مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ غازی خان کی خبریں

ڈیرہ غازی خان سے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلوں پر مبنی خبریں،تبصرے اور تجزیے۔

علم کیا سیکھاتا ہے

تحریر: محمد خنشان خلیل
ڈیرہ غازی خان

علم کیا سیکھاتا ہے
اور کیا ہم ہیں

علم پیار سیکھاتا ہے
دشمنی میں ہم ہیں

علم روشنی جلانا سیکھاتا ہے
اندھیرے میں ہم ہیں

علم بھائی چارہ سیکھاتا ہے
حسد و کینہ میں ہم ہیں

علم پرواہ سیکھاتا ہے
نفسا نفسی میں ہم ہیں

علم سچ سیکھاتا ہے
جھوٹ میں ہم ہیں

علم ایمانداری سیکھاتا ہے
رشوت کھانے والے ہم ہیں

علم آزاد بننا سیکھاتا ہے
زنجیروں میں ہم ہیں

علم وفاداری سیکھاتا ہے
غداری میں ہم ہیں

علم کامیابی سیکھاتا ہے
ہار میں ہم ہیں

علم حلال کمانا سیکھاتا ہے
حرام کھانے والے ہم ہیں

علم قیادت کرنا سیکھاتا ہے
غلامی میں ہم ہیں

علم کیا سیکھاتا ہے
اور کیا ہم ہیں

ازقلم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

مفت آٹا !
تحریر: محمد خنشان خلیل
ڈیرہ غازی خان

آج صبح ہی کی بات ہے، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ ہوا میں ایک عجیب سی مہک تھی۔ میرا دل کر رہا تھا، میں بس سانس لیتا رہوں۔ سورج ابھی نکل رہا تھا جیسے وہ بھی اس ہوا

سے لطف اٹھانا چاہتا تھا۔
میں گھر واپس لوٹا تو والدہ میرے انتظار میں تھیں۔
میں نے کہا

آج کی صبح پہلے سے بہت خوبصورت تھی۔ پتہ نہیں آج اس میں ایسا کیا تھا۔
والدہ نے کہا

اچھا تم ابھی ناشتہ کر لو۔ پھر باتیں تو ہوتیں رہیں گی۔ میں نے کہا

میں ذرا سا سو جاتا ہوں، نیند آ رہی ہے۔ شاید اتنی اچھی نیند مجھے دبارہ نہ آئے۔ میں سو گیا اور 3 گھنٹے بعد اٹھا۔ میں نے اٹھتے ہی چلا کر کہا

بھوک لگی ہے مجھے، کچھ کھانے کو چاہئے۔ مجھے کوئی آواز نہ سنائی دی۔ میں چپ ہو کر رہ گیا۔

میں نے پورا گھر دیکھا والدہ نہیں تھیں۔ میں پریشان ہوا، کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی، جب میں نے دروازہ کھولا تو میری والدہ تھیں۔ انہوں نے کہا

تم نے ناشتہ کر لیا؟
میں نے کہا:
نہیں۔

اور پھر ہاتھ منہ دھو کر ناشتہ کرنے لگا۔ ناشتہ کرنے کے بعد، والدہ نے کہا
آٹا ختم ہو گیا ہے اور پیسے بھی نہیں ہیں۔ تم ایسا کرو مفت آٹا لے آؤ اور میرا شناختی کارڈ لیتے جاؤ۔
میں نے کہا:

میں اتنی بڑی لائن میں نہیں ٹھہر سکتا میں نہیں جاؤں گا۔والدہ نے بار بار کہا تو میں جانے کے لیے تیار ہونے لگا۔

گھر سے باہر نکلا تو میرا ایک دوست مجھے ملا۔ میں نے اس کا حال احوال دریافت کیا اور پوچھا کہاں جا رہے ہو؟

اس نے کہا
میں مفت آٹا لینے جا رہا ہوں۔
میں نے کہا

میں بھی وہیں جا رہا تھا۔ آؤ ساتھ چلتے ہیں۔ جب میں وہاں پہنچا تو بہت بڑی لائن لگی ہوئی تھی۔ میں اور میرا دوست اس لائن میں جا کر ٹھہر گئے۔

میں نے دیکھا بڑے گھرانوں کے لوگ آئے، پانی پیا اور بغیر لائن میں کھڑے آٹا لے گئے۔ یہ بات مجھے نا گوار گزری۔

کچھ دیر بعد میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو پہلے سے زیادہ بڑی لائن بن چکی تھی۔ میرے دوست نے کہا میرے گھر میں کسی نے ناشتہ نہیں کیا۔

کیوں کہ آٹا نہیں تھا روٹی کیسے بنتی۔ اب میں گھر واپس جاؤں گا، میری امی مجھے دیکھ کر خوش ہونگی کیوں کہ ہم اب کھانا کھائیں گے۔

میرا نمبر آیا اور میں نے آٹا لے لیا۔ میرے دوست کو بھی آٹا مل گیا۔ لیکن لوگ اتنے تھے آٹا ختم ہو چکا تھا۔ میں دوست سے بات کرتے ہوئے چلنے لگا اور کہا
آؤ ہم واپس چلتے ہیں۔

میں واپسی گھر کی طرف لوٹ رہا تھا اور دوست سے بات کر رہا تھا۔ اچانک چیخنے کی آوازیں آنے لگیں۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا میں جس دوست سے باتیں کر رہا تھا، وہ تو موجود نہیں ہے۔ ہر طرف بھاگ دوڑ مچ گئی۔

کچھ لوگ پیروں تلے آ رہے تھے۔ اتنا بے دردی کا منظر تھا، بس ہر طرف چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ میں اپنے دوست کا نام پکار کر چلایا اس نے کوئی جواب نہ دیا۔

پھر میں نے دیکھا اس قحط سالی کی بھاگ دوڑ میں انسانوں نے انسانوں کو جانوروں کی طرح پیروں تلے روند ڈالا۔

بہت سے لوگ دم توڑتے نظر آ رہے تھے۔ پھر میں نے ایک نوجوان لڑکے کو دیکھا جو اس بھاگ دوڑ میں کچل چکا تھا۔

اس کا منہ خون سے لہو لہان تھا۔ میں نے اپنا رومال نکالا اور اس کا چہرہ صاف کیا۔ پھر دیکھا کہ یہ میرا دوست تھا جو میرے ساتھ آٹا لینے آیا تھا۔

لوگ ایک دوسرے سے آٹا چھین رہے تھے، ایک دوسرے کے ساتھ لڑ رہے تھے لیکن وہ دوسروں کو پیروں تلے کچلتا نہیں دیکھ رہے تھے۔

مجھے ایسا لگ رہا تھا میں قیامت کا ایک منظر دیکھ رہا ہوں۔

پھر میں نے اپنے دوست کے بازہ پکڑے اور اس کو اپنی پیٹھ پر بیٹھایا اور ہسپتال کی طرف روانہ ہوا۔ جب میں وہاں پہنچا تو میں چلا کر بولا کوئی ہے میرا دوست زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ایک ڈاکٹر آیا اور اس نے کہا

بیٹا تم پریشان نہ ہو میں اسے دیکھتا ہوں۔ ڈاکٹر نے ابھی اس کی کلائی پکڑی تھی کہ وہ اس لڑائی میں ہار چکا تھا۔

پھر اس کا خون صاف کیا گیا اور میں نے درخواست کی ایمبولینس کا بندوست کر دیں ڈاکٹر صاحب میں اپنے دوست کو اس کے گھر چھوڑ آؤں۔ مجھے کہا آپ اس ریسکیو کی ایمبولینس میں بیٹھ جائیں۔

میں بیٹھ گیا اور ریسکیو کے دو اہلکار میرے دوست کی لاش لے آئے اور میرے سامنے رکھ دی۔ میں نے گھر کا مکمل پتا بتایا اور ریسکیو نے گھر کے آگے چھوڑ دیا۔

میں نے دوست کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اور دوست کی بوڑھی والدہ بولیں

آ گیا میرا بیٹا کب سے میں تمہارا انتظار کر رہی تھی اور آٹا لے آئے ہو ناں۔ میں تمہیں ناشتہ بنا دوں۔
میں نے جواب دیا

آنٹی آپ کا بیٹا آٹا تو نہ لا سکا۔ لیکن میں آپ کا بے جان بیٹا لایا ہوں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ہمیں سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

%d bloggers like this: