رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ ساز گھڑیاں اور لمحے نہیں شخصیتیں ہوتی ہیں۔ ان کے فیصلے اُنہیں اَمر کردیتے ہیں۔تاریخ میں صرف دو طرح کے ایسے لوگ ملتے ہیں‘ ایک وہ جو ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھ گئے‘ تعصبات کا شکار تھے یا مزاجاً درباری تھے۔ مقام بلند‘ عہدہ بڑا‘ مگر کرسی رکھنے کی خواہش میں اپنے اور ملک کے لیے بڑے خسارے کا سود ا کر بیٹھے۔ دوسرے وہ تھے جو کردار میں پختہ‘ اعلیٰ خصائل اور انصاف اور آئین کی پاسداری کے لیے ہر نوع کی قربانی دینے کے لیے تیار تھے۔ ہماری تاریخ میں ایک طرف ٹیپو سلطان تھا اور پھر وہ تھے جو قوم و ملت کی غداری میں سب حدیں عبور کرگئے۔ ہماری اپنی تاریخ میں نہ جانے کتنے بحران پیدا ہوئے اور ان کا سلسلہ ابھی جاری ہے‘ جو ہم سب کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں۔ ایسے حالات میں فیصلہ ہمیں یہ کرنا ہوتاہے کہ ہم ملک و قوم کے ساتھ ہیں یا عصبیت کا شکار اور اپنے ذاتی مفادکے اسیر ہیں۔ ہم میں سے اکثر انصاف سے کام نہیں لیتے اور عام آدمی ایسا کربھی لے تو ہم ایسے رویوں کو ذاتی رائے سمجھ کر درگرز کرتے ہیں‘لیکن اگر یہ فیصلے حکمرانوں کے ہوں یااعلیٰ عدلیہ میں ہوںتو ان کے نتائج تاریخ مرتب کرتی ہے۔ دیگر ممالک بھی ایسے مقامات سے گزرے ہیں اور عدالتوں کے فیصلوں نے وقت کا دھارا ہی بدل کر رکھ دیا۔ جسٹس جان مارشل امریکی سپریم کورٹ کے پہلے چیف جسٹس تھے‘ آج دو سو سال بعد بھی ان کے تاریخ ساز فیصلوں پر تبصرے کیے جاتے ہیں۔ یہ انہوں نے ہی فیصلہ دیا تھا کہ مقننہ یا پارلیمان قانون تو بنا سکتی ہے مگر وہ قانون آئین کے مطابق ہے یا اس سے متصادم‘ یہ فیصلہ عدلیہ کرے گی۔ امریکی کانگریس‘ جو عوامی نمائندگان اور سینیٹ پر مشتمل ہے‘ قانون بنانے کے بعد اس بات پر اصرار نہیں کرسکتی اور ایسا کرتی بھی نہیں کہ چونکہ کانگریس آئین کے مطابق اولین ادارہ ہے اور عوام اور متحدہ ریاستوں کے عوام کا نمائندہ بھی‘ا س لیے اسے اختیار ہے کہ اپنے کسی ایکٹ کے آئینی یا غیر آئینی ہونے کا اختیار اپنے پاس رکھے۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ یورپ اور کسی اور ملک میں کوئی بھی ایسا کرے تو ساتھ بیٹھا آدمی اسے کسی ماہرِ نفسیات کے پاس جانے کا مشورہ دے گا۔ آئین کی تشریح و توضیح کی آئینی ذمہ داری صرف اور صرف عدلیہ کی ہے۔ کہیں کا بھی کوئی بڑھکیں مارتا یا زہر اگلتا وزیر ایسا نہیں کرتا ؍کرتی۔ ویسے ہماری بات ہی کچھ اور ہے۔ یہاں سب چلانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ سب چلتا بھی رہا ہے۔ تو یہ روایت کوئی آسانی سے تو نہیں جائے گی‘ مگر اس بحران در بحران کی کیفیت میں ہمارے دو تاریخی کردار سامنے آرہے ہیں۔نتیجہ جو بھی ہو‘ حالات جو بھی ہوں‘ ہم آنے والے دنوں میں وطنِ عزیز میں کچھ اسی نوعیت کی تقسیم ہر جگہ دیکھیں گے‘ اور دیکھتے آرہے ہیں۔
کا ش سوچیں اگر جسٹس منیر کا فیصلہ گورنر جنرل کے حق میں نہ ہوتا تو پاکستان کی پارلیمانی تاریخ مختلف ہوتی۔ کولمبیا یونیورسٹی‘ نیویارک میں پڑھا رہا تھا تو امریکی ریاست الاسکا سے ایک وکیل سیاسیات میں پی ایچ ڈی کررہا تھا۔ وہ اپنا تحقیقی مقالہ جسٹس منیر کے فیصلے اور اس کے پاکستان کی جمہوریت اور آئینی حکومت کے نتائج پر لکھ رہا تھا۔ کچھ میرے ساتھ اُ ن کی نشستیں ہوئیں۔ وہ ڈگری لے چکے تو کتابی صورت میں مقالہ شائع ہوا‘ جس کا عنوان غالباً ”پاکستان میں جمہوریت کا قتل‘‘ تھا۔ حیرانی مجھے اس بات پر تھی کہ قطب شمالی کے قریب‘ دوردراز ایک برفیلی ریاست کا وکیل آخر پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے اُس فیصلے میں کیوں دلچسپی رکھتا تھا ؟ جس طرح ہم جان مارشل کی بصیرت‘ علم و دانش اور جرأت کی باتیں دو صدیاں گزرنے کے بعد بھی کررہے ہیں‘ جسٹس منیر کا کردار اور وہ فیصلہ آنے والے وقتوں تک زیرِ بحث رہے گا۔ اس کے بعد بھی اس ملک میں غیر جمہوری حکومتیں آئیں‘ آئین کو ردی کی ٹوکری میں ڈالا گیا اور عدالت کے جج حضرات کو آمر کے بنے ہوئے عبوری آئین کے مطابق نیا حلف لینے کے لیے بلایا گیا۔ یہ دعوت صرف اُنہیں ملتی رہی جن کے بارے میں معلوم تھا کہ وہ نئے زمانے کے لیے ساتھ چلیں گے۔ ہمیں تو صرف اُن کے نام یاد ہیں‘ بلکہ دلوں میں لکھے جا چکے ہیں جنہوں نے صاف انکار کردیا تھا۔ دوسروں کی بات ہم اس لیے نہیں کرتے کہ وہ جہاں ہیں خوش رہیں۔ جب عدلیہ بحالی کی تحریک چل رہی تھی تو ہم اکثر میڈیا پر بلائے جانے پر حاضر ہو جاتے۔ اس تحریک کا آغاز ہم نے ایمرجنسی کے نفاذ کے اگلے ہی روز اپنی جامعہ میں سب سے پہلے کر دیا تھا۔ ایک پروگرام میں جسٹس صدیقی صاحب اور راقم الحروف مدعو تھے۔ وہ پروگرام براہِ راست میرے آفس سے ہوا۔ اس کے لیے وہ میرے پاس تشریف لائے۔ چینل والوں کے مسائل کی وجہ سے ان کی مہمان نوازی کی عزت اس درویش کومفت میں مل گئی۔ اس رات کا قصہ اُنہوں نے تفصیل سے سنایا جب پرویز مشرف نے اپنی کرسی سے چمٹے رہنے کے لالچ میں آئین اور جمہوریت اور پورا نظام تباہ کرڈالا۔ کچھ بڑے لوگ شام کو ان کے گھر آئے اور بار بار اصرار کرتے رہے کہ کل آپ حلف لینے کے لیے ضرور تشریف لائیں۔ صدیقی صاحب نے صاف انکار کردیا۔ ترغیبات شروع ہوئیں کہ دیکھیں آپ چیف جسٹس آف پاکستان ہیں‘ ایسا نہیں کریں گے تو نہیں رہیں گے۔ باتیں وہ کم اور مختصر کرتے تھے۔ ”بھائی کہہ دیا نا! کہ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ حلف نہیں اٹھاؤں گا‘‘۔ بڑے لوگوں نے آپ کی اہلیہ کو بھی بلایا۔ ”دیکھیں بہن‘ یہ کیا فیصلہ کر رہے ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے جج کا عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔ سوچیں پھر آپ لوگوں کیلئے کیا رہ جائے گا‘‘۔ ”بھائی اللہ کا فضل ہے‘ سب کچھ ہے‘ کسی چیز کی کمی نہیں اور صدیقی صاحب جو فیصلہ کرتے ہیں ٹھیک ہی کرتے ہیں‘‘۔ رات گئے تک بڑے لوگوں نے ان کے گھر ڈیرے ڈالے رکھے۔ تنگ آگئے اور یہ کہہ کر چلے گئے کہ آپ سوچ لیں‘ ہم کل صبح آپ کے پاس دوبارہ آئیں گے۔اور وہ پھر آ گئے اور وہی باتیں ہونے لگیں۔ صدیقی صاحب نے وہی جواب دیا کہ بھائی کہہ دیا کہ حلف نہیں اٹھاؤں گا۔ باقی سب تاریخ ہے۔ سعید الزماں صدیقی صاحب مرحوم مزاحمت اور آزادی کی روایت زندہ کر گئے۔ عہدوں میں کیا رکھا ہے‘ آزادی کا مزہ کبھی چکھ لیں توآپ کو معلوم ہو جائے گا کہ آخر یہ کیا جذبہ ہے۔
آج پھر عدالتِ عظمیٰ پر وار کیے جا رہے ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف جو ہوا‘سکرپٹ وہی پرانا اور حربے بھی کوئی نئے نہیں۔ ایک کوئٹہ بینچ کی نوعیت کا فیصلہ بھی سنا ہے عجلت میں بغیر سیاق و سباق کے کروا لیا گیا۔ تیرہ جماعتی اتحاد‘ جن کے خلاف اتنے مقدمات ہیں کہ کوئی بھی عدالت لگائی جائے تو کہیں یہ نظر نہ آئیں‘ اعلامیہ یہ جاری کر رہا ہے کہ عدالتِ عظمی کو اپنا بینچ کیسے تشکیل دینا چاہیے۔ انتخابات کے بارے میں اپنی مرضی کا فیصلہ چاہتے ہیں‘جس کی آئین بالکل اجازت نہیں دیتا۔ صاف لکھا ہوا ہے‘ صاف پڑھا بھی جا رہاہے‘ دل اور دماغ صاف ہو تو اسمبلیاں ٹوٹنے کے نوے دن کے اندر انتخابات ہوں گے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور دیگر جج صاحبان آئین کی پاسداری کیلئے اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ ابھی تک سب حملے انہوں نے پسپا کر دیے ہیں۔ آج اس بحران میں تاریخ ساز وہ ہیں۔وہ کبھی سرخرو نہیں ہوں گے جو کوئی اور کھیل کھیل رہے ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ