حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن کمیشن کے خلاف درخواست کی سماعت کے تیسرے روز جسٹس جمال مندوخیل نے سماعت کے دوسرے دن (منگل کو) عدالت میں اختلافی فیصلے کے حوالے سے اپنے ریمارکس کو مسخ کرکے میڈیا پر نشر کرنے اور اخبارات میں اشاعت پر برہمی کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں تحریری اختلافی فیصلے پر قائم ہوں ۔ فیصلہ چار تین کے تناسب سے ہے میری کہی بات آدھی بتائی گئی۔ میں نے فیصلے کو سپریم کورٹ کا داخلی معاملہ قرار نہیں دیا تھا بلکہ فیصلے میں سپریم کورٹ کے جن انتظامی معاملات کا ذکر ہے صرف انہیں ہی داخلی معاملہ کہا تھا ۔
لیجئے اب اختلافی فیصلے کے اس پیرے ’’یہ فیصلہ چار تین کے تناسب سے ہے اور تمام ادارے اسے ماننے اور عمل کرنے کے پابند ہیں‘‘۔ کی روشنی میں تو وہ فیصلہ ہی نہیں ہوا جس سے انحراف کے خلاف درخواست لے کر پی ٹی آئی سپریم کورٹ گئی اور تین دن سے درخواست کی سماعت ہورہی ہے۔
جسٹس مندوخیل نے تیسرے روز کی سماعت میں یہ بھی کہا ’’جب فیصلہ ہی نہیں ہوا تو صدر مملکت نے الیکشن کی تاریخ کیوں دی‘‘۔
یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے۔ جسٹس مندوخیل کے دوسرے روز والے ریمارکس میں کانٹ چھانٹ کس کے کہنے پر ہوئی۔
کیا سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے اس پر ’’جمع بندی‘‘ کی اور نصف حصے کو میڈیا پر نشر کروانے کے انتظامات کئے یا پھر چیف جسٹس کے دفتر کے عملے نے جسٹس مندوخیل کے ریمارکس کی من پسند تشریح کو میڈیا کے لئے ضروری بنوایا۔
دو حصوں کے اس سوال کا جواب کسی تاخیر کے بغیر تحقیقات کا متقاضی ہے۔ سپریم کورٹ میں رپورٹنگ کرنے والے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے ان صحافیوں سے جو دوسرے دن کی سماعت کی کارروائی کی رپورٹنگ کررہے تھے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ انہیں کس نے مجبور کیا کہ وہ ’’بارٹر‘‘ سسٹم کے تحت ہی جسٹس مندوخیل کے ریمارکس کے صرف ایک حصے کو من پسند تشریح کے ساتھ آگے بڑھائیں۔
معاملہ محض ایک خبر کا نہیں بلکہ 24گھنٹے تک آدھی بات پر ہوتی بحثوں سے پیدا شدہ صورتحال کا ہے جس سے اٹھتی گرد تیسرے دن کی سماعت کے دوران ابتدا میں ہی جسٹس مندوخیل کی وضاحت سے ہوئی موسلادھار بارش سے بیٹھ تو گئی لیکن اب نیا تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔
اب بنیادی سوال یہ ہے کہ جو فیصلہ ہوا ہی نہیں اس سے انحراف (عدالتی فیصلے کی نفی) کے الزام میں تحریک انصاف کی درخواست قابل سماعت کیوں قرار پائی اور تین دنوں سے اس پر وکلاء کو کیوں سنا جارہا ہے؟
یہاں آپ کے سامنے دو باتیں رکھنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ اولاً یہ کہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیراعظم شہباز شریف کو یہ یہ پیغام کس نے پہنچایا تھا کہ اگر عرفان قادر کو اٹارنی جنرل بنایا گیا تو جوابی طور پر نیب ترامیم کے خلاف درخواست گزار کے حق میں فیصلہ دے دیا جائے گا۔
ضمنی بات یہ ہے کہ مستعفی ہونے والے اٹارنی جنرل شہزاد الٰہی کا نام پیغام رساں لے کر آیا تھا یا یہ واقعی وزارت قانون کی اپنی پسند تھی؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ نئے اٹارنی جنرل کی تقرری سے قبل چیف جسٹس کو کیسے معلوم ہوا کہ عثمان منصور اعوان کو اٹارنی جنرل بنایا جارہا ہے۔ (چیف جسٹس نے سماعت کے پہلے دن ڈپٹی اٹارنی جنرل کی جانب سے یہ کہنے پر کہ کل تک کا وقت دیجئے حکومت سے پوچھ کر بتاتے ہیں پر کہا مجھے معلوم ہے کہ نیا اٹارنی جنرل کون ہے وہ آج مجھ سے مل کر گئے ہیں)
اس میں بھی ضمنی بات یہی ہے کہ عثمان منصور اعوان کا نام کسی پیغام رساں نے پہنچایا۔ مسٹر اعوان کا تعلق کون سے چیمبر سے ہے کیا اس چیمبر سے تعلق رکھنے والی کونسی شخصیت کہاں بطور جج فرائض انجام دے رہی ہے۔
اسی میں دوسری ضمنی بات یہ ہے کہ ازخود نوٹس کی سماعت سے سیاسی جماعتوں، حکومت اور بار کونسلوں کے اعتراض پر بنچ سے الگ ہونے والے دو جج صاحبان میں سے ایک جج اب بنچ کا حصہ کیوں ہے؟
باردیگر اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ اختلافی فیصلے کا اہم پیرا وہی ہے ’’تمام ادارے اور فریق چار تین کے اس فیصلے پر عمل کے پابند ہیں‘‘۔ فیصلہ چار تین کا ہے یعنی ازخود نوٹس ہی خارج ہوگیا۔ جب ازخود نوٹس ہی نہ رہا تھا کون کس وجہ سے بضد ہے کہ فیصلہ تین دو کا ہے؟
میں ایک ذمہ دار قلم مزدور کی حیثیت سے اس حوالے سے موجود ایک افواہ نما خبر کو آگے نہیں بڑھانا چاہتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اگر سپریم کورٹ جیسے ادارے نے معاملات کو سنبھالنے کی کوشش نہ کی تو بہت دھول اڑے گی۔
جس اہم ترین سوال سے روز اول سے بھاگا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ کیس تو سی سی پی او لاہور کے تبادلے کا تھا تبادلہ نگران حکومت نے کیا تھا لیکن اس کیس کی سماعت کرنے والے دو رکنی بنچ نے نہ صرف کسی کی ’’تسکین قلوب‘‘ کے لئے چیف الیکشن کمشنر کو طلب کیا بلکہ چیف جسٹس سے ازخود نوٹس لینے کے لئے سفارش کردی۔
کیا اس کیس میں انتخابی عمل اور الیکشن کمیشن کا کردار ہر دو کا تذکرہ تھا؟
مزید آگے بڑھتے ہیں اصولی طور پر جسٹس مندوخیل نے تیسرے دن کی سماعت کے ابتدائی مرحلہ میں جو وضاحت کی اس کے بعد پی ٹی آئی کی درخواست کی سماعت جاری نہیں رہنی چاہیے تھی کیونکہ جس فیصلے کو جواز بناکر درخواست دائر کی گئی وہ تو ہوا ہی نہیں۔
جب فیصلہ ہی قانونی حیثیت نہیں رکھتا تو خلاف ورزی کس نے کی؟ یاد رے ہم صرف ازخود نوٹس، اس کے پس منظر اور اگلے مراحل میں جنم لینے والے سوالات اور اب پی ٹی آئی کی درخواست کی سماعت پر بات کررہے ہیں۔
انتہائی ادب و احترام کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اب دستور قانون فیصلے اس فیصلے کی قانونی حیثیت، ان سب سے اہم ’’انا‘‘ ہوگئی ہے۔
انا کے اس کھیل میں تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں ملنا۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں بعض مقدمات اور فیصلوں کے حوالے سے جج صاحبان کا فہمی اختلاف نئی بات نہیں ہے۔ اختلافی فیصلے آتے رہتے ہیں درجنوں مثالیں موجود ہیں۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ چیف جسٹس کہتے ہیں ازخود نوٹس کا فیصلہ تین دو سے ہے جبکہ دو جج صاحبان نے اختلافی فیصلے میں لکھا ہے کہ فیصلہ چار تین کا ہے اور قابل عمل حکم چار جج صاحبان کا فیصلہ ہے۔
جب تک یہ معاملے طے نہیں ہوجاتا کسی تلخی کے مظاہرے کی ضرورت نہیں جیسا کہ سماعت کے تیسرے روز دیکھنے میں آئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے چند بڑے جو منگل کی شام تک جسٹس مندوخیل پر واری صدقے ہو ہو جارہے تھے بدھ کی دوپہر بارہ بجے کے بعد آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں۔
فواد چودھری کہتے ہیں جسٹس مندوخیل اپنے موقف سے پیچھے کیوں ہٹے؟ جبکہ جج صاحب کہہ رہے ہیں کہ میں نے گزشتہ روز جو بات کہی اس کا نصف حصہ پوری بات بناکر میڈیا پر سنایا پڑھایا گیا جس سے غلط فہمیوں نے جنم لیا۔
اب اگر کوئی تحقیقاتی کمیٹی جسٹس مندوخیل کے موقف کو مسخ کرکے میڈیا کے ذریعے آگے بڑھانے کی تحقیقات کرتی ہے (جس کی کہ مجھے امید نہیں) تو پھر یہ کمیٹی دو افراد کو بھی بلائے اولاً فواد حسین چودھری کو اور ثانیاً شیخ رشید کو۔
یہ امر بجا طورپر حیران کن ہے کہ اختلافی فیصلہ کے پیراگراف کو (جس کا بالائی سطور میں دوبار ذکر کرچکا) نظرانداز کرکے پی ٹی آئی کی درخواست کی شنوائی ہورہی ہے۔
اصولی طور پر سماعت روک کر پہلے اختلافی فیصلے کے مخصوص پیراگراف کا معاملہ حل کیا جانا چاہیے تھا ۔ بادی النظر میں تو یہی لگ رہا ہے کہ کچھ معززین کے نزدیک دستور قانون عدالتی وقار سے زیادہ پسندوناپسند اور خواہشات اہم ہیں۔
یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ آئینی بحران بڑھ رہا ہے یہ تاثر ابھرنے لگا ہے کہ سپریم کورٹ کے کچھ معزز جج صاحبان کے نزدیک قانورن سے زیادہ ان کی ذات اہم ہے ا سی لئے وہ ایک ایسے معاملے کی شنوائی کررہے ہیں جس بارے کبھی وہ فیصلہ نہیں ہوا جس سے انحراف کے خلاف درخواست دائر ہوئی۔
ازخود نوٹس اور اختلافی فیصلہ دونوں اب پبلک پراپرٹی ہیں ان پر بحث اور سوالات عدالت کے وقار یا جج صاحبان کی ذات پر حملہ ہرگز نہیں۔ جج صاحبان کو بھی ایسے ریمارکس نہیں دینے چاہئیں جن سے سیاسی کشیدگی بڑھے یا یہ تاثر ابھرے کہ آئین اور قانون سے کھلواڑ ہورہا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ