عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشرقی بنگال میں 71ء میں جو پاکستان کی فوج کے اعلیٰ عہدے دار تھے اُن میں سے جتنے لوگوں نے 71ء کی جنگ بارے لکھا بشمول جنرل نیازی کے وہ سب مشرقی بنگال میں اپنی شکست کی بنیادی ذمہ داری مغربی پاکستان کی فوج کی کمان کرنے والوں پر ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ مغربی پاکستان کی سرحد سے ملنے والے علاقوں میں جارحیت نہ کرسکے اور مغربی محاذ پر شکست سے دوچار ہوگئے اور وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اُن کی کمان میں مشرقی بنگال میں پاکستان کی افواج نے بھارتی جارحیت اور مُکتی باہنی کے حملوں کو پسپا کردیا تھا اور وہ ڈٹے رہے تھے –
دوسری طرف مغربی پاکستان میں اُس زمانے میں فوج کی کمان کرنے والے افسران مشرقی پاکستان میں جنگ ہارنے کی زمہ داری جنرل نیازی اور اُن کے ساتھیوں پر ڈالتے ہیں –
حقیقت میں دونوں مقامات پر فوج کے یہ جرنیل بھارت سے لڑنے کی بجائے عوام سے لڑ رہے تھے – انھوں نے ادارے کی طاقت اور اختیار کو عوام کے سیاسی، آئینی، جمہوری اور بنیادی حقوق کو پامال کرنے میں خرچ کیا-
مسلح افواج کے پیشہ وارانہ فرائض کو پس پشت ڈالا نتیجے میں یہ بھارتی جارحیت کا جواب نہ دے سکے –
عوام کی اکثریت کی حمایت دے محروم طالع آزما، اقتدار اور طاقت کے بھوکے اور ملکی وسائل کی لوٹ مار کرنے والے جرنیل ہماری مسلح افواج کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ تھے –
زوالفقار علی بھٹو نے افواج پاکستان کے مورال کو گرنے سے بچانے کے لیے اور اس امید پر کہ نئی فوجی قیادت اپنے پیشہ وارانہ فرائض پر توجہ مرکوز رکھے گی اور اپنے ہی ملک کو فتح کرنے سے باز رہے گی حمود الرحمان کمیچن رپورٹ کو شایع کرنے اور اس کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کرنے کی بجائے انھیں جبری ریٹائر کرنے پر اکتفا کیا لیکن اُن کی امید پرستی کو جرنیلوں نے محض پانچ سال کے مختصر وقفے کے بعد خاک میں ملادیا اور اپنے سب سے بڑے محسن کو پھانسی کے تختے پر لیجاکر کھڑا کردیا-
افواج پاکستان کے اُس وقت کے سربراہ جنرل ضیاء الحق اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل غلام جیلانی نے مُحسن پاکستان اور حُب الوطنی سے سرشار زوالفقار علی بھٹو کو جعلی انٹیلی جنس رپورٹوں سے یہ یقین دلایا کہ نیپ کی حکومت اور اُس کے حمایتی بھارت، سوویت یونین سے مل کر بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کے لیے مسلح تحریک اور بغاوت کا آغاز کرچکے ہیں اور اگر اُن کے خلاف فوجی آپریشن نہ کیا گیا تو ملک ٹوٹنے سے نہیں بچ سکے گا – نیپ کے خلاف دستاویزی ثبوت کس قدر مہارت سے تیار کیے گئے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھٹو حکومت انھیں سچ جان کر سپریم کورٹ میں لیکر گئی اور سپریم کورٹ نے نیپ پر پابندی لگائی اور بھٹو نے سپیشل حیدرآباد ٹربیونل بناکر نیپ کی قیادت کے خلاف بغاوت اور غداری کا مقدمہ چلانا شروع کردیا- افواج پاکستان کے سربراہ جنرل ضیاء الحق اور دیگر جرنیلوں نے بھٹو کو یہ بھی باور کرایا کہ اگر وہ نیپ کے خلاف کاروائی نہیں کرتے اور بلوچستان میں فوج کشی نہیں کرتے تو اس سے فوج کے جوان اُن کے خلاف بغاوت کردیں گے – بی ایس او عوامی کے بانی مرکزی صدر رحیم ظفر نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ کیسے وہ بلوچ ہوکر بھی خود بلوچستان میں فوجی آپریشن کو درست خیال کررہے تھے اور نواب اکبر بُگٹی بھی اس کاروائی کو حب الوطنی کا تقاضا سمجھ رہے تھے – پیپلزپارٹی بلوچستان کے کارکنوں اور رہنماؤں کی اکثریت بھی اُس کاروائی کو درست خیال کررہی تھی –
رحیم ظفر نے اپنی یاد داشتوں میں نیپ کے حکومتی اراکین اور نیپ کی اکثر لیڈرشپ کے رویوں اور اقدامات کی انتہاپسندی کو بھی اس کاروائی کا جواز فراہم کرنے کی وجہ قرار دیا ہے – وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نیپ کی لیڈرشپ میں سردار عطاءاللہ مینگل، نواب خیر بخش مری وغیرہ نے میر غوث بخش بزنجو کی طرف سے بھٹو سے بات چیت کرنے اور لڑائی کے راستے پر نہ چلنے کی جو تجویز دی تھی اُسے بھی مسترد کردیا تھا اور تشدد کا جواب تشدد سے دینے اور مرکز سے لڑائی کا راستا اختیار کرنے کا فیصلہ کیا – نیپ کی قیادت کے غیر لچکدار رویے نے بھٹو سے بات چیت کے دروازے کو بند کردیا اور یوں بحران کا سیاسی حل نکلنے کا امکان ختم ہوگیا اور معاملات فوج کے جرنیلوں کے ہاتھ میں چلے گئے – ایک مرحلے پر بھٹو نے نیپ کی حیدرآباد میں نظربند قیادت سے میر غوث بخش بزنجو کے زریعے بات چیت کا راستا ہموار کرنے کی کوشش بھی کی تو ایک طرف سردار عطاء اللہ مینگل، خیر بخش مری اور ولی خان کی غیر لچکدار پوزیشن اور دوسری طرف ضیاء الحق کی جانب سے ایسے اقدام سے فوج میں بد دلی اور بے چینی پھیل جانے کی رائے نے بھٹو کو پسپا کردیا –
جرنیل عوامی حکومت کے خاتمے اور مُلک پر شب خون مارنے کے ایجنڈے پر کام کررہے تھے اور انھوں نے جب یہ مقصد آپریشن فئیر پلے کے زریعے حاصل کرلیا اور جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ جمالیا تو حیدرآباد سپیشل ٹربیونل کو ختم کردیا اور نیپ کی نظر بند قیادت کو رہا کردیا – اور وہ فوجی آپریشن جسے ملک کی سلامتی اور بقا کے لیے ناگزیر قرار دے کر بھٹو سے شروع کرایا تھا اُس کی ساری زمہ داری بھی بھٹو پر ڈال دی – فوج کے جرنیلوں نے جنھیں بھٹو کے سامنے غدار بناکر پیش کیا تھا وہ اقتدار پر قبضہ ہوجانے کے بعد قابل احترام مظلوم اور محب الوطن قرار پاکر رہا کردیے گئے – وہ وزیراعظم جسے فوج کے جرنیل محسن پاکستان اور گرداب میں پھنسی قوم کا نجات دہندہ قرار دیتے نہیں تھکتے تھے دیکھتے ہی دیکھتے فاشسٹ، غدار، ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار پاگیا – بلوچستان میں فوج آپریشن کے دوران بلوچ قوم کی نسل کُشی کا سارا الزام بھی اُس کے سر پر ڈال دیا گیا – جسے 16 دسمبر 1971ء میں پیدا ہونے والے ہلاکت انگیز حالات کے دوران پاکستان کا نجات دہندہ، ملک کی عزت، وقار اور سلامتی کا ضامن بناکر پیش کیا تھا اُسے 71ء میں پاکستان توڑنے کا واحد مرکزی کردار قرار دے دیا گیا – حمود الرحمان کمیشن رپورٹ میں جن افسران کے کورٹ مارشل کرنے کی سفارش کی گئی تھی انھیں عزت و احترام بخشا گیا مرنے پر پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر ستر توپوں کی سلامی دے کر دفن کیا گیا –
آج اُن غداروں اور ملک توڑنے کے زمہ دار اور ملک میں جمہوریت پر شب خون مار کر مارشل لاء لگانے والے جرنیلوں کی اولاد جیسے اسد عمر و اعجاز الحق ہیں کنٹنئر پر کھڑے ہوکر پھر جمہوریت اور آئین کے خلاف سازش کرنے میں مصروف ہیں اور خونی انقلاب کی بڑھکیں مار رہے ہیں – بھٹو اُن کی نظر میں کل بھی ولن تھا اور آج بھی ولن ہے – ہوس اقتدار میں اندھے یہ کردار ملک میں جمہوری سیاسی کارکنوں کو اندھے عقیدت مند کہتے ہیں – جو جرنیل اُن کو زبردستی فوج کی طاقت سے اقتدار میں لانے پر راضی نہ ہو اُسے یہ میر جعفر و میر صادق کہتے ہیں-
انہوں نے اپنے محسن زوالفقار علی بھٹو کو آج بھی کہٹرے میں کھڑا کر رکھا ہے اور اُسے شہید کرنے کے بعد بھی سنگسار کرنے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں –
عمران خان تحریک طالبان پاکستان کو دوبارہ منظم کرنے اور ضیاء الحق کی باقیات کا ایجنڈا لیکر سامنے آنے والے فیض حمید جیسے جرنیلوں کی پشت پناہی سے ملک میں فسطائی راج قائم کرنا چاہتا ہے اور اپنے ساتھ پاکستان کی اربن چیٹرنگ مڈل کلاس کی انھی پرتوں کے نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملائے ہوئے ہے جو بھٹو کے بارے میں پاکستان کے دلال میڈیا مالکان کی پھیلائی ہوئی باتوں کو لیکر بھٹوز سے شدید بغض اور نفرت کرتا ہے – اُسے آصف علی زرداری سے شدید نفرت بھی اسی بنیاد پر ہے کہ وہ بھٹو کا داماد ہے اور بے نظیر کا شوہر ہے اور وہ شہید بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے سیاسی ورثے کو کامیابی سے اُن کے جانشین بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو میں منتقل کرچُکا ہے – وہ آصف علی زرداری سے اس لیے بھی نفرت کرتے ہیں کہ اُس نے مسلم لیگ نواز کے شہباز شریف سمیت کئی قد آور سیاست دانوں میں فٹ کی گئی اینٹی بھٹو چِپ الگ کردی ہے – انھیں اس بات پر بے پناہ غصہ اور نفرت ہے کہ آصف علی زرداری نے پشتون اور بلوچ قوم پرست سیاست کے بڑے نظریہ ساز سیاست دانوں جیسے ولی خان، میر غوث بخش بزنجو، عبدالصمد خان اچکزئی اور سردار عطاء اللہ مینگل کے سیاسی وارثوں کو اپنی سیاسی بصیرت سے اپنے ساتھ ملاکر جمہوریت کی لڑائی کو اور مستحکم کردیا ہے بلکہ پی پی پی کے پنجاب میں سب سے بڑے دشمن خاندان کے بزرگ سیاست دان چودھری شجاعت حسین کو بھی اپنے حُسن اخلاق سے جیت لیا ہے اور وہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر آصف علی زرداری کے ساتھ ہیں – آصف علی زرداری جمہوری قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے سبب عمران خان کی بندوق کے نشانے پر ہے –
شومئی قسمت آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت کا احترام آج جب سب جمہوری قیادت کرتی ہے تب بھی پی پی پی سنٹرل پنجاب میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے خیال میں آصف علی زرداری کا نام اُن کی سیاست کے راستے میں روکاوٹ ہے – چودھری اعتزاز احسن جیسے لیڈر آصف علی زرداری کی بجائے روشنی عمران خان کے ہاں ڈھونڈتے پائے جاتے ہیں اور اپنے سیاسی اندھے پَن کو دور کرنے کی بجائے وہ عمران خان کے بیانیے کو اپناکر پنجاب میں پی پی پی کے احیاء کے دعوے کرتے ہیں – اس طرح کے واقعے کو کہتے ہیں اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے – جو روشنی ولی خان کے پوتے ایمل خان کو دوسرے گھر میں رہ کر نظر آرہی ہے وہ روشنی پی پی پی کے گھر میں مقیم پی پی پی سنٹرل پنجاب کی قیادت اور اعتزاز احسن کو نظر نہ آئے تو اس پر انا للہ پڑھنے کے اور کیا پڑھا جاسکتا ہے – اب بھی وقت ہے نوشتہ دیوار پڑھ لیا جائے –
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر