یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں، کتاب اولاد کی طرح نہیں ہوتی۔ آپ اِسے شیلف پر پہنچنے کے بعد تھوڑی لاتعلقی کے ساتھ دیکھنے لگتے ہیں۔ یہ محبوبہ بھی نہیں ہوتی، کیونکہ محبوبہ اپنے مسائل کا ٹرنک گاڑی میں چڑھنے سے پہلے پکڑاتی ہے اور پھر اُسے سینے سے لگائے بیٹھی رہتی ہے، تاوقتیکہ پسند کا یا ناگزیر سٹیشن آ جائے۔
کتاب کو کونپلوں وغیرہ جیسا کہنا بھی غیر موزوں ہے۔ مجھے انسانی معاملات کی مثال ایپلائیڈ سائنسوں میں سے دینا ہمیشہ ناپسند رہا ہے۔
میرے خیال میں کتاب لکھنے والے سے زیادہ پڑھنے والے کی ملکیت ہوتی ہے، اور وہی اِس کے پچاس فیصد معنی کی تکمیل یا تردید کرتا ہے۔ اگر آپ ناول لکھتے ہیں تو پڑھنے والا اُس میں سے آپ کی زندگی بھی اخذ کر سکتا ہے، اگر آپ بیتی لکھتے ہیں تو اُسے ایک ناول کے طور پر بھی لیا جا سکتا ہے، بلکہ لینا چاہیے۔
ہمارے آپ کے، سب کے پاس ایک ہی جیسے حروفِ تہجی ہیں، جملہ بنانے کے ایک جیسے سیکھے ہوئے یا عادت کے ذریعے حاصل کردہ جملے ہیں۔ مثلاً ہم کہہ سکتے ہیں، ’’یہ چائے نوش کریں!‘‘ ’’یہ چائے پئیں،‘‘ ’’دو گھونٹ چائے پی لو،‘‘ ’’چائے پی لیں،‘‘ یا پھر ’’چائے پی مر لو۔‘‘ یہ سبھی ایک جیسے الفاظ ہیں جن میں کسی کو چائے پینے کا کہا جا رہا ہے۔ شیکسپیئر کہتا ہے کہ frailty thy name is woman۔ اور کتنے ہی لوگوں نے بھی یہی بات کہی ہو گی۔
تحریر کا مطلب آزادی بھی ہے، جو حریت سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک شاعر دوست کے مطابق حریت لفظ امام حسین کے ساتھی حُر سے منسوب ہے۔ لیکن سورماؤں کو بھی اُن کے ماننے والے اپنی اپنی ضروریات کے مطابق تجلیل عطا کرتے ہیں۔ یہی معاملہ تحریر کا ہے۔ یہ بھی نہیں کہ ایک دور کے قاری اگر کسی تحریر کو غیر ادبی یا ناقص یا بے کار قرار دے کر ایک طرف رکھ دیں تو کسی اور دور کے قاری اُسے دوبارہ سر آنکھوں پر نہیں بٹھانے لگیں گے۔
یہ سب باتیں لکھنے والے کو نہیں، صرف پڑھنے والے کو معلوم ہوتی ہیں۔ میں اپنی کتاب کہانی کے متعلق مزید کچھ نہیں لکھوں گا۔ یہ اب پڑھنے والوں کے دالان میں ہے، اور کچھ تو بہت پیارے اور سنجیدہ پڑھنے والوں کے دالان میں، جیسے مادہ قارئین سعدیہ سید، بینا بخاری، صنوبر، حنا، طاہرہ، سعدیہ وکی، سمیرا حماد، رمشا، رامش، نوشابہ/لالہ، زہرا، شازیہ، عائشہ، روشی، مومنہ، صباحت، راضیہ، مونا اور کچھ دیگر جن کا نام نہیں لینا چاہتا۔ (سدرہ بھی شاید مادہ ہی ہے) اور مذکر قارئین کی فہرست اتنی طویل ہے کہ درجن بھر کا نام بھی نہیں درج کر سکتا۔ یہ کام وہ خود کریں گے۔
کل بک فیئر پر کچھ دوستوں سے ملاقات ہو جائے گی۔ دو دوستوں نے راوی کے کنارے سے ہی چلتے چلتے اوپر آنا تھا، مگر آ نہیں پائیں گی۔
میں اب فردیات پر مشتمل نئی کتاب کی تالیف پر توجہ دوں گا جس کی ایک جھلک کتاب کہانی کے آخری سولہ صفحات پیش کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر