی میں مروت کے بیج بوتی ہے” ۔
مرشداعلیؑ فرمارہے تھے، "دوست وہ ہے جو غائبانہ طور پر دوستانہ معاملات کرے اور غافل نہ رہے”۔” ایثار آدمی کو بدلہ کی تمنا سے محفوظ رکھتا ہے” ۔
” دوستوں کا ہم مزاج و ہم خیال ہونا ضروری ہے۔ آدمی کو اپنے حصہ کا سچ بولنے سے منہ نہیں پھیرنا چاہیے”۔ "عزت نفس کو خواہشوں پر مقدم سمجھنا نفس کی اسیری سے بچا لیتا ہے”۔
” جہالت پر مُصر رہنے والے ندامتوں کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں کرپاتے”
"مطالعہ کی وسعت طالب علم کو مکتب اور مقصد سے دور نہیں ہونے دیتی”۔ "لالچ کا لباس آدمی کو رسوا کرادیتا ہے”۔
"حسد دشمن ہے اسے خود پہ قابو نہ پانے دو۔ جو نہیں ملا اس کی حسرت پالنے سے بہتر ہے کہ اس پر غور کیا جائے کہ جو حاصل کیا اس کا حق ادا ہوا”
"سعادت مند وہی ہے جو اپنوں کے لئے سعید ہو” "جو علم عمل کرنے سے دور رکھے وہ علم نہیں بناوٹ ہے” ۔ "ہٹ دھرمی پر نرم گفتاری اور ایثار کو ترجیح دینی چاہیے "۔
” تہمت لگانے والے کو معاف کرنے میں پہل کرتے رہنا چاہئے” ۔ . . "امیدیں پالنے اور خواہشوں کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اپنے حال میں جینا زیادہ مناسب ہے”۔
چند ساعتوں کے وقفے کے بعد مرشد اعلیٰؑ کی عنایات کا سلسلہ پھر شروع ہوا، ارشاد ہوا،
"دل آنکھوں کا صحیفہ ہے، کلام کرو تاکہ پہچانے جائو۔ دنیا پر لعنت و ملامت کرنے کی بجائے اپنے کجوں پر نگاہ دوڑانی چاہیے”۔ "آنکھیں عقل کی رہنمائی میں رہیں تو آدمی ٹھوکروں سے محفوظ رہتا ہے”
"علم آدمی میں تحمل پیدا کرتا ہے۔ جس میں تحمل نہیں علم اسے چھوکر بھی نہیں گزرتا وہ بس دعوے کرتا ہے اس کے دعوے خالی برتنوں جیسے ہیں ” ۔
"اپنی زبان پر ہر حال میں قابو رکھو جیسے قیمتی متاع کی حفاظت کی جاتی ہے”۔ "لوگ جو نہیں جانتے اس کے جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ نہ جاننے کا اعتراف شرف ہے ہلکا پن نہیں”۔
"طالب علم ہمیشہ طلبِ علم سے سیر ہوتا ہے” .
” حکومت آزمائش ہے انعام اور حق ہرگز نہیں ” ۔
"لالچ آدمی کی رسوائی کا سامان کرتی ہے” "جو بات سمجھ میں نہ آئے اسے سمجھنے کے لئے ہزار بار بھی سوال ہو تو صاحب علم کا فرض ہے طلبگار کو مطمئن کریں نہ کہ سوالوں کا برا منائے”
” شجاعت ذات کو فائدہ پہنچاتی ہے اور خوش اخلاقی کی خوشبو سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں” ۔
"حقیقی عالم وہی ہے جو جہل کو پہچان پائے کیونکہ اس کا سفر طلبِ علم وہیں سے شروع ہوا ہوتا ہے”۔
"لوگوں کے درمیان ایسے رہو جیسے کانٹوں کے درمیان گلاب کا پھول”۔ "جہالت بدی کی کان ہے”۔ "ضرورت سے ایک لقمہ زائد کی خواہش لالچ کا بیج بودیتی ہے”۔
"شر کی سرکش سواری کا شوق آدمی کو اپنوں میں رسوا کرتا ہے”۔ "وعدہ خلافی سے ہمیشہ بچ کر رہنا چاہیے۔‘‘
مرشد اعلیٰؑ کے ارشادات کا فیض جاری تھا ارشاد ہوا،
"اپنی رائے کا اظہار حق ہے لیکن اسے دوسروں پر مسلط کرنا نادرست ہے”۔
"دوسروں کی آراء کی روشنی میں اپنی رائے پر باردیگر غور کرنا جان لینے کا اصل حسن ہے”۔ مرشد اعلیٰؑ نے فرمایا.
” اذیت سہہ لینا بہتر ہے دوسروں کو اذیت دینے سے ” ۔
"آدمی اپنی زبان کے پیچھے پوشیدہ ہے” ۔ "صاحبان حکمت غوروفکر کے بغیر بات نہیں کرتے” ‘لذت دہن کی اسیری فساد سے دوچار کرتی ہے” ۔
” دوستوں کا ہونا بھی ایک طرح کی برکت ہے”۔ "غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو”۔
میں نے عرض کیا، مرشد اعلیٰؑ نعمتوں کے حصول کے لئے جنم لیتی خواہشوں کا کیا کیا جائے؟
ارشاد ہوا "علم قناعت اور ایثار آدمی کےلئے مضبوط حصار ثابت ہوتے ہیں”۔
"بے تابی اور غرور ہلاکت کا سامان کرتے ہیں”
” توازن سب سے بڑا وصف ہے” ۔ "بدگمانی کے جواب میں خوش گمانی فضیلت عطا کرتی ہے”۔
مرشد اعلیٰؑ کا کلام تمام ہوا۔ دیوار کا سہارا لے کر اپنی جگہ سے اٹھا واپسی کی اجازت چاہی چوکھٹ پر بوسے اور آنسوئوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ایک بار پھر وسیع صحن میں تھا۔
یہ صحن حرم نجف اشرف میں ہے۔ نجف اشرف ، مرشدوں کے مرشد اعلیٰؑ کی قیام گاہ کی بدولت پررونق بھی ہے۔ دنیا جہاں کے لوگ ہیں مختلف قوموں ذات پات رنگ و نسل کے وارفتگی سے قدم بڑھاتے صحن سے روضہ کی طرف بڑھتے لوگ، لوگوں کے اس ہجوم میں، میں بھی ہوں۔ اپنے چار اور موجود لوگوں کے چہروں پر کچھ پڑھنے کی کوشش کررہا تھا کہ فقیر راحموں نے کہا
مرشد اعلیٰؑ نے فرمایا ہے
"جو نہیں ہے اس کا ملال کرنے کی بجائے ہونے کے یقین کو ڈھال بنائے رکھو گے تو کبھی ناکام نہیں ہوگے” ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر